تھکے پاؤں

– قیّوم خالد
”ممّی میری رِبّن کہاں ہے“ آسیہ نے پُکار کر پوچھا اور اس سے پہلے کہ ممّی باورچی خانہ سے جواب دیتیں، عمران بول اٹھا۔ ”افوہ بے بی تم ابھی تک چوٹیوں سے کھیل رہی ہو۔ روز تمہاری چوٹیوں کی وجہہ سے اسکول کو دیر ہوجاتی ہے“۔
”رہنے دو بھیا تُم بھی تو وقت پر تیار نہیں ہوتے ہو۔ کبھی پالش کرتے رہتے ہو، کبھی کتابیں ڈُھونڈا کرتے ہو“۔
عمران جو کہ پالش کررہا تھا اُس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا ”آج اگر دیر ہوئی تو دیکھ لینا تُمہاری چوٹیاں کاٹ کر کُھوٹی پر لٹکادُوں گا“۔ اُس نے کُھوٹی کی طرف اشارہ بھی کیا۔
بڑے آئے کُھوٹی پر لٹکانے والے۔ آسیہ نے اپنے لانبے لانبے کُھلے بالوں کو ہاتھ میں لیا اور پیار سے چُومتے ہوئے بولی۔ کتنے خُوبصورت اور لانبے بال ہیں۔ میری سہیلیاں تو تعریف کرتے نہیں تھکتی کہ اتنے گھنے اور لانبے بال تو اُن کی بڑی بہنوں کے بھی نہیں ہے۔ اک تُم ہو کہ مرے بالوں سے جلتے رہتے ہو۔
”ہاں میڈم کی چھڑی تمہارے بالوں سے بھی لانبی ہے“۔
اچانک آسیہ کو شرارت سُوجھی اُس نے بات پلٹتے ہوئے کہا ”بھیّا تُمہارے چہرے پر کیا لگا ہے؟“
”کہاں“ وہ بھی نوک جھونک بُھول کر پوچھنے لگا۔
”ناک کے پاس“۔ اُس نے ہاتھ لگاکر پُوچھا ”یہاں“۔
”نہیں ذرا اُوپر“۔اُس نے گال کی ہڈی کے پاس لگاکر پوچھا ”یہاں“۔
”نہیں ذرا اور اُوپر“۔ اُس نے کنپٹی کے پاس ہاتھ لگایا۔
نہیں ذرا اور اُوپر بائیں طرف۔ اُس نے بھوں کے اوپر ہاتھ لگایا۔
”جاؤ بھیا“ وہ جل کر بولی ”تُم تو اِشاروں کی زبان سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ”جاکر آئنہ میں دیکھ لو“۔
وہ اُٹھ کر کمرے کی طرف بھاگا۔ ”آسیہ نے روکا۔ اُدھر کدھر بھاگ رہے ہو پپّا سورہے ہیں“۔
عمران نے دالان میں لٹکے ہوئے آئنہ میں جھانکا اور فوراً چِلّایا۔ اچھا آسیہ کی بچّی۔ تری اس شرارت کا بدلہ نہ لیا تو میرا بھی نام عمران نہیں“ اُس کے چہرے پر پالِش کے نشان تھے۔ وہ بھول گیا تھا کہ اُس کے ہاتھوں کو پالِش لگی ہوئی تھی۔
”اور دو چوٹیاں کاٹنے کی دھمکیاں“۔ آسیہ نے ہنستے ہوئے کہا عمران نے اُس کی طرف پلٹ کر مُکّا دِکھایا اور پھر آئنہ دیکھنے لگا۔ آئنہ سے ایک سنّاٹا چھلک رہا تھا اور اُس سنّاٹے میں اُس کا چہرہ اور پالِش کے نِشان سب کچھ کھوچُکے تھے۔ اُس نے آئنہ میں غور سے دیکھا۔ آنگن میں زرد خِزاں کے پتّے بِکھرے ہوئے تھے۔ کام والی بُوا ابھی نہیں آئی تھیں۔ آنگن میں ایک طرف پپّا کی ”جاوا“ رکھی ہوئی تھی۔ جس پر تارپولین بِچھا ہوا تھا جو دُھول میں اٹ چُکا تھا۔ اس پر بھی دوچار زرد پتے بکھرے ہوئے تھے۔ اب تک گاڑی بِک بھی چُکی ہوتی۔ پاپا نے تو کہہ بھی دیا تھا کہ گاڑی بیچ ڈالو اب میں کبھی بھی اُسے چلانے کے قابل نہیں ہو پاؤں گا۔ لیکن ممّی نے اِنکار کردیا۔ اُنہیں پورا یقین تھا کہ پپّا بہت جلد گاڑی چلانے کے قابل ہوجائیں گے۔ یا شائد پپّا کا دل رکھنے کی خاطِر گاڑی نہیں بیچی تھی۔ ایک بار پھر اُس کے ذہن پر آئنہ میں سمٹا ہوا سنّاٹا چھا گیا۔
کتنی خامُوشی ہے گھر میں پہلے کتنا شور ہُوا کرتا تھا۔ پپّا چِلّایا کرتے تھے۔ چلو جلدی تیار ہوجاؤ ورنہ مجھے کالج کو دیر ہوجائے گی۔ ممّی کو بھی جلد ناشتہ بنانے کے لئے کہا کرتے۔ کبھی کبھی تو ممّی جُھنجھلاجاتیں۔ آپ تو بچوں سے بھی زیادہ شور مچاتے ہیں۔ اس پر وہ ممّی کی نازُک ناک آہستہ سے پکڑ کر مسکراتے۔ تو کیا تُمہیں مرگھٹ کی سِی خاموشی اچھی لگتی ہے۔اچّھا میری ناک تو چھوڑیئے ممّی کہتیں کیونکہ اتنی ہی دیر میں ممّی کی ناک سُرخ ہوجاتی تھی۔ پپّا ہمیں جلدی کرنے کو کہتے تھے لیکن خُود تیار ہونے میں دیر لگادیتے تھے لیکن اُس کے بعد بڑی تیزی سے ہمیں وقت سے پہلے اسکول پہونچادیتے تھے۔ اُن دنوں اسکول کو دیر ہوجانے کا خدشہ نہیں رہتا تھا۔ پپّا کمپلسیو فاسٹ رائیڈر تھے۔ گاڑی اِتنی تیز چلاتے تھے کہ کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتیں۔ کبھی ممّی ساتھ ہوتیں تو بوکھلا جاتِیں۔ ذرا آہستہ چلایئے نا۔ لگتا ہے آپ مُجھے بیوہ کرکے ہی چھوڑیں گے۔ آئندہ کبھی آپ کی گاڑی پر نہیں بیٹھوں گی۔ آپ یہ جاوا بیچ کر اِسکوٹر خرید لیجئے۔ تیزچلانے کی عادت تو چُھوٹے گی۔ اس پر پپّا فخر سے مسکراتے اور گردن اکڑاکر کہتے۔ تم نے ہماری رفتار دیکھی ہی کہاں ہے۔ جب ہم کنوارے تھے تو اس سے زیادہ تیز چلایا کرتے تھے۔ اب تو تُمہارا خیال ہمارے پاؤں میں زنجیر ڈالدیتا ہے۔
”عمران“ پپّا کی آواز نے اُس کے خیالات کا تسلسل توڑ دیا وہ پپّاکے کمرے میں چلا گیا۔ پپّا اُس کے چہرے پر لگی پالش دیکھ کر ہنس پڑے۔ تم نے ابھی تک منہ نہیں دھویا۔ یہ آسی بڑی شریر ہوگئی ہے۔ تو پپّا جاگ رہے تھے۔ اُس نے سوچا۔ جاؤ اپنا منہ دھولو۔ مجھے بھی ایک گلاس پانی پلانا۔ عمران ایک جگ میں پانی۔ گلاس اور بیسن لے آیا۔ پپا نے کُلّی کی اور بائیں ہاتھ سے پانی پیا۔ دایاں ہاتھ بے حس سا ان کے گود میں پڑا رہا۔ ”ممّی کو بلاؤں“۔ اُس نے پوچھا۔
”نہیں بیٹے پہلے تم لوگ کھانا کھالو۔ اِسکُول کو دیر ہوجائے گی۔“ تبھی ممّی نے باورچی خانہ سے آواز لگائی۔عمو‘ آسی چلو کھانا تیار ہوگیا۔ عمران بھاگ گیا۔ وہ دونوں کی شرارتیں سوچ کرمسکرانے لگا۔ وہ بہت دیر سے دونوں کی نوک جھونک سے لُطف اندوز ہورہا تھا۔دفعتاً باورچی خانہ سے آواز آئی۔ آپ نے روٹیاں کم کیوں بنائی ہیں۔ یہ باسی روٹیاں میں نہیں کھاؤں گا۔ یہ مجھ سے نہیں کھائی جاتی ہیں۔
اچھا مت کھاؤ مگر شورمت کرو پپّا جاگ جائیں گے۔ اُس کی بیوی کی آواز اُبھری۔ اُسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اُس کے چہرے کی مُسکراہٹ کھروچ لی۔ اُس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا مگر وقت کے لگائے ہوئے گھاؤ تو بہت گہرے ہوتے ہیں۔
”چلئے اُٹھئے“ بچوں سے فارغ ہوکے اُس کی بیوی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ وہ بائیں ہاتھ پر زور دے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ بیوی نے سہارا دے کر بِٹھایا۔ اب اُس کی حالت قدرے بہتر تھی۔ خُود سے اُٹھ کر بیٹھ تو سکتا تھا مگر ذرا سی دقّت کے ساتھ۔ پھر بیوی نے بیسن لاکر مُنہ ہاتھ دُھلایا۔ تولیہ سے مُنہ پونچھا۔ بیوی نے سہارے کے لئے پیٹھ کے پیچھے تکیہ دیتے ہوئے کہا ”چلئے ایکسر سائز کیجئے“۔”اب ایکسر سائز رہنے دو کل کرلیں گے“۔
”نہیں‘ کاہلی نہیں چلے گی اِس معاملے میں مَیں آپ کی اک بات بھی سُننے والی نہیں ہوں۔“
وہ جِسم کو تھوڑا سا تنا کر ہاتھ اُوپر اُٹھانے لگا۔”اُوپر اور اُوپر اور …… اور شاباش۔ چلئے ایک بار پھر دہرایئے۔“
”سب بیکار ہے کب تک میرے ساتھ تکلیف اُٹھاؤگی“۔ اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا ”ارے واہ کیوں بیکار ہے“۔ آج تو آپ ہاتھ کاندھے تک اُوپر اُٹھا چکے ہیں۔ تھوڑے دن میں آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے“۔ قریب آکر اُس نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اُس نے ایک ہاتھ سے بیوی کے چہرے کو تھام لیا اور انہماک سے اُس کی گہری آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ اُن آنکھوں میں اک عجیب سا سُکون تھا عز م تھا۔ بیمار وہ ہوا تھالیکن اچّھے ہونے کا یقین اُن آنکھوں میں لِکھا ہوا تھا۔ اور اُس کے لئے وہ حالات سے لڑ بھی رہی تھی۔
وہ ناشتہ لے کر آگئی۔ کُچھ دن پہلے تک وہ خُود سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ بیوی اپنے ہاتھ سے کھانا کِھلایا کرتی تھی لیکن اب پلیٹ کو تپائی پر رکھ کر اور ہاتھ کو تکیوں کے سہارے ٹِکاکر کھانے لگا تھا۔ ”تم بھی ساتھ ہی کھالو“۔
”نہیں میں بعد میں کھالُونگی“ اُس نے پہلے کہا لیکن پھر کچھ سوچ کر اُس نے اپنے لئے بھی پلیٹ لے آئی۔
”وہ روٹیاں کہاں ہے“ اُس نے پوچھا۔ ”کون سی روٹیاں“۔
”وہی …… باسی روٹیاں۔ لاؤ میں کھالوں گا“ اُس نے کہا نہیں رہنے دیجئے نصیبن بوا کو دے دیں گے۔
وہ جانتا تھا کہ نصیبن بوا باسی کھانا نہیں لیتی ہے
”آج زیادہ پکانے پر غُصّہ نہیں کروگے“۔ بیوی نے ہنستے ہوئے پُوچھا وہ پہلے ضرورت سے زیادہ پکانے پر غُصّہ کیا کرتا تھا وہ غذا کو باسی کرکے کھانے کا قائل نہیں تھا۔ ایک دم اُس کی آنکھوں میں دُکھ سِمٹ آیا اور اُس کی زخمی نگاہوں کی بے یقینی بیوی کا چہرہ پڑھنے لگی۔ اُس کے دل میں خواہش اُٹھی کہ کبھی تو اُس کے چہرے پر بیزارگی اور تھکن پڑھے تاکہ وہ اپنے من میں اُلجھی ہوئی بے بسی کو غُصّہ کی صورت میں اُگل دے۔ چِیخے چِلّائے کہ سولہ برس میں نے یہ گھر چلایا ہے اور اب میری چند مہینوں کی بیماری برداشت نہیں ہورہی ہے۔ تُم لوگ مُجھ سے بیزار ہوگئے ہو۔ لیکن بیوی کا چہرہ پُر سکون تھا اور آنکھوں میں وہی دِھیمی دِھیمی سی مُسکراہٹ تھی جسے وہ اب تک کوئی نام نہ دے سکا تھا۔اُس نے دوسرا حربہ اختیار کیا۔ اب مُجھے غُصّہ کرنے کا حق ہی کیا ہے۔ تُم کمارہی ہو تُم خرچ کررہی ہو۔
”لیکن یہ سب کچھ آپ ہی کا تو ہے۔ مجھے یہ نوکری بھی تو آپ ہی کی وجہہ سے مِلی۔ اُس نے مُحبّت بھرے انداز میں کہا۔ کھانے کے بعد حسبِ معمول بیوی نے دوپہر کا کھاناقریب کی میز پر رکھ دیا۔ الماری سے ایک ساڑی نکالی اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ آئنہ کے سامنے کھڑی ہوکر کنگھی کرنے لگی۔ وہ بغیر استری کی ہوئی شفان کی ساڑی میں لپٹے ہوئے عکس کو دیکھتا رہا۔ پہلے سے یہ کتنی دُبلی ہوگئی ہے اور رنگ بھی جل گیا ہے۔ تُم نے ساڑی کو اِستری نہیں کی۔ ”بُھول گئی“۔ اُس نے بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے کہا۔ وقت کے نہ ملنے کو کِتنی خُوبصورتی سے اُس نے بُھول بتا کر ٹالدیا ہے۔ وہ خُود جانتا تھا کہ کل اُسے وقت نہیں مِلا تھا۔ کالج سے واپسی کے بعد سہارا دے کر اُسے چہل قدمی کرانا اُس کے بعد شام کا پکوان اور پھر بچّوں کی پڑھائی۔ یہ تھی روز کی مصروفیات جو اُسے تھکا دیتیں تھی۔ اُس نے جلدی جلدی آڑی ترچھی کنگھی کی وہ کہتا رہا کہ کنگھی تو پوری کرلو۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اُس نے کہا ”ٹھیک ہے“۔ پھر اُسے دوا لاکر پِلائی اور الماری سے کتابیں نکالنے لگی۔ کتابیں دیکھ کر اُس نے پُوچھا ارے ہاں میں تو پُوچھنا ہی بھول گیا۔ ”میں نے کینسر وارڈ لانے کو کہاتھا۔“
”نہیں وہ مِلی نہیں۔ ڈاکٹر نے تُمہیں سنجیدہ کتابیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ صرف ہلکے پھلکے اور رُومانی ناول ……“
”خیررُومانی ناول پڑھنے کی تو اب عُمرہی نہیں رہی۔“ اُس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔بیوی نے کتابیں دیتے ہوئے کہا۔ ”مُجتبیٰ حسین کی کچھ کتابیں لائی ہوں۔ انگریزی کی کتابیں تو پڑھتے ہی رہتے ہو۔“(جاری)
اُس نے کتابیں لیتے ہوئے کہا”یہ تُمہیں کہاں سے مل گئیں۔ اپنے کالج والے اتنے دل والے کہاں سے ہوگئے کہ اُردو کی کتابیں منگانے لگے۔“
”کالج والے کیا منگائیں گے۔ اُردو سکشن کے نام پر تو اُن لوگوں نے ۴۰ء سے پہلے کی کتابیں جمع کر رکھی ہیں۔ نئی کتابوں کے لئے تو بجٹ ہی نہیں رہتا۔ یہ تومیں نظامس ٹرسٹ کی اُردو لائبریری سے لائی ہوں۔ اچھا اب چلتی ہوں“۔ اُس نے ہینڈ بیگ اُٹھایا اور خُدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔
اِس نے کتابیں بعد میں پڑھنے کے ارادے سے اُٹھا کر رکھدیں اور تازہ اخبار اُٹھاکر پڑھنے لگا۔ وہی پُرانی خبریں تھیں۔ اِقتدار کے لئے رسّہ کشی حُکومت بنانے کی کوششیں‘ حُکومت توڑنے کی سازشیں‘ گھاتیں۔ وہ لوگ جو پچھلے الیکشن میں ایک دُوسرے کے دُشمن تھے جِنہوں نے ایک دُوسرے کو گالیاں دے کر ووٹ حاصل کئے تھے اب گلے مِل رہے تھے۔ اُصولوں کے لئے لڑنے والے سمجھوتوں پر اُتر آئے تھے۔ اپنے آپ کو سچائی کے علمبردار کہنے والے سچائی سے خوفزدہ ہوکر مصلحتوں کی نقابوں میں پناہ لئے ہوئے تھے اور کُچھ لوگ اِقتدار کے نشہ میں مست تانڈو ناچ میں مصرف تھے۔ وہی ہورہاتھاجوہوتاآیاتھا۔کبھی علیگڈھ میں فسادات ہوتے۔ اِنسان خُون کے گھاٹ اُتارے جاتے۔ جمشید پور میں خون کی ندیاں بہتی۔۔ کچھ ممبرانِ پارلِیمان کو شکایت تھی کہ اُنھیں پانی دستیاب نہیں ہے۔ وہ لیڈر جو دیوتا سمجھے جاتے تھے جنہوں نے دیش کو سنکٹ سے نِکالا تھا غُلا می کے طوق توڑے تھے وہ بھی اپنی اِمیج کی خاطِر خاموش تھے۔ جلدہی اُس کا دل خبروں سے اُچاٹ ہوگیا۔ صفحہ پلٹا کر وہ فِلمی اشتہارات دیکھنے لگا ”سفر“، ”خاموشی“ مُقدّر کا سِکندر، مُقدّ ر کا سکندر ۲۹ ویں ہفتہ میں چل رہی تھی تو مُجھے بیمار ہوکر چھ مہینے ہوگئے تب مُقدّر کا سکندر چوتھے ہفتہ میں چل رہی تھی۔ پھر وہ اِنگلش پکچرز کے ٹائٹلر کے ترجُمے پڑھنے لگا کیونکہ کبھی کبھی بڑے دلچسپ ترجُمہ پڑھنے کو ملتے تھے جیسے KISS KISS KILL KILL کا ترجمہ اُن لوگوں نے چُوم چُوم مارمار کیا تھا اور Johny Banco کا ترجُمہ کیا تھا ”بانکے جانی“۔ شہر میں بڑی اچّھی اچّھی انگریزی فلمیں چل رہی تھیں۔ آپریشن ڈے بریک۔ گاڈفادر، سیڑڈے نائٹ فیور سیٹرڈے …… ہاں وہ ہفتہ ہی کی بات تھی جِس دِن یہ حادثہ ہُوا تھا۔ اُس دن اُس کے جسم میں اک تناؤ سا تھا۔ طبیعت میں ایک وحشت سی ایک بے نام انتشار سا تھا، بے کلی بے چینی اُداسی۔ اُس کی رگ رگ ٹُوٹ رہی تھی۔ وہ دن بھر کوئی کام نہ کرسکا۔ شام کو کالج سے گھر لوٹتے وقت اُسے اچانک یاد آیا کہ اُس نے اِتوار کے دِن بیوی کوپِکچر دِکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ بہت دن سے یہ وعدہ ٹلتے آرہا تھا۔ اُس نے گاڑی کا رُخ دِلشاد تھیٹر کی طرف موڑ دیا۔ مُقدّر کا سِکندر کی اڈوانس بکنگ کروانے کے لئے۔
کیومیں ٹہر کر جب وہ ٹکٹ لے کر نکلا تو اُسے ایسا لگا جیسے وہ بہت تھک گیا ہے۔ اُسکا سارا شرٹ پسینے میں بِھیگ چُکا تھا۔ رات بھر اُس کے اعصاب میں اک تناؤ سا تھا۔ سر میں شدید درد‘ دل پر اک گھبراہٹ سی طاری تھی جس کے باعث وہ دیر تک سو نہ سکا تھا۔ صبح ہمیشہ کے وقت پر اُس کی آنکھ کُھل گئی۔ اُس نے قریب رکھے ہوئے ٹیبل پر سے گھڑی اُٹھانی چاہی تو اُسے محسوس ہوا کہ اُس کا ہاتھ ہی نہیں ہے۔ اُس نے لیٹے لیٹے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو سوکھی بے جان لکڑی کی طرح پڑا تھادوسرے ہاتھ کی مدد سے اُس نے سیدھا ہاتھ اُٹھانا چاہا لیکن اس بار بھی ناکام رہا۔ اُس نے پیروں کو حرکت دینے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اُس کا سیدھا پیر بھی مفلُوج ہوچکا ہے۔

اک لمحہ کے لئے اُس کا ذہن ماؤف رہا پھر گھبرا کر اُس نے زور سے بیوی کو آواز دی۔ بیوی کِچن سے بھاگ کر آئی ”دیکھو …… یہ دیکھو مُجھے کیاہوا ہے“۔ اُس نے اپنے بے جان ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس کی آواز میں احتجاج تھا۔ شدّتِ جذبات سے چہرہ تمتما رہا تھا اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے وہ بے بس تھا اور جب ڈاکٹر نے سرد لہجہ میں بتایا کہ آپ کو فالج ہوا ہے تو اُسے یقین نہیں آیا۔

”ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ جُھوٹ ہے آپ بکواس کررہے ہیں“۔ وہ ڈاکٹر سے اُلجھنے لگا۔ ڈاکٹرنے معائنہ کیا بلڈپریشر دیکھا جوبہت زیادہ تھا۔دوادیکر اُس نے ایک Tranqualizer کاانجکشن بھی دیا اور بیوی کو سمجھا کر کہا کہ اِنہیں مکمل آرام کی ضرورت ہے۔

اعصابی نظام پر جو دباؤ پڑا ہے اُس کے نارمل ہونے میں دو تین دِن لگ جائیں گے۔ اُن کا ذہن اس حقیقت کو قبول کرے تیار نہیں ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کرنے میں کچھ دِن لگیں گے تب تک یہ بہت گڑ بڑ کریں گے۔ اِنہیں دواخانہ لے جانا پڑے گا۔ دو تین دن میں اُس کی طبیعت میں تبدیلی آگئی۔ برہمی کی جگہ مایوسی نے لے لی۔ My life is finished وہ بار بار یہ جُملہ دہراتا۔ اپنے آپ میں پیچ و تاپ کھاکر رہ جاتا۔ بیوی دلاسہ دیتی کہ یہ مایوسی کی باتیں چھوڑیئے۔ آپ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔ اس طرح بیمار ہوکر چھ مہینے ہوگئے۔ بیوی نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ ٹائپ کرنا جانتی تھی کالج کے پرنسپل نے ایک Adhoc Post نکال کر اُسے بطور ٹائپسٹ رکھ لیا۔ پھر بھی فُل اِسکیل پوسٹ اور عارضی پوسٹ میں بُہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ اُسکی آدھی تنخواہ اور بیوی کی تنخواہ کُل مِلا کر اُتنے پیسے نہیں ہوتے تھے جِتنے وہ اکیلے کمالیا کرتا تھا۔ اُوپر سے خرچے الگ بڑھ گئے تھے۔ ڈاکٹر کی فیس‘ دوائیں‘ ٹانک‘ پھل وغیرہ۔ اس میں ہی دیڑھ دو سورُوپیہ خرچ ہوجاتے تھے پھر بھی اُس کی بیوی بہت ہمّت سے حالات کا مُقابلہ کررہی تھی۔ چھ مہینے گزر گئے لیکن وہ اِتوار کبھی نہیں آیا جِس دِن وہ بیوی کے ساتھ پکچر جانے والا تھا۔ اُس نے تکیہ کے نیچے سے اپنا والیٹ نِکالا۔ ٹِکٹ ابھی تک والیٹ میں ہی رکھے ہوئے تھے۔ اُس نے ٹِکٹوں کو غور سے دیکھا اور اُنہیں پھر تہہ کرکے رکھ دیا۔ چھ مہینے۔ اگر بیوی اُسے حوصلہ نہ دلاتی تو شائد وہ یہ لڑائی کبھی کے ہار چُکا ہوتا۔ اب بھی کبھی کبھی اُس کے دل میں اک انجانا سا خوف رینگنے لگتا کہ یہ مہینے سالوں میں بدل جائیں گے۔ وہ کبھی چلنے کے قابل نہیں ہوپائے گا۔ رفتہ رفتہ شہر کے سارے راستے بُھول جائے گا۔ وہ وقت کاٹنے کے لئے کمرے کا جائزہ لینے لگا جیسے ہی اُس کی نظر میز پر پڑی وہ چونک پڑا۔ میز پر ٹِفن کا ڈبہّ رکھّا ہوا تھا۔ اُس کی بیوی جلدی میں ٹِفن لے جانا ہی بُھول گئی تھی۔ نہ جانے دوپہر میں کیا کھائے گی۔ اُسے اپنی بیوی کی تکلیف کا احساس ستانے لگا۔ بُھوکی ہی رہے گی بِنا کچھ کھائے پئے گھر لوٹے گی۔ کینٹین سے کچھ لے کر نہیں کھائے گی۔ اُس کی بیوی کو بازار کی بنی ہوئی چیزوں سے سخت نفرت تھی۔ ”کاش میں یہ ٹِفن اُس تک پہونچا سکتا“۔ اُس نے اپنے مفلُوج ہاتھ پیر کی طرف دیکھا۔ زندگی نے مجھے بدمزہ نوالہ کی طرح تُھوک دیا ہے۔ میں خود ایک تُھوکا ہُوا نِوالہ ہوں“۔ اُس نے بے بسی سے سوچا۔ بڑی مُشکِل سے ہاتھ بڑھا کر ٹِفن اُٹھالیا اور اپنے دِل کی تسّلی کی خاطر تصّوُر میں کالج کا راستہ طے کرنے لگا۔ سروجنی ہاسپٹل‘ آگے بڑھنے پر لکڑی کا پل، دائیں مڑنے پر خیریت آباد کا ون وے۔ پھر اُس کے بعد اے جی آفس، اسمبلی ہال، لال بہادر اسٹیڈیم، اسٹیڈیم کے پاس ہی اس کا کالج تھا۔ بس موٹر سائیکل پر پچیس مِنٹ کا راستہ تھا لیکن جس کے طے کرنے کا کوئی اِمکان نہ تھا۔ وہ بے چین ہوکرٹِفِن سے کھیلنے لگا۔ اُسے اچانک ایک خیال آیا اور اُس نے ٹِفِن کو بائیں ہاتھ میں پکڑ کرمفلُوج ہاتھ سے اُسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کا چہرہ خوشی سے کِھلاُٹھا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ ڈبّہ کھولنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اپنے مفلُوج ہاتھ سے۔ اُس نے ڈھکّن اُٹھایا۔ یکایک اُسکا چہرہ بُجھ گیا۔ ڈھکّن ہاتھ سے چُھوٹ کر گِر گیا۔ٹِفِن میں وہی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔

”وہی …… باسی روٹیاں“

٭٭٭

قیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)

About awazebihar

Check Also

غزل

مری ہستی میں فن بھرنے نہ دے گا یہ بھوکا پیٹ کچھ کرنے نہ دے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *