ریاض فردوسی
۔9968012976
2 جنوری 1492 اسپین کے مسلمانوں کے لیے ایک منحوس دن تھا،اس تاریخ کو غرناطہ کے آخری سلطان ابو عبداللہ محمد دو از دہم عیسائی سلاطین فردی نند اور ازبیلا کے ہاتھوں میں شہر غرناطہ کی کنجی سونپ دی۔
جو اس بات کی علامت تھی کہ اسپین سے مسلمانوں کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حکومت ختم ہو گئی،قرطبہ سے خلافت ختم ہونے کے بعد اندلس کے جنوب میں ایک شہر غرناطہ میں مسلمانوں کی خلافت قائم ہوئی،جو ڈھائی سو برسوں تک قائم رہی۔
امارت غرناطہ کی بنیاد ابن الاحمر نامی ایک شخص نے سال 1238 ء میں ڈالی اور اسے اپنے مملکت کا دارلخلافہ بنایا،امارت غرناطہ جنوبی اندلس میں مسلمانوں کی آخری آزاد حکومت تھی،اس دوران عیسائیوں کے تین زبردست اور طاقتور مملکتیں۔پرتگال، قسطلہ َاور ارغون بھی قائم تھیں،اپنی حکومت کو مستحکم اور پائیدار کرنے کے لیے سلطان ابن الاحمر نے قسطلہ کی حکومت کے ساتھ امن معاہدہ قائم کیا اور قسطلہ کے بادشاہ کو سالانہ خراج دینے اور قسطلہ کا ایک Vassal state بن کر رہنے پر بھی راضی ہوا۔ابن الاحمر کے اس پالیسی کو اسکے جانشینوں نے بھی برقرار رکھا، اس ڈھائی سو سالہ حکومت میں متعدد بار غرناطہ اور قسطلہ کے مابین جنگیں ہوئی، جس میں کبھی قسطلہ کو شکست ہوئی تو کبھی غرناطہ کو،ان جنگوں میں Battle of Elvira اور Battle of Tarifa مشہور ہے، قسطلہ کے خلاف جنگ میں غرناطہ کی حکومت شمالی افریقہ کے مراکش کی بنو مرین حکومت سے مدد طلب کرتی ہے اور بنو مرین غرناطہ کے ساتھ ملکر عیسائی سلطنت سے جنگ کرتی ہے،لیکن طریفہ کے جنگ کے بعد Strait of Gibraltar پر پرتگالیوں کا قبضہ ہو گیا، اس جنگ میں بنو مرین کی شکست کے بعد پھر کبھی بھی شمالی افریقہ کے مسلم حکومت کی طرف سے سے غرناطہ کو فوجی امداد نہیں پہونچی۔
سال 1474ء غرناطہ کی تاریخ میں ایک Turning point ہے، اس سال قسطلہ کا بادشاہ ہنری چہارم کی موت کے باد اس کی سوتیلی بہن ازبیلا قسطلہ پر تخت نشیں ہوتی ہے، اس سے پانچ سال قبل 1469ء میں ازبیلا(Isabella) کی شادی ارغون کے شہزادہ فردی نند (Ferdinand) کے ساتھ ہوتی ہے اور 1479ء میں فردی نند ارغون کا راجہ بنتا ہے، اس طرح ارغون اور قسطلہ کی سلطنتیں متحد ہوکر ایک طاقتور عیسائی سلطنت بن جاتی ہے یا یوں کہ اسپین کا اتحاد (Unification of Spain) ہو جاتا ہے اور اندلس کے نصف سے زیادہ حصوں پر مسیحیوں کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔
قسطلہ کی رانی ازبیلااور ارغون کے بادشاہ فردی نند کو Catholic monarchs کہا جانے لگا۔
غرناطہ کے سلطان ابوالحسن علی کی فوج 29 ستمبر 1471ء کو قسطلہ کے ایک شہر پر حملہ آور ہوتی ہے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے، اس جنگ میں ایک عیسائی خاتون گرفتار ہوتی ہے،جس کے ساتھ سلطان ابوالحسن علی نکاح کرتا ہے اور اس کا نام ثریا رکھتا ہے اور اس سے دو بچے بھی پیدا ہوتے ہیں۔
اپنی وفات سے پہلے سال 1477ء میں ابوالحسن علی نے قسطلہ کو روایتی خراج دینا بند کر دیا اور پھر سال 1481ء میں اس کی فوج نے Zahara شہر پر حملہ کرکے وہاں کے عیسائیوں کو غلام بنا لیا۔ Zahara کی شکست کے بعد کیتھولک حکمرانوں نے غرناطہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔انتقامی کاروائی میں قسطلہ 1482ء میں غرناطہ کو فتح کیا اور وہاں کے مسلمان باشندوں کو قتل کر ڈالا۔
اسی سال 1482ء میں ابو الحسن علی کا لڑکا محمد دو از دہم بغاوت کیا اور اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور غرناطہ کا سلطان بن بیٹھا،اقتدار سنبھالتے ہی وہ قسطلہ پر حملہ کیا لیکن لوسینا کے مقام پر وہ گرفتار کر لیا گیا،لیکن بعد میں اسے اس شرط پر آزاد کیا گیا کہ مالقہ (Malaga) کے محاصرہ میں وہ غیر جانبدار رہے گا اور اسے یہ بھی لالچ دیا گیا کہ اس غیر جانبدار ری کے عوض میںاسے کچھ علاقے انعام کے طور پر دئے جائے گے،
رہا ہونے کے بعد محمد دوازدہم دوبارہ غرناطہ کا سلطان بنتا ہے اور اس کا چچا ابو عبداللہ زغل جو اس کی غیر موجودگی میں غرناطہ کا سلطان تھا اپنے بھتیجا کے حق میں اقتدار منتقل کر دیتا ہے۔
سال 1487ء میں مالقہ کا محاصرہ ہوا اور تین مہینہ کے محاصرہ کے بعد مالقہ قسطلہ کے مملکت کا ایک حصہ بن گیا۔
1489ء میں باجا کا بھی محاصرہ ہوا اور وہ بھی قسطلہ کے ماتحت ہو گیا، قسطلہ نے غرناطہ کے سلطان محمد دو از دہم کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے جانے کی وجہ سے سلطان محمد نے قسطلہ سے سارے رشتہ ناتے منقطع کر دیا اور ایسے نازک موقع پر وہ ہسپانیہ سے باہر مراکش اور مصر کے مسلمان حکمرانوں کو امداد کے لیے درخواست کیا لیکن اس گھڑی میں کسی نے بھی آگے بڑھ کر مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ سال 1491ء میں ازبیلا اور فردی نند نے غرناطہ کا محاصرہ کیا اور آٹھ مہینے کے بعد محاصرہ ختم ہوا اور غرناطہ قسطلہ کا حصہ بن گیا اور اس طرح غرناطہ کی حکومت ختم ہوئی۔ معزول سلطان محمد دو از دہم اپنے پورے خاندان کے ساتھ اندلس سے مراکش ہجرت کر گیا۔اس کا چچا ٹیونس کے شہرTiemcen میں انتقال ہوا۔ معزول سلطان کی سوتیلی ماں اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کر لی۔
اندلس سے روانگی کے وقت سلطان محمد قصر الحمراء کے طرف رخ کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اس موقع پر اس کی ماں نے اسے ڈانٹا کہ تم ایک عورت کی طرح اس سلطنت کے ہاتھ سے نکل جانے پر رو رہے ہو ، جسے تم ایک مرد کی طرح بچا نہیں سکے۔
غرناطہ کا معاہدہ!
25 نومبر 1491 ء میں غرناطہ کا محاصرہ اور شکست کے بعد قسطلہ کی رانی ازبیلا اور ارغون کے راجہ فردی نند اور دوسری طرف غرناطہ کے راجہ محمد دو از دہم جسے Boabdil کے نام سے یورپ والے جانتے ہیں کے مابین ایک صلح نامہ ہوا ،جس کے مندرجہ ذیل شرائط تھے۔
( 1) مسلمان چاہے تو اسپین میں رہ سکتے ہیں یا دوسرے پڑوسی ممالک شمالی افریقہ کے مراکش، ٹیونس وغیرہ ہجرت کر سکتے ہیں۔
( 2) مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم رہنے اور اسلامی رسومات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی ۔
( 3) جو لوگ اسپین چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں سرکاری جہاز میں بلا معاوضہ شمالی افریقہ پہونچا دیا جائے گا۔(آخرمیں علماء اکرام اور چند مسلمان اہل علم ودانشوران کو لے کر ایک جہاز ایک اپریل کو روانہ ہوا بیچ سمندر میں جاکر سب کو قتل کردیا گیا،اسی کی یاد میں First April Fool Day منایاجاتاہے)
( 4) جو لوگ عیسائی مذہب ترک کرکے مسلمان ہوئے ہیں انہیں ترک اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔
دیکھنے اور سننے میں اس معاہدہ کے شرائط اچھے اور خوشنما تھے ،لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی تھی، سال 1499ء کے آمد ہی سے اس معاہدہ کے تمام شرائط کو عیسائی سلاطین نے فراموش کر دیا اور شہر غرناطہ کے مختلف مقامات میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد شروع کر دیا، عیسائی پادریوں نے زبردستی مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے کے لیے مجبور کیااورجبراََاسلام ترک کروایا، پانچ ہزار عربی مخطوطات نزر آتش کر دئے گئے،جن میں سب سے زیادہ کتاب اللہ ،احادیث مبارکہ اور تاریخ اسلامی کتب قابل ذکر ہیں۔
تین ہزار مسلم قیدیوں کو عیسائی فوج نے قتل کر ڈالا، ایک مسجد میں عورتیں اور بچے پناہ لئے ہوئے تھے ان سبھی کو بارود سے اڑا دیا گیا، مسلمان مردوں کو قتل کیا گیا اور ان کے عورتوں کو غلام بنایا گیا، بچوں کو اغوا کیا گیا تاکہ جوان ہونے پر اسے عیسائی بنایا جا سکے، ایک جہاز جو مسلمانوں کو اسپین سے شمالی افریقہ لے جا رہا تھا اسے بیچ سمندر میں غرق کر دیا گیا۔
مذہب تبدیلی کے لئے مسلمانوں کو اذیت دینا شروع کیا گیا، مسلمان قیدیوں کو اتنا بے رحمی سے پیٹا گیا کہ وہ لوگ دین عیسوی اختیار کر لینے پر مجبور ہو گئے، اس سے حوصلہ مند ہوکر پادری نے پوپ الیکجندڑ کو اس بات سے مطلع کیا کہ غرناطہ میں ایک دن میں تین ہزار لوگ عیسائی مذہب قبول کئے، لیکن اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ لوگ برائے نام عیسائی بنے تھے، یہ لوگ عربی زبان میں بات چیت کرتے تھے، مسلمانوں جیسا لباس پہنتے تھے اور کھانا پینا بھی کرتے تھے، یہاں تک کہ اسلامی رسومات پر عمل کرتے، یہ لوگ قول سے عیسائی ضرور تھے لیکن دل سے مسلمان تھے ،شائد یہ لوگ سورہ نحل آیت نمبر 106سے واقف تھے کہ جبر و قہر کی صورت میں اگر کوئی کفریہ کلمات زبان سے کہہ بھی دے لیکن دل میں مضبوط ایمان ہو تب بھی وہ مسلمان ہی رہتا ہے۔بہرکیف جو نو مسلم تھے یعنی جو عیسائی سے مسلمان ہونے تھے ،ان کو گرفتار کرکے پادریوں کے پاس پوچھ تاچھ کے لئے لے جایا جاتا، اسی دوران ایک عیسائی خاتون (جودل سے مسلمان ہی تھی)کو لوگ پکڑ کر لے جا رہے تھے کہ اس خاتون نے شور و غل کی، تو غرناطہ کے Albaicin کے مقام پر لوگوں نے عیسائی Officials پر حملہ کر دیا اور ایک کانسٹیبل کا قتل کر دیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے مسلمانوں نے بغاوت کر دی، لوگوں نے ایک پادری کے گھر پر بھی حملہ کر دیا، عیسائی فوجیوں نے بغاوت کو کچل دیا،پادری کو اشبیلیہ طلب کیا گیا، لیکن اس نے عیسائی سلاطین کو اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ باغیوں کو اس شرط کے ساتھ عام معافی دی جائے کہ وہ دین عیسوی قبول کر لے-
دوسری بار عیسائیوں کے خلاف بغاوت 1501ء میں غرناطہ کے Alpujarras پہاڑی کے لوگوں نے کیا، اس بغاوت کو بھی کچل دیا گیا، غرناطہ کے نام نہاد صلح نامہ میں جو رعایتیں مسلمانوں کو دی گئی تھیں، ان بغاوتوں کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا، اس کے بعد 1502ء میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا کہ اب مسلمان یا تو عیسائی بن کر اسپین میں رہے یا ملک چھوڑ کر چلے جائیں یا غلام بن کر رہے۔
اب جو لوگ شمالی افریقہ جانے کے لئے تیار بھی ہوئے تو جہاز کا کرایہ میں اتنا اضافہ کر دیا گیا کہ مجبوراً انہیں اسپین میں عیسائی بن کر رہنا پڑا۔
بعد میں عیسائی پادریوں کو جب یہ احساس ہوا کہ جو لوگ مسلمان سے عیسائی بنے ہیں وہ ابھی تک مسلم ہی ہیں تو یکم جنوری 1567ء کو اسپین کے راجہ فلپ دویم نے ایک فرمان جاری کیا کہ اب کوئی بھی عیسائی نہ ہی اسلامی لباس، رسومات اور نہ ہی عربی زبان استعمال کر سکتا ہے، اس کے نتیجہ میں دوسری بار 1568ء سے لیکر 1571ء تک Alpujarras میں مسلمانوں کی بغاوت شروع ہو گئی، لیکن یہ بغاوت بھی کچل دیا گیا، اس طرح آٹھ سو برسوں تک جو اسپین مسلمانوں سے آباد تھا، وہ ملک مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔
کیا اب ہندوستانی مسلمانوں کی باری ہے؟
٭٭٭
