شمسی توانائی بھارت کے لیے مکمل طور پر کاربن کے صفر اخراج کے مقصد کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے

آر کے سنگھ،
دنیا شمسی انقلاب کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ نہ صرف یہ کہ شمسی توانائی دنیا کی ازحد بہتات سے دستیاب اور صاف ستھری توانائی وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اسے عام طور پر قبولیت بھی حاصل ہے، یہ بین الاقوامی موسمیاتی کاروائی کو سمت دینے میں بھی مشترکہ توانائی تقاضہ بن چکی ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اب اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیاں وضع کر لی ہیں اور قواعد بنا لیے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ عالمی کاروائیوں کے تقاضوں کے مطابق بڑے پیما نے پر استطاعت فراہم کر رہے ہیں۔ شمسی توانائی نہ صرف یہ کہ ترقی پذیر دنیا میں توانائی تک رسائی اور توانائی سلامتی کے معاملے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ، بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیٹری توانائی ذخیرے کے ساتھ ارتباط ، برقی موٹر گاڑیوں کی چارجنگ کے بنیادی ڈھانچے، اور ہائیڈروجن پیداور کے توسط سے توانائی تغیر کا راستہ بھی ہموار کر رہی ہے۔ لاگت، سادگی اور رکھ رکھاؤ آسان ہونے، معیاریت اور متنوع استعمالات کی سہولت کے ساتھ دیگر توانائی تکنالوجیوں کے مقابلے میں اسے تکنالوجی کے لحاظ سے بالادستی حاصل ہے، شمسی توانائی کو اہم چنوتیاں درپیش ہیں ، جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی فوٹو وولٹیک (پی وی) مینوفیکچرنگ سپلائی چین چند ممالک کے ہاتھوں تک محدود ہے، جس کے نتیجہ میں موجودہ ماڈیول سپلائی چین کی قلت کے نتیجہ میں حال ہی میں قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس رخنہ اندازی نے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔کووِڈ۔19 بحران، جس کے نیتجہ میں کثیر پہلوئی چنوتیوں کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا، نے چند ممالک میں توانائی کی درآمدات، خام مواد اور مینوفیکچرنگ سازو سامان پر توجہ مرکوز کرائی ہے، کیونکہ یہ سازو سامان ان کی توانائی سلامتی میں کلیدی حیثیت رکھتےہیں۔ ایک اضافی چنوتی یہ ہے کہ شمسی پینلوں کا حصول کیسے کیا جائے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سولر پی وی کے لیے عالمی طلب اگر بہت کم بھی ہو تو اس صورت میں ہمیں مجموعی طور پر 2030 تک 5000 گیگا واٹ کی صلاحیت درکار ہوگی۔ تاہم، دنیا بھر میں اپنائی جانے والی پہل قدمیوں کے نتیجہ میں شمسی توانائی کی کم ہوتی قیمتوں کےساتھ یہ تخمینے 10000 جی ڈبلیو کے بقدر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال تقریباً 800-1000 جی ڈبلیو اضافی صلاحیت کی فراہمی، جو اب تک محض 200 جی ڈبلیو تک ہی محدود رہی ہے۔اب جب ہم مستقبل کی جانب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ موجودہ صلاحیت کو پانچ گنا بڑھانا ہوگا۔ ہمیں ایک لچکدار متنوع سپلائی چین کا سلسلہ قائم کرنا ہوگا۔ ممالک اپنے یہاں سپلائی چینوں میں تنوع پیدا کرکے لچک کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ شمسی پی وی مینوفیکچرنگ پروجیکٹوں کی ترقی میں تعاون فراہم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آگے بڑھ کر جو لوگ مصروف عمل ہیں، انہیں براہِ راست حمایت فراہم کی جائے، مثال کے طور پر ٹیکس میں استثنائی، کم لاگت والی سرمایہ کاری اور براہِ راست ترغیبات (مثال کے طور پر آراضی یا بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاریاں) کی شکل میں مالی ترغیبات فراہم کی جا سکتی ہیں۔بڑھتی ہوئی طلب نسبتاً دوسری سطح کے شرکائے کار کی جانب سے کی جانے والی مہمیز کاری، کو دیکھتے ہوئے صنعت کو فروغ دینا بھی مؤثر ثابت ہوگا۔ تاہم اس کے بعد لازمی طور پر مزید سرمایہ کاریاں درکار ہوں گی۔ بھارت نے حال ہی میں شمسی پی وی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے کامیاب طور پر پیداوار سے منسلک ترغیبات (پی ایل آئی اسکیم) رائج کی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت بولیاں لگانے والے اپنے طور پر ایسی مینوفیکچرنگ سہولتیں قائم کریں گے اور انہیں چلائیں گے جو پولی سلیکون، انگوٹس، ویفرس، سیلس اور اعلیٰ اثر انگیزی کے حامل پینل تیار کرنے کے لیے مکمل پیداواری سلسلے پر احاطہ کریں گی۔شمسی پی وی مینوفیکچرنگ شعبہ کی طویل المدت مالی ہمہ گیری تیز رفتار کم لاگت والے صاف ستھری توانائی تغیر کے لیے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ پروجیکٹوں کے لیے وافر مدت فراہم کرکے تیز رفتار نمو کا ماحول بنا کر رسک اور سپلائی اور طلب سے متعلق ناہمواری کا مقابلہ کا جا سکے گا جو برعکس صورتحال میں لاگت میں اضافہ کر سکتی ہے اور سپلائی میں قلت پیدا کر سکتی ہے۔ تمام تر سپلائی چینوں کے عناصر کے لیے شمسی پی وی سیکٹر کی خالص منفعت خاصی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اس طرح تجارتی راستوں میں لاحق خدشات کو بھی امدادی پالیسیاں اپنا کر نمٹانا ہوگا۔ممالک کے مابین افزوں تال میل توانائی تغیر کی کلید ہوگا۔ اس کے نتیجہ میں سرمایہ کاری مہمیز ہوگی اور لاکھوں کی تعداد میں سبز روزگار فراہم ہوں گے۔ جہاں حکومتیں اور شراکت دار حضرات کو شمسی پی وی مینوفیکچرنگ کے پہلو پر افزوں توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ وہیں اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس شعبہ کی کلیدی اہمیت تیز رفتار کاربن سے مبرا دنیا میں مضمر ہے جس کے لیے ہم خیال ممالک کو آگے آکر متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔ توقع کی جاتی ہے کہ ہر جگہ ماڈیول مینوفیکچرنگ وجود میں آئے گی۔ابتدائی برسوں میں حمایت درکار ہوگی کیونکہ عالمی برادری کے طورپر ہمیں ممالک کو مینوفیکچرنگ کے لیے ماحول سازگار بنانے میں مدد فراہم کرنی ہوگی۔ 110 اراکین اور دستخط کرنے والے ممالک کے ساتھ بین الاقوامی شمسی اتحاد اس تبدیلی کو ممکن بنانے کے لیے کوشاں ہے۔نئی تکنالوجیاں منڈی میں آئیں گی، ان میں شمسی مثبت بیٹریاں مسابقتی شکل حاصل کر رہی ہیں۔ نئی شمسی پی وی مینوفیکچرنگ سہولتیں سپلائی چین کے ساتھ 2030 تک اربوں روپئے کی سرمایہ کاری راغب کر سکتی ہیں۔ سالانہ سرمایہ کاری کی سطحیں پورے سپلائی چین کے اندر دوگنی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پولی سلیکن، انگوٹس اور ویفرس مینوفیکچرنگ اہم مراحل میں ہیں اور انہیں افزوں طلب کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاریاں راغب کرنی ہوں گی۔ شمسی توانائی بہتات میں دستیاب ہے، شمسی توانائی کے علاوہ کوئی دیگر تکنالوجی ایسی نہیں ہے جو کنبوں اور برادریوں کو توانائی کے معاملے میں خودکفیل بنانے کےمضمرات کی حامل ہو۔ گرڈ-باہم اثر پذیر چھوٹے گرڈ اور کمیونٹی روف ٹاپ شمسی تنصیبات اس تبدیلی کو ممکن بنانے میں مددگار ہوں گی۔ 2070 تک نیٹ زیرو کے حصول کا جو نشانہ ہم نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے حصول میں شمسی توانائی بنیاد کا پتھر ثابت ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
٭بجلی اور نئی و قابل احیاء توانائی کے وزیر ، بھارت اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کے صدر۔ ظاہر کیے گئے خیالات ذاتی نوعیت کے ہیں۔

About awazebihar

Check Also

Top Search Engine Optimization Strategies!

Don’t act so surprised, Your Highness. You weren’t on any mercy mission this time. Several …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *