پٹنہ: ۱۰؍نومبر(پریس ریلیز) خدا بخش لائبریری میں’۱۷ویں صدی میںہندستانی فارسی شاعری: مثنوی مہر و ماہ از عاقل خاں رازی کے خصوصی حوالے سے‘ کے موضوع پر لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میںڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائرکٹر، خدا بخش لائبریری نے کہا کہ ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی فارسی زبان یہاں پہنچی۔ یہاںفارسی زبان و ادب کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندؤں نے بھی ذریعہ اظہار بنا کر شعر و ادب کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ 14ویں اور 17ویں صدی کے درمیان دکن میں پروان چڑھنے والے دربار فارسی زبان و ادب کے اہم مراکز بن گئے۔تیمور کے بعدپہلے چھ مغل حکمرانوں (1525تا1707) نے ہندستانی فارسی ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس دور میں متعدد ہندو شاعروں اور ادیبوں نے فارسی زبان و ادب کو نہ صرف اپنایا بلکہ گہری چھاپ چھوڑی۔ اس زمانے میں بہت سے ہندو شاعروں نے فارسی ادب میں بہت شہرت حاصل کی، جیسے کہ راجہ منوہر داس اور بھوپت رائے سوائی بیغم ۔ جہانگیر اور شاہ جہاں کے درباروں کے عظیم اور نامور شاعروں میں طالب آملی ، مشہد ی قدسی اور ابوطالب کلیم کے علاوہ صائب تبریزی جس نے ہندوستان میں چھ سال گزارے۔ اس کے علاوہ عاقل خاں رازی اور زیب النسا مخفی نے فارسی ادب میں اپنی نمایاں موجودگی درج کرائی۔ آج کا یہ لیکچر فارسی ادب کے انھیں دو بڑے شاعروں کی شعری خدمات پر مبنی ہے۔ مسٹر وکٹر بیپٹسٹے اسی موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس کے لئے بیرون ملک سے یہاںتک کا سفر کیا ہے۔ خدا بخش لائبریری کا فارسی ذخیرہ بہت ثروت مند ہے بالخصوص فارسی مخطوطات۔ جس کے لئے دور دراز ممالک سے یہاں اسکالرس تشریف لاتے ہیں۔
مسٹر وکٹر بیپٹسٹے نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ خدا بخش لائبریری اپنے عظیم ذخیرہ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں آکر میں فخر محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں کے مخطوطات بڑے اہم اور نادر ہیں۔جہاں تک تعلق ہے ۱۷ویں صدی میں ہندستان کی فارسی شاعری کا تو یہ دور فارسی ادب کے لئے بڑا اہم اور ثروت مند ہے۔ سبک ہندی کے نام سے ایک نیا اسلوب فارسی شاعری میں یہیں رائج ہوا۔ عرفی شیرازی، صائب تبریزی، بیدل عظیم آبادی، غنی کشمیری، نعمت خاں عالی، کلیم کاشانی، ناصر علی سرہندی، فیضی وغیرہ شاعروں نے اس اسلوب کو ایک بلندی عطا کی اور تخیل اور تازہ گوئی میں نئے نئے تجربے کئے۔ اس دور میں ہندو قصوں سے ماخوذ کہانیوں کو فارسی قالب میں ڈھالاگیا۔ فیضی کی نل دمن مہابھارت کے ایک قصہ پر مبنی ہے۔
ملک محمد جائسی نے پدماوت کو فارسی میں منظوم کیا ۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی تحفۃ القلوب کے نام سے پدماوت کے قصہ کو پیش کیا گیا۔ عاقل خاں رازی نے مدھومالتی کے قصہ کو مثنوی مہر و ماہ میں پیش کیا۔ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں یہ مختلف مناصب پر فائز ہوئے اور اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ اورنگ زیب سے عاقل خاں رازی کی بڑی قربت تھی اور تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ زیب النسا مخفی سے ان کے گہرے ربط و ضبط تھے۔ اورنگ زیب کے خلاف بغاوت میں زیب النسا نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا تھا۔ مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی ان کے ہم عصر شاعروں میں سے تھے اور انہوں نے راز ی کی وفات پر ایک غزل تحریر کی جس میں اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اسے مختلف عناوین سے یاد کیا ہے۔آخر میں سوال و جواب کا بھی سلسلہ چلا، جس کے تشفی بخش جواب دئے گئے۔ آخر میں ڈائرکٹر صاحبہ نے کہا کہ ہندستان میں فارسی زبان و ادب کی ایک شاندار روایت رہی ہے۔بالخصوص ۱۷ویں صدی کے ہندستان میں مقیم فارسی شاعروں نے فارسی زبان و ادب کی گراں مایہ خدمات انجام دیں اور ہندی قصوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک خوشگوار فضا قائم کی اور اس کی جڑوں کی اس حد تک آبیاری کی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود اس خوشگوارفضا پر کبھی گرد نہیں پڑی۔
