امارت شرعیہ کا نظام قضاء ایک مثالی نظام عدل ہے: امیر شریعت

جمشید پور (پریس ریلیز)امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے زیر اہتمام کل ہند سمینار برائے قضاۃ کی پہلی و دوسری نشست جھارکھنڈ کے تاریخی و صنعتی شہر جمشید پورمیں امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی صدارت میں دال بھوم کلب ، آم بگان ، ساکچی میں بحسن و خوبی منعقد ہوئی۔ جس میں بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے علاوہ ملک کی مختلف ریاستوں سے قضاۃ و علماء کرام ، ارباب وفقہ و فتاویٰ ، سپریم کورٹ ، متعدد ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں کے ماہر وکلاء ، ڈسٹرکٹ جج، بار ایسوسی ایشن کے ذمہ داران و ارکا ن نے شرکت کی ۔اس افتتاحی نشست کے صدارتی خطاب میں امیر شریعت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی نے امارت شرعیہ کی مختلف خدما ت کا تفصیل سے ذکر کیا، خاص طور پر آپ نے دارا لقضاء کے ذریعہ وسیع پیمانے پر جو خدمات انجام دی جا رہی ہیں ان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ کا کام پوری دنیا کے جوڈیشری سسٹم کے لیے مثالی ہے ۔ستر فیصد سے زیادہ معاملات یہاں ایک مہینے کے اندر میں حل ہو جاتے ہیں ، پوری دنیا میں ا س کی مثال موجود نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ امارت شرعیہ صرف مسلمانوں کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ خدمت انسانی اور تعلیم کے میدان میں بلا تفریق مذہب و ملت پورے سماج کے لیے کام کرتی ہے ۔ ابھی حالیہ دنوں میں سی بی ایس ای طرز کے چھ نئے اسکول کی داغ بیل ڈالی گئی ، جس میں ہر طبقہ کے بچوں اور بچیوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اسلامی نظام قضاء پر پر بعض سوالات کا بہت خوبصورتی کے ساتھ علمی انداز میں مثالوںکے ذریعہ تشفی بخش جواب دیا، خاص طور پر نکاح کی عمر کے سلسلہ میں بین الاقوامی قوانین اور دنیا کے معروف مذاہب کے قوانین کے حوالہ سے مدلل جواب دیا اور اسلامی نکتہ نظر کی وضاحت فرمائی ۔فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے کلیدی خطبہ میں شرعی قوانین کی حکمتوں اور نزاکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی قانون کی بنیاد عدل پر قائم ہے ،اور دوسری بنیاد انسانیت کو نقصان سے بچانا ہے ۔ اور عدل کبھی مساوات کے ذریعہ ہوتا ہے تو کبھی اس کے لیے ذمہ داریوں کی بنیاد پر حقوق میں فرق بھی کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے عورتوں کے مالی حقوق پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ بعض مراحل میں مردوں اور عورتوں کی وراثت مالی منفعت برابر ہو جاتی ہے ، بلکہ بعض ایسے حالات بھی ہیں جن میں خواتین کو زیادہ حق ملتا ہے ۔اسلا م کے اسی نظام عدل کی بنیاد پر ہندو کوڈ ایکٹ میں طلاق و وراثت کے نظام کو اسلامی قانون سے اخذ کیا گیا۔ انہوں نے طلاق ، خلع، طلاق مباراۃ، طلاق تفویض، طلاق بائن اور فسخ نکاح سے متعلق اسلامی قانون کو تفصیل سمجھایا۔نائب امیر شریعت حضرت مولانامحمد شمشادرحمانی قاسمی صاحب نے استقبالیہ کلمات میں مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ قضاۃ اور وکلاء کے درمیان تفہیم شریعت کا یہ مذاکرہ سنگ میل ثابت ہو گا اور اس سے پوری ملت کو روشنی ملے گی ۔انہوں نے امارت شرعیہ کے نظام قضاء کی خدمات اور امتیازی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان رضامندی سے بہت سے معاملات ایک سے دو دنوںمیں ہی حل ہو جاتے ہیں ، جب کہ دوسری جگہوں پر طویل عرصہ درکار ہو تا ہے ۔ آپ نے اس موقع پر امارت شرعیہ کے تعلیمی و دعوتی نظام پر بھی روشنی ڈالی ۔ سیمینار کے مہمان خصوصی اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینیئر ایڈووکیٹ نے مسلم پرسنل لا سے متعلق تین ایکٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دار القضاء کا نظام آربٹریشن ایکٹ کے دائرے میں آتا ہے ، اسکے ذریعہ قانونی اعتبار سے نجی تنازعات کے تصفیہ کی قاضی کو اختیارات حاصل ہیں اور ان بنیادوں پر قاضی کے ذریعہ جو کارروائی ہو گی ، اس کو کورٹ بھی تسلیم کرے گا۔ اس حیثیت سے اگر غور کیا جائے تو دار القضاء عدالتوں اور پبلک اتھارٹی پر پڑنے والے بوجھ کو کم کر رہا ہے ۔جناب ایم آر شمشاد صاحب نے مسلم پرسنل لا اور ہندوستانی قانون کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے سامنے مسلم پرسنل لا کے تعلق سے بعض ایسے مواد ہیں جن سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے اور عدالتوں کے تبصرے شرعی قانون کے خلاف ہو جاتے ہیں ، اس سلسلہ میں انہوں نے حجاب اور جلباب کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے اسلامی قوانین کی غلط ترجمانی اور من مانی تعبیر و تشریح کی وجہ سے اس سلسلہ میں عدالت کا قابل اعتراض تبصرہ سامنے آیا ۔قاضی شریعت مرکزی دار القضاء امارت شرعیہ مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب نے سیمینار کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ دار القضاء کے قاضیوں کے سامنے کچھ ایسے مسائل آتے ہیں ، جنہیں آئینی طور پر حل کرنے کے لیے وکلاء حضرات سے مشورہ کی ضرورت پڑتی ہے ، آج کا اجلاس انہیں حل طلب مسائل کے حل کے لیے منعقد ہوا ہے ۔
انہوں نے دار القضاء کے ذریعہ ہورہی کارروائیوں کی تفصیل اور طریقہ کاربھی بیان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے شرکاء کے سامنے کچھ سوالات بھی پیش کیے ۔جس پر وکلاء حضرات نے قانونی اعتبار سے اپنی رائے پیش کی ۔ رانچی ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل جناب ایڈووکیٹ عبد العلام صاحب نے کہا کہ عائلی تنازعات کی بنیاد ہمارے معاشرے کی بے راہ روی ہے ، جب تک اصلاح معاشرہ کی تحریک کو تیز نہیں کیا جائے گا ، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے تجربات کی روشنی میں چند مسائل کا تذکرہ بھی کیا۔ ڈسٹرکٹ جج جمشید پور جناب انل کمار مشرا نے کہا کہ کوئی بھی قانون دشواریوں کو دور کرنے کے لیے ہی بنایا جاتا ہے ، تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے، مجھے یہاں آکر بہت مسرت ہوئی اور بہت کچھ استفادہ کا موقع ملا۔بار ایسوسی ایشن کے صدر لالہ اجیت کمار ابسٹا نے کہا کہ قانون کا مقصد انصاف دلانا یت اور انسانیت کی مدد کرنی ہے ، تاکہ ہر ایک کو سماج میں پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے۔سارے مذاہب قابل احترا م ہیں پر آدمی کو اپنے گھر کو ٹھیک رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، مجلس استقبالیہ کے چیر میں جناب ریاض شریف صاحب نے تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگو ں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا اس کے لیے ہم سب شکر گزا ر ہیں ، مولانا مفتی وصی احمد قاسمی صاحب نے نظام قضاء سے متعلق چند چیزوں کی وضاحت کی ۔پہلی نشست کی نظامت مولانا مفتی محمد سہرا ب ندوی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے کی اور کہا کہ امارت شرعیہ کے میدان کار پانچ ہیں ، سماجی اتحاد، سماجی انصاف ، سماجی اصلاح ، تعلیم کا فروغ اور انسانی خدمت ۔دوسری نشست کی نظامت ڈاکٹر ذکی اختر صاحب نے کی انہوں نے ابتدائی گفتگو میں پروگرام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور امارت شرعیہ معاشرہ کی اصلاح میں جو خدمات ہیں ان کو بیان کیا، انہوں نے اسلامی قانون کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی قانون کو قرآن و حدیث او نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے سمجھنا چاہئے۔ پروگرام کا آغاز جناب مولانا قاری اطہر غزالی صاحب قاسمی امام و خطیب جامع مسجد جمشید پور کی تلاوت سے ہوا۔اظہار تشکر جناب زید صاحب ایڈووکیٹ رانچی ہائی کورٹ نے پیش کیا۔اجلاس کے کنوینر جناب مولانا سعود قاسمی قاضی شریعت جمشید پور اور ان کے رفقاء کے علاقہ استقبالیہ کمیٹی کے ذمہ داران حاجی شفیع احمد ، ریاض شریف، مولانا مفتی نشاط احمد، حافظ آفاق احمد،حافظ ذوالفقار و دیگر و ارکان نے اجلاس کو کامیاب و با مقصد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان دونوں نشستوں میں شریک ہونے والوں میں حضرت مولانا عتیق احمد بستوی کنوینر دار القضاء کمیٹی مسلم پرسنل لا بورڈ،، مولانا مفتی احمد دیولوی،مولانا صغیر احمد رشادی امیر شریعت کرناٹک، جناب مولانا فریدا لدین صاحب ناظم امارت شرعیہ آسام، جناب مولانا محمد شبلی القاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ، جمشید پور فیملی کورٹ کے جج جناب کمل چوپڑا،جناب ذاکر بلیغ ایڈووکیٹ ، جناب الحاج احسان الحق صاحب، جناب سید حامد ولی فہد رحمانی صاحب، ماسٹر انوار احمد صاحب، مولانا نور الحق رحمانی استا ذ المعہد العالی امارت شرعیہ ، مفتی زاہد قاسمی اڈیشہ ، مفتی اظہر قاسمی جامعہ رحمانی مونگیر ، مفتی ریاض قاسمی جامعہ رحمانی مونگیر، مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ ، مولانا سہیل احمد ندوی، مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، مولانا عبد الباسط ندوی ، مولانا ذکاء اللہ اندور ، مولانا تبریز قاسمی دہلی ، مولانا مفتی زاہد قاسمی بڑبل ، مولانا رضوان ندوی ،مولانا سہیل اختر قاسمی ، مولانامفتی مجیب الرحمن قاسمی ، مولانا امتیاز قاسمی، قاضی محمد انور قاسمی رانچی،مولانا ضمیر قاسمی ، مولانا ارشد قاسمی، مولانا مفتی ظفر صاحب راور کیلا، مولانا زکریا صاحب گوا، مولانا قاری عبد اللہ صاحب پونے، مولانا عبد اللہ صاحب تھانے مہاراشٹرا، مولانا بسم اللہ ڈابھیل گجرات، مولانا نعیم صاحب احمد آباد ، مولانا قاضی کامل صاحب دہلی ، مولانا عبد الرحمن قاسمی دلدار نگر ،مولانا طاہر صاحب پونے ، مولانا شمشاد ندوی صاحب جے پور راجستھان، مولانا ظہیر الدین صاحب میوات ،مفتی یحیٰ معین قاسمی ممبئی ، مولانا سہیل احمد قاسمی بھلائی ،چھتیس گڑھ، مولانا ذوالقرنین صاحب چھتیس گڑھ،مولانا عاشق الٰہی ہریانہ، مولانا زبیر صاحب آسنسول ، قاری داؤد عرفانی آسنسول، وغیرہ شریک ہوئے۔
مفتی اشرف مہاراشٹر، مفتی محی الدین مہاراشٹرجناب خلیل اللہ صاحب پونے، مفتی سیف اللہ الٰہ آباد، مولانا فلاح الدین قاسمی، مولانا قاضی عمران صاحب بالا ساتھ، مولانا احسان الحق قاسمی، مولانا خورشید صاحب بھاگل پور ،مولانا ثناء اللہ قاسمی ہزاری باغ ، مفتی نسیم احمد کوڈرما، مولانا عمر فارو ق لوہر دگا،مولانا مفتی شاہد قاسمی دھنباد،مولانا سعید اسعد قاسمی آسنسول، مولانا صبغۃ اللہ قاسمی کٹک، مولانا عبد الودود قاسمی راور کیلا، مفتی فخر الدین پرولیا،قاضی نظام الدین جامتاڑا، مولانا عبد الباسط ایٹا ہار ،مولانا اعجا ز قاسمی دملہ، مولانا شمیم اکر م قاسمی ،قاضی ارشد صاحب پورنیہ، مولانا رضی احمد مونگیر،مولانا اعجاز احمد صاحب سابق چیر مین مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ، مولانا احمد حسین قاسمی مدنی ،مولانا وسیم اختر گیا، مولانا مختار صاحب سمڈیگا،مولانا امان اللہ قاسمی سمستی پور،مولانا کلیم اللہ مظہر چتر پور، مولانا سید طاہر صاحب بوکارو، مولانا ابو الکلام شمسی، مولانا افروز سلیمی جمشید پور ، مولانا سراج الدین صاحب گڈا، مولانا یونس بانکا،مولانا شکیل قاسمی روہتاس،مولانا ارشد قاسمی گوگری، مولانا صابرحسین قاسمی ، مولانا ذیشان قاسمی، مولانا مجیب الرحمن قاسمی دربھنگہ ، حافظ احتشام رحمانی ،مولانا راشد العزیری قاسمی، مولانا راشد انور،مولانا مفتی ریاض احمد موتیہاری، مولانا اطہر جاوید ڈھاکہ،مولانا عطا اء الرحمن بھوپال،مولانا روح الامین قاسمی ، مولانا طارق رحمانی مولانا اشتیاق صاحب بسوریا، کے علاوہ علماء و مشاہیر، قضاۃ کرام اور ارباب فقہ و فتاویٰ ،وکلاء، دانشوران کی بڑی تعداد ان نشستوں میں شریک رہی ۔ خبر لکھے جانے تک اجلاس کی تیسری نشست رائل گارڈن ذاکر نگر میں جاری ہے ۔ یہ خبر جمشید پور سے مولانا سید محمد عادل فریدی صاحب نے دی ہے ۔

 

About awazebihar

Check Also

جموں وکشمیر میں بی جے پی کے لئے انتخابات میں 10 سیٹیں حاصل کرنا بھی مشکل ہے: عمر عبداللہ

جموں، 2 دسمبر (یو این آئی) نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *