پٹنہ (پریس ریلیز)جنتا دل راشڑوادی کے قومی کنوینر اشفاق رحمان نے راجد کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کو دوہری پالیسی سے باز رہنا چاہئے، پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم کوئی بندھوا ووٹ بینک نہیں ہے۔گوپال گنج اسمبلی ضمنی انتخاب میں مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا بلکہ اس پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیا جو اپنی سیاست اور اپنی قیادت کی بات کرتی ہے۔راجد کو مسلم قیادت پسند نہیں ہے۔ نام نہاد سماجی انصاف کی اس پارٹی نے محمد شہاب الدین سے لے کر عبدالباری صدیقی تک کی قیادت کو کبھی ابھرنے نہیں دیا، مسلمان اب یہ بخوبی سمجھ گئے ہیں، گوپال گنج کی سیٹ مسلمانوں کی رہی ہیاور راجد مائی (مسلم -یادو)سمیکرن پر ٹکی ہوئی ہے جس کا سب سے مضبوط ستون مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود مسلم کا ٹکٹ کاٹ کر گپتا جی کو امیدوار بنایا گیا۔یہ جانتے ہوئے کہ ویشہ برادری بی جے پی کا بنیادی ووٹر ہے اور ایسا ہی ہوا۔موہن گپتا کو خود ذات کا ووٹ نہیں ملا۔اشفاق رحمان کہتے ہیں کہ گوپال گنج میں مسلمانوں نے ایک مسلم امیدوار کے حق میں ووٹ دیا اور اسے 12 ہزار سے زائد ووٹ ملے تو کیا جرم کر دیا ؟ آٹھ ہزار وٹ سے زیادہ تو سادھو یادو کی اہلیہ نے بھی لایا۔ظاہر سی بات ہے سادھو یادو کو ملا ووٹ ان کی ذاتی کا ہی ہو گا۔مگر راجد سادھو یادو کو بھاجپا کا ایجنٹ نہیں کہہ رہا ،بلی کا بکرا ایک مسلمان ہی ہے۔کانگریس سے ہر دن ایم ایل اے ،ایم پی جیت کر بھاجپا میں چلا جاتا ہے ،پھر بھی کانگریس سیکولر ہے؟اور اویسی بھاجپا کا ایجنٹ کہلاتے ہیں۔اس لئے کی اپنی سیاست اور اپنی قیادت کی بات کرتے ہیں۔جو سیکولر جماعتوں کو سوٹ نہیں کرتا۔مسلمان بھی ان خود ساختہ سیکولر جماعتوں کے جھانسہ میں آکر مسلمان پر ہی الزام ٹھہراتا ہے۔اشفاق رحمن کا کہنا ہے کہ مومن کو مورد الزام ٹھہرانا منافق کا کا کام ہو سکتا،ایک مسلمان کا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوپال گنج اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں راجد کی شکست اس کی اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔وہ سیٹ مسلمانوں کی رہی ہے ،۔لیکن اس بار وہ سیٹ مسلمانوں سے چھین کر ویشہ سماج کو دے دیا گیا۔جبکہ ویشہ سماج نے راجد کو ترجیح نہیں دی بلکہ ان کا ووٹ بھاجپا کے ہی جھولی میں گیا۔رہی سہی کسر تیجسوی یادو کے ماما سادھو یادو نے پوری کر دی۔لیکن ہار کا ذمہ دار نہ راجد امیدوار موہن گپتا کی برادری کو ٹھہرایا جا رہا اور نہ سادھو یادو کو۔بلی کا بکرا صرف مسلمان کو بنایا جا رہا ہے۔راجد کے مسلمان تیجسوی کے اکسانے پر اویسی کو بھاجپا کا ایجنٹ بتا رہے ہیں۔اشفاق رحمن کہتے ہیں کہ کیا مسلمان زر خرید غلام ہیں جو زندگی بھر راجد کو ووٹ کرتے رہیں گے۔یہ سوچ جمہوریت کے برعکس ہے۔جمہوریت میں کسی بھی رائے دہندگان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔اشفاق رحمن کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے گھر کا آٹا گیلا کر اپنی سیاست اور اپنی قیادت کے لئے جدو جہد کر رہا ہے اور آپ کو ایجنٹ کہتے شرم نہیں آتی۔یہ کام صرف منافق کا ہو سکتا ہے۔تیجسوی کو چاہئے کہ راجد کے مسلم کارکنان کو اویسی کو بھاجپا کے ایجنٹ کہنے سے روکے۔اس سے اور معاملہ بگڑے گااور ذہنی غلاموں سے بھی میرا کہنا ہے اپنے سیاسی آقا کی جوتیاں سیدھی کریں ،کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن دوسرے کو برا بھلا نہ کہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک بار لالو پرساد نے لال کرشن اڈوانی کو گرفتار کیا کر لیا، راجد (جنتا دل) 33 سال سے ووٹوں کی شکل میں مسلمانوں سے لگان وصول رہا ہے ، تین دہائیوں تک مسلم سماج لالو پرساد کے لیے ایک پاؤں پر کھڑا رہا ہے ، نہ ذات دیکھی ،نہ مذہب۔بلکہ مسلم امیدواروں کو ہرا کر راجد کے امیدواروں ،لالو پرساد کی برادری کے لوگوں کو اسمبلی ،لوک سبھا بھیجتے رہے۔لیکن مسلمانوں کو کیا ملا؟ صرف بی جے پی کا خوف دکھا کر مسلم ووٹ بینک پر قبضہ کر لیا گیا۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اویسی نے بہار میں دستک دی تھی اور کچھ سیٹیں جیتنے میں کامیابی ملی تھی۔یہ بات مسلم ووٹ کو اپنی جاگیر سمجھنے والی پارٹی کو ہضم نہیں ہوئی اور ان کے ایم ایل اے کو ہائی جیک کر لیا گیا۔تب کسی نے کچھ نہیں کہا۔کچھ نہیں بولنے سے غلط چیزوں کو تقویت ملتی ہے۔اشفاق رحمن کہتے ہیں کہْ ہم گوپال گنج کے مسلمانوں کا مشکور ہیں کہ سیاسی غلامی سے نکل کر ایک نئی راہ دکھائی ہے۔جب جاگے تب سویرا۔
