ہندوستان سعودی عرب تعلقات ايک سنہرے دور میں: اشفا ق سلفی

دربھنگہ ۔(پریس ریلیز)ہندوستان اور جزیرہ عرب کے درمیان تعلقات ہزاروں برس سے قائم اور استوار رہے ہیں، ہندوستانی تجارتی قافلے عراق اور یمن کے بندرگاہوں پر تجارتی سامان لے کر آتے جاتے رہتے تھے، ہندوستانی تلوار کی مثالیں ہمیں کثرت سے عربی ادب وشاعری میں ملتی ہیں، بلکہ عرب اپنی بیٹیوں کا نام ہند رکھا کرتے تھے، استعماری طاقتوں سے آزادی کے حصول کے بعد جب انیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں بہت سے نئے ممالک دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے۔ ان میں مملکت سعودی عرب بھی تھا جو شروع میں حجاز و نجد کے نام سے جانا جاتا تھا، جسے بعد میں مملکت سعودی عرب کر دیا گیا، سعودی عرب نے ہندوستان سے اپنے تعلقات اسی وقت استوار کر لیے جب 1947ء میں ہندوستان نے انگریزی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ 1955ء میں امیر فیصل بن عبد العزیز نے جو اس وقت سعودی عرب کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ تھے، ہندوستان کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیادیں ڈالی۔ اسی سال پنڈت جواہر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور آپسی تعلقات کو ایک نئی سمت ملی۔ انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکی بیٹی اندرا گاندھی نے 1982ء میں مملکت کا دورہ کر کے آپسی تعلقات کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ سعودی عرب میں پیٹرول کی دریافت نے بہت سے ہندوستانی مزدوروں، انجینئروں اور ہنر مند طبقہ کو اپنی جانب راغب کیا، 1975ء میں جہاں سعودی عرب میں کام کرنے والوں ہندوستانیوں کی تعداد 34000 تھی، وہیں 2019 آتے آتے یہ تعداد 6 لاکھ تک پہنچ گئی، بلا شبہ سعودی عرب اور خلیج میں کام کے مواقع اور اچھی تنخواہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ اقتصادی طور خوشحال اور مضبوط ہو گئے، مملکت میں کام کرنے والے یہ افراد ملک کے لیے سونے کے کسی خزانے سے کم نہیں ہیں، کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کو سعودی عرب اور خلیج میں کام کرنے والے شہریوں سے تقریباً 35 ارب ڈالر سالانہ زر مبادلہ حاصل کرنے کا ایک بہترین موقع ملتا ہےجس سے ملک کے اقتصادی نظام کو بہت سہارا ملتا ہے، ملک کی اقتصادی ترقی و خوشحالی میں مسلمانوں کا یہ کردار قابل ستائش ھے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہمیشہ قائم رہی، دونوں ملک کے سربراہان ایک دوسرے ملک کر وقتا فوقتا دورہ کرتے رہے، چنانچہ 2006ء میں یوم جمہوریہ کے موقع پر بطور مہمان خصوصی کی حیثیت سے شاہ عبد اللّٰہ بن عبد العزیز نے شرکت کی اور ہندوستان کو اپنا دوسرا ملک قرار دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلیمی، تکنیکی اور تجارتی میدانوں میں آپسی تعاون کا معاہدہ عمل میں آیا جسے ‘دہلی اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2010ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں انکا شاندار استقبال کیا گیا، انہوں نے ‘ریاض اعلامیہ پر دستخط کیا، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بام عروج پر پہنچا نے میں ایک مہمیز کا کام کیا ۔ جب 2019ء میں ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے ہندوستان کا دورہ کیا تو انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 100 ارب ڈالر تک لے جانے کے عزم کا اعلان کیا جو ابھی تقریباً 35 ارب ڈالر ھے۔ مملکت سعودی عرب ہندوستان کو تیل، قیمتی پتھر، کھاد اور دیگر اھم اشیاء فراھم کرتا ہے جبکہ ہندوستان سعودی عرب کو غذائی اجناس، آلات، مشینیں اور دیگر اشیاء برآمد کرتا ہے۔ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کورونا کی وباء کے دوران ہندوستان میں آکسیجن کے لیے ہاہا کار مچا ہوا تھا تو سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جس نے اس مشکل وقت میں 300 میٹرک ٹن آکسیجن کی مدد بھیجی۔جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو سعودی عرب نے انہیں ملک کے سب سے باوقار اعزاز شاہ عبد العزیز میڈل سے سرفراز کیا۔ اب جبکہ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان پھر 14 نومبر 2022 کو ہندوستان کا دورہ پر کر رھے ہیں ہم تہہ دل سے انکا استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انکے اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب کھلے گا اور یہ دورہ ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے میمون ومسعود ثابت ہوگا۔۔۔مملکت سعودی عرب کے جواں سال،دور اندیش اور مرد آھن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان حفظ الله كو سلام اور خوش آمديد !

 

About awazebihar

Check Also

مجلس علماء جھارکھنڈ ضلع لاتیہار کا انتخاب عمل میں آیا

صدرمفتی گلزار قاسمی ، نائب صدر مولانا عبد الواجد چترویدی اور جنرل سکریٹر مولانا رضوان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *