پٹنہ 16 نومبر ( اے بی این ایس ) مشہور و معروف صحافی،کئی اہم کتابوں کے مصنف اشرف استھانوی کا گزشتہ دنوں مغرب کے وقت انتقال ہوگیا جن کی پہلی نماز جنازہ فقیر باڑہ،پٹنہ میں تو وہیں دوسری نماز جنازہ مدرسہ محمدیہ احاطہ میں ادا کی گئی جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ڈھبری واقع قبرستان میں نم آنکھوں سے سپرد خا ک کئے گئے ۔ان کی رحلت کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پرآئی لوگوں کی جانب سے تعزیتی پیغامات موصول ہونے شروع ہوگئے اور مسلسل جاری ہے ۔ ان کی موت پر مختلف سیاسی ، سماجی ، ادبی حلقوں کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا ۔
نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ انہوں نے اردو صحافت کو ایک نئی جہت دی اور اردو صحافت کی ترقی میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی قومی سطح کے اردو اخبارات سے وابستہ رہے۔ ان کے انتقال سے اردو صحافت کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں عطا فرمائے۔ اور ان کے اہل خانہ و متعلقین کوصبر جمیل عطا فرمائے۔آر جے ڈی کے قومی صدر لالو پرساد اور سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے بھی اشرف استھانوی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
کشن گنج کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید آزاد نے اشرف استھانوی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ استھانوی ایک نڈر صحافی تھے، وہ مثبت سوچ رکھنے والے صحافی تھے، میڈیا کو گہرا دھچکا لگا ہے۔آج اردو صحافت ایک عظیم صحافی سے محروم ہوگئی۔
سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمد نے کہا ہے کہ اشرف استھانوی نے اردو صحافت کو سینچنے کا کام کیا، وہ اردو کے لیے جیتے رہے، وہ ہر وقت اردو کے لیے فکر مند رہتے تھے۔صحافت کی دنیا میں ان کی ایک بڑی شناخت تھی۔صحافی کے ساتھ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ رشتے نبھاتے تھے۔سب سے جان پہچان رکھتے تھے۔ان کی موت سے پوری صحافتی دنیا کا نقصان ہوا ہے۔جس کی تلافی فی الوقت ممکن نہیں۔
آر جے ڈی کے قومی ایگزیکٹو ممبر ریاض احمد نے اشرف استھانوی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو صحافت اور اردو تحریک آج ایک جانباز صحافی سے محروم ہوگئی۔
سابق ایم ایل اے ڈاکٹر اظہار احمد نے اشرف استھانوی کے اچانک انتقال پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ اردو صحافت کا ایک مضبوط ستون ،منہدم ہوگیا ہے۔ان کی ودھان سبھا اور ودھان پریشد کی رپورٹنگ جاندار تھی۔ ایک اچھے صحافی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔
شیعہ وقف بورڈ کے چیئر مین افضل عباس نے اشرف استھانوی کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا اچھا علم رکھتے تھے۔ بہار کے سابق گورنر اخلاق الرحمان قدوائی کے دور میں ان کا بڑا اثر تھا۔ وہ گورنر کے ذاتی مشیر بھی تھے۔ بہار ودھان سبھا اور بہار قانون ساز کونسل دونوں کی رپورٹنگ بہت اچھے طریقے سے کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر اور پڑھ کر بہت سے صحافیوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ صحافت میں ان کی بے لوث خدمات کی وجہ سے انہیں کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے ایوارڈ اور توصیف سے نوازا گیا۔ ان کے انتقال سے خاص طور پر اردو صحافت کا ایک مضبوط ستون منہدم ہوگیا جسے اردو آبادی کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ان کے انتقال پر اظہار تعزیت کرنے والوں میں آفاق احمد خان ایم ایل سی، رکن کونسل ڈاکٹر خالد انور ،امتیاز احمد کریمی،ابو قیصر ، اما غزالی ، سابق میئر پٹنہ افضل امام ، ڈاکٹر اسلم جاوداں، پروفیسر اعجاز علی ارشد، قاری صہیب ایم ایل سی، ڈاکٹر انوارالہدی، ، ، ڈاکٹر نورالسلام ندوی، ڈاکٹر آصف نواز، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، ڈاکٹر حبیب الرحمن علیگ، مسٹر ، انجینئر حسین، مولانا محمد عالم قاسمی، نوشاد احمد ، نیر استھانوی، پروفیسر اسرائیل رضا، مولانا مشہود احمد قادری ندی، سراج انور، راشد احمد، مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی، مفتی ثنا الہدی قاسمی، الحاج محمد ارشاداللہ،چیئر مین سنی وقف بورڈ، پروفیسر شہاب ظفر اعظمی، وارڈ کاؤنسلر اسفر احمد، امن چین کے مدیر اعلیٰ سید مشتاق احمد ، اسحاق اثر، محمد حسنین ، انور احمد سابق ایم ایل سی، یواین آئی اردوپٹنہ میں سب ایڈیٹر محمد قمر الحسن ، محمد ابو الحسن، محمد ابراہیم وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں۔