لکڑی کے گھر کے باہر جہاں میں فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا وہیں ہیکورا (بدروحوں کو بھگانے والے مقامی عامل) جمع ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ساتھ برازیل کے بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کے لیے 10 کوہ پیما اور 20 مقامی لوگ بھی موجود ہیں۔ ان عاملوں نے سترپوشی کے لیے صرف شارٹس پہن رکھی تھیں اور اُن کے بازوؤں پر پرندوں کے پروں سے بنے پٹے موجود تھے۔ یہ عامل وہاں ایک رسم ادا کرنے کے لیے جمع تھے تاکہ ہائیکرز، پورٹرز اور گائیڈز بحفاظت پہاڑ کی چوٹی پر جائيں اور واپس آئيں۔انھوں نے ایمازون کے جنگل کے مخصوص درختوں کی چھالوں اور پودوں سے تیار ’پریکا‘ نامی ایک سفوف کو زور سے سونگھا۔ چند منٹ بعد قے کی حالت اور عجیب طرح کی آوازیں نکالنے کے بعد اُن کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ایسا لگا کہ وہ ہوش میں آ گئے ہوں۔وہ وہاں جمع لوگوں کے درمیان ہیجانی انداز میں بازو ہلا رہے تھے اور کسی ایسی مخلوق سے محو گفتگو تھے جس کو کم از کم میں دیکھنے سے قاصر تھا۔
ہم ہائيکرز کے ساتھ دو دن کے سفر کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ ہم ’ایمیزوناس‘ ریاست کے دارالحکومت ماناؤس سے ہوائی جہاز، بڑی کار اور سپیڈ بوٹ جیسے ذرائع استعمال کرتے ہوئے میٹوراکا پہنچے تھے۔ یہ برازیل کے ایمازون کے گھنے جنگلات والے شمالی حصے میں واقع سات دیہات پر مشتمل ایک علاقہ ہے جہاں تقریباً 3,000 یانوومی (مقامی قبائلی باشندے) آباد ہیں۔ میں وہاں یانومامی افراد سے اُن کی ماحولیاتی سیاحت کے منصوبے کے بارے میں بذات خود سننے آیا تھا جو انھوں نے رواں سال ہائیکرز کو ’پیکو دا نیبلینا‘ کی چوٹی تک لے جانے کے لیے شروع کیا تھا۔
میں جس گروپ کے ساتھ تھا وہ مہینوں کی تیاری کے بعد کوہ پیمائی کے لیے بیتاب تھا لیکن کسی کو بھی ان مقامی عاملوں کی اجازت اور حفاظت کے بغیر آٹھ دن کے لیے میتوراکا کو چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔
یانومامی کی تنظیم ’اے وائی آر سی اے‘ کے صدر جوز ماریو پریرا گوز نے کہا کہ ’یہ پہاڑ مقدس ہیں، یہ بُری اور اچھی دنوں قسم کی روحوں کا گھر ہیں۔ (وہ لوگ) جو روایتی طور طریقوں پر عمل کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ روحوں کی حقیقت کیا ہے، اور جو لوگ وہاں (پہاڑ) جاتے ہیں ان کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔‘’روحیں کسی شخص کی بھی روح لے سکتی ہیں اور جس شخص کی وہ روح لے لیں وہ شخص مر جاتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ [پیکو دا نیبلینا] صرف ایک پہاڑ ہے، ایسا نہیں ہے۔‘
پریرا گوز نے مزید کہا کہ میتوراکا میں جس حفاظتی رسم کا میں نے مشاہدہ کیا تھا وہ زائرین کے ذہنوں اور جسموں کو پہاڑ پر موجود روحوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی مداخلت سے محفوظ کر دیتا ہے۔سیاحوں کے لیے ’پیکو دا نیبلینا‘ کا افتتاح بعض کوہ پیماؤں کے لیے تقریباً 20 سالہ انتظار کے خاتمے کی علامت ہے کیونکہ برازیل کی حکومت نے سنہ 2003 میں زائرین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے پہاڑ پر چڑھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ زائرین میں سے بہت سے لوگ وہاں کچرا بھی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ نئے منصوبے کے تحت یانومامی آبادی سیاحت سے آمدنی پیدا کرنے کے قابل ہو جائے گی تاکہ ان کی اپنی برادری کے اراکین کے ساتھ ساتھ باہر کے کان کنوں کے ذریعہ سونے کی منافع بخش کانکنی سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد ملے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ مقامی برادریوں کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔ اور یہ ایک مثال ہو سکتی ہے کہ کس طرح احتیاط اور منظم ماحولیاتی سیاحت ایمازون کو زمین کا استحصال کرنے والے بیرونی گروہوں سے بچانے میں مدد کر سکتی ہے۔پیکو دا نیبلینا (پرتگالی میں اس کا مطلب ’کہر آلود چوٹی‘) کو پہلی بار سنہ 1950 کی دہائی میں بیرونی دنیا نے ’دریافت‘ کیا تھا۔ لیکن اس علاقے میں 1,000 سال سے زیادہ عرصے سے آباد یانومامی قبیلے کے لیے اس پہاڑ کا نام یاریپو (یانومامی زبان میں ’ہواوں کا گھر‘) ہے۔ یاریپو برازیل اور وینزویلا کے درمیان سرحد پر واقع ہے اور یہ سیرا ڈو امیری کوہستانی سلسلے کا ایک حصہ ہے اور اس کی دانتوں کی بناوٹ جیسی چوٹی کی اونچائی 2,995 میٹر تک بلند ہے۔ استوائی جنگل کا ایک مضبوطی سے بُنی چادر تقریباً 1,000 میٹر تک پہاڑ کی بنیاد سے لپٹی ہوئی ہے اور پھر اس کے بعد سے پودے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
نہ صرف یہ برازیل کا سب سے اونچا پہاڑ ہے بلکہ اسے پیدل چڑھنے کے لحاظ سے مشکل ترین مقامات میں سے ایک کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
یہ پہاڑ ایسے کوہ پیماؤں کی فہرست میں شامل رہا ہے جو بہت دنوں تک جنگل، بارش، کیڑے اور چھالوں سے لڑنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ سنہ 2003 تک بہت سارے لوگوں نے اس چیلنج کو قبول کیا جب تک کہ یہ قومی پارک زائرین کے لیے بند نہ کر دیا گيا۔انسٹی ٹیوٹو سوشیو ایمبیئنٹل (آئی ایس اے) کی لانا روزا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت، یانومامی کو کم سے کم رقم ادا کی جاتی تھی۔ سیاحت کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کی جانچ نہیں ہوتی تھی۔ زائرین ش راب اور ممنوعہ اجزا لاتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ استحصال کی حد تک پہنچ گیا تھا۔‘
خیال رہے کے آئی ایس اے ایک این جی او جس نے AYRCA اور دیگر تنظیموں کے ساتھ ساتھ یاریپو ایکوٹوریزم پروجیکٹ کو تیار کرنے میں مدد کی ہے۔چونکہ یانومامی کو اس بات پر قدرت حاصل نہیں تھی کہ وہ یہ طے کر سکیں کہ کتنے زائرین پہاڑ پر چڑھیں اور نہ ہی وہ ان کے برتاؤ پر کوئی کنٹرول رکھتے تھے اس لیے انھوں نے برازیل کی ماحولیاتی ایجنسی سے اپیل کی جس نے چوٹی تک رسائی کو روک دیے جانے کا فیصلہ کیا۔نئے منصوبے کی منصوبہ بندی سنہ 2015 میں شروع ہوئی اور اسی سال سے برازیل کی حکومت نے مقامی زمینوں پر سیاحت کو منظم کرنا شروع کیا۔اس سے پہلے، سیاحت کے اثرات کو کم کرنے کے بارے میں کوئی رہنما اصول نہیں تھے اور نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت تھی کہ مقامی گائیڈز کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔آج کل مقامی برادریوں کو حکومتی منظوری کے لیے تفصیلی دورے کے منصوبے جمع کرانے کی ضرورت ہے۔
روزا نے کہا کہ ’یاریپو پلان کو لکھنے میں برسوں لگے کیونکہ یہ مشترکہ مشاورتی عمل تھا، جس میں بہت سی میٹنگز، مباحثے، اتفاق رائے تلاش کرنا اور وہاں کی مقامی برادریوں سے مشاورت شامل تھی۔‘اور جب سنہ 2020 میں یہ شروع ہونے کے لیے تیار تھا تو وبائی مرض نے اسے مزید دو سال پیچھے کر دیا۔یانومامی گائڈ کے ساتھ کام کرنے والی چند ٹراول ایجنسیوں (ایمازون ایموشنز اور ایمبیئنٹل ٹورزمو) میں سے ایک روریما ایڈونچرز کی جواکم ماگنو سوزا نے کہا کہ ’ہم رواں سال ایسے لوگوں کو لے کر آئے ہیں جو 2003 سے پہلے سے اس سفر کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ بلا شبہ برازیل میں سب سے مشکل چڑھائی ہے۔ یہ جذباتی اور جسمانی دونوں طرح سے بہت زیادہ محنت کا متقاضی ہے۔‘
ایمازون ایموشنز کی وینیسا مارینو کا کہنا ہے کہ یہ ان بہترین طریقوں میں سے ایک ہے جس سے زائرین ایمازون کا تجربہ کر سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’یاریپو کا سیاحتی ڈھانچہ بہت بنیادی ہے۔ یہ کوئی انتہائی ترقی یافتہ ایورسٹ یا کلیمنجارو (کی کوہ پیمائی) نہیں لیکن یہ سفر اصلی ہے۔ یانومامی اپنے پہاڑ کو غیر ملکیوں کے ساتھ باعزت طریقے سے مشترک کرنے کے متعلق پرجوش ہیں اور کوہ پیماؤں کو راستے میں جو بھی مشکلات درپیش ہیں یانومامی کو جاننے کے تجربے سے اس کا وزن 100 گنا کم ہے۔‘زائرین اور یانومامی کے درمیان ثقافتی تبادلہ درحقیقت اس منصوبے کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔ یہ ان گیتوں اور کہانیوں میں شامل ہے جو یانومامی رات کو الاؤ کے گرد جنگل میں سناتے ہیں اور یہ وہ علم ہے جو وہ درختوں اور پودوں کے بارے میں ہائکنگ کے دوران شیئر کرتے ہیں جو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے ان کی خوراک اور ادویات کا ذریعہ رہے ہیں۔
روزا کا کہنا ہے کہ ’برازیل کے مقامی باشندے کئی سال سے تعصب کا شکار رہے ہیں۔ نوجوان اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بیرونی اثرات قبول کرنے کے لیے زیادہ کھلے ہوئے ہیں، اس لیے جب وہ زائرین کو اپنی ثقافت کی قدر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس سے ان میں اپنی ثقافتی قدر کا مضبوط احساس پیدا ہوتا ہے۔‘
’لوگ جب پہاڑ سے نیچے آتے ہیں تو وہ یانومامی کے ساتھ دوستی تعلق سے سرشار اور جذبات سے مغلوب آنسوؤں کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ بہت زیادہ تشکر کے جذبے کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ یہ واقعی تبدیلی لانے والا احساس ہے۔‘راستے کی تھکن، صعوبتوں اور مایوسیوں کے بعد آخر میں خوشی کے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ پگڈنڈی سے زیادہ دشوار گزار راستہ ندیوں، گرہ دار جڑوں، دلدلوں اور پھسلنے والی چٹانوں سے گزرنے کا راستہ ہوتا ہے جہاں شدید توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔یاریپو کی چوٹی پر چڑھنے کا فاصلہ صرف 36 کلومیٹر ہے لیکن اس میں پانچ دن لگ جاتے ہیں (اور تین اور راستے ہین جو واپس نیچے جانے کے لیے ہیں)۔(بہ شکریہ بی بی سی اردو)
ان راستوں سے بہت احتیاط سے گزرنا ہوتا ہے اور اتنا وقت لگنا یہ بتاتا ہے کہ وہ خطہ کتنا خطرناک ہے۔
پہلے تین دن تک گھنے، گرم اور مرطوب بارشی جنگل برومیلیڈس سے بھرے دلدل سے گزرنا ہوتا ہے جہاں جوتے گھٹنوں تک کيچڑ میں گھس جاتے ہیں۔ اونچی زمین پر، درجہ حرارت واحد ہندسوں تک گرنے کے ساتھ ہی پودے کم ہوتے جاتے ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں بارش اور پسینے سے لتھڑے کپڑوں میں داخل ہوکر جسم میں چبھتی ہیں۔
پانچویں دن چوٹی کی طرف صرف 1,000 میٹر کی چڑھائی بچ جاتی ہے اور ایک موقع پر تو درجنوں دھاتی دھاروں کو پکڑ کر گزرنا ہوتا ہے جو قریب کے عمودی چٹان کے چہرے میں ہتھوڑے سے ڈالے گئے ہیں۔
اس سب کے بعد بھی چوٹی تک پہنچنے والے چند خوش نصیب ہائیکرز ہی ہوتے ہیں۔