تکبر وہ بری شئے ہے جو اکثر ٹوٹ جاتی ہے

بےنام گیلانی
انسان خواہ جس قدر بھی صاحب مال و زر،صاحب ثروت،صاحب قوت ہو جائے پھر بھی وہ ایک انسان ہی ہوتا ہے جس کی شکست بھی یقینی ہوتی ہے اور موت بھی۔لیکن کچھ نادان اس امر کی تکذیب کرتے ہوئے اپنی خدائی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بلکہ خود کی خدائی کا اعلان بھی بہ بانگ دہل کر دیتے ہیں ۔علاوہ ازیں دنیا والوں کو اس امر کے لئے مجبور بھی کرتے ہیں کہ تم میری خدائی کو تسلیم کرو ورنہ صفحہء ہستی سے مٹنے کے لئے تیار رہو۔راقم الحروف کے درج بالا قول کی تصدیق قدیم تاریخ کے واقعات سے تو ہوتی ہی ہے۔عصر حاضر کے واقعات سے بھی ہونے لگی ہے۔
دوسری جنگ عظیم جہاں انسان و انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ۔جہاں دنیا اپنی تباہی و بربادی پر ماتم کناں تھی ۔وہیں امریکہ اپنی خدائی قائم کرنے میں مصروف کار تھا۔دنیا کئی خانوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔لیکن امریکہ اس مغموم و مجروح دنیا پر چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے بےتاب نظر آرہا تھا۔اپنی اسی چودھراہٹ کے قیام کے لئے اس نے اقوام متحدہ کو وجود میں لایا۔مذکورہ بالا عالمی ادارہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے ہی یہ امریکہ کے ایک حربہ کی شکل میں استعمال ہو رہا ہے۔یعنی محض اپنی چودھراہٹ کے قیام کی غرض سے ہی امریکہ نے اسے قائم کیا ۔جس کا پہلا منفی انجام یہ ہوا کہ آج جو بھی ملک امریکہ کی مخالفت کرتا ہے وہ اسی اقوام متحدہ کے ذریعہ اس پر کئی قسم کی پابندیاں عاید کروا دیتا ہے۔ جس کے باعث امریکہ کے اس معتوب ملک کے سامنے کئی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ان ہی پابندیوں کے خوف سے دیگر ممالک امریکہ کی بیجا چودھراہٹ قبول کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ سلسلہ 24 اکتوبر 1945سے فی زمانہ تک جاری و ساری ہے۔ اس طرح سے مکر و فریب کر کے امریکہ نے پوری دنیا پر آپنی چودھراہٹ قائم کر لی۔اسی طرح عالمی منڈی میں اپنی کرنسی(ڈالر)کو لازمی قرار دے کر اپنی معیشت کو کافی مستحکم کر لیا۔یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کی تکذیب ممکن نہیں ہے۔امریکہ نے اپنے ڈالر کو عالمی منڈی میں لازم کرنے کے ساتھ ہی اسلحہ کا کار و بار شروع کر دیا۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ نے اپنے یہاں کے تعلیمی نظام کو بالکل شفاف اور مستحکم رکھا۔چنانچہ امریکی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔۔امریکہ نے سائنسی تحقیقات کے مد پر بھی کافی خرچ کرتا رہا ہے ۔زمین سے لے کر چاند ستاروں پر بھی تحقیقی عمل جاری رکھا ۔جس کا ماحصل یہ ہوا کہ یہ بڑا سے بڑا اورخطرناک سے خطرناک اسلحہ بنانے میں کامیاب ہوا۔اسی علمیت کے ذریعہ اس نے میزائل سسٹم کو فروغ دیا،سیٹیلائٹ کو فروغ دیا اور چاند ستاروں پر بھی کمندیں ڈال دیں جس کے بل پر آج دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔امریکہ کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ اس کے یہاں علمیت کی قدر ہے۔کاش علمیت کی ایسی قدر مسلم ممالک میں بھی ہوتی ۔بہر کیف اہل امریکہ کی علمیت کے باعث وہ ہر طرح سے مستحکم ہوا۔اس سے عالمی برادری کو بھی فایدہ ہوا۔لیکن اس علمیت کے کئی منفی پہلو بھی ہیں۔اس علمیت کے حصول سے جو طاقت امریکہ کو حاصل ہوئی اس نے اسے تکبر اور خود عنانیت عطا کر دی۔جس کے باعث معلوم نہیں کتنے ممالک تباہ و برباد ہو گئے مثلاً کیوبا،ویت نام،سیریا،افغانستان،عراق،اور لبنان وغیرہ۔اب امریکہ کی خود عنانیت کا قہر روس پر نازل ہو رہا ہے۔متذکرہ بالا ممالک میں امریکہ اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا تھا لیکن ان ممالک نے اس کی چودھراہٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔چنانچہ امریکہ نے یکے بعد دیگر ان سبھوں پرحملہ آور ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ ممالک ایسے برباد ہوئے کہ ان کی کمر فی زمانہ تک سیدھی نہیں ہوئی۔ان جنگوں میں سب سے زیادہ نقصان سے لبیا اور عراق کو دو چار ہونا پڑا ۔کیونکہ متذکرہ بالا دونوں ہی ممالک میں انفراٹکچر کے باہم دیگر اقتصادی نقصانات تو ہوئے ہی علاوہ ازیں لبیا اور عراق کے سربراہان کرنل قذافی و صدام حسین مرحومین کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ہاں ان تباہ و برباد ممالک میں کیوبا کے سربراہ کاسترو نے کبھی سر خم نہیں کیا۔جنگ تو ہوئی لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوئے۔۔جس کا انجام یہ ہوا کہ امریکہ کو اپنا قدم واپس لینا پڑا۔کیونکہ اس جنگ سے امریکہ کی معیشت بہت زیادہ متاثر ہو رہی تھی۔یہ امریکہ کی وہ بد نما تصویر ہے جس کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی انسان اس کی حمایت نہیں کر سکتا تھا۔لیکن انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس مغرور ،ظالم اور قاتل کی ہر حال میں بین الاقوامی
ادارہ اقوام متحدہ کر رہا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی حیثیت کیا ہے۔یہ بھی ایک قابل غور امر ہے کہ کیا اقوام متحدہ جس مقصد کے تحت معرض وجود میں آیا تھا کیا وہ اس نے اپنا کام ایماندارانہ و دیانتدارانہ طور پر نبھایا ہے۔ناچیز کے خیال سے وہ اپنا فرض نبھانے میں کلی طور پر ناکام رہا ہے۔اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آج تک دنیا بھر کا سرحدی معاملہ الجھا ہوا ہے۔بےسبب کی جنگیں ہوتی رہیں۔لیکن ان جنگوں پر قدغن لگانے میں اقوام متحدہ ناکام ریا۔ایسا اس لئے عمل پزیر ہوا کیونکہ ان جنگوں کے باعث امریکہ کے اسلحہ جات کی تجارت میں اضافہ ہوتا رہا۔یعنی کہ لاشوں پر تجارت کرنا امریکہ کی معیشت کو استحکام عطا کرتا رہا۔لوگ مرتے رہے اور امریکہ ان اموات کا جشن مناتا رہا۔یہی چیز اس کی خدائی کے قیام میں معاون و مددگار ثابت ہوتی رہی۔جس پر اقوام متحدہ بغلیں بناتا رہا۔
تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ نے ہر ابھرتی ہوئی معیشت کو زوال پزیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔یہ دیگر امر ہے کہ اپنے اس عمل میں کبھی کامیاب ہوا اور کبھی ناکام رہا۔اس کی مثال ویت نام ،عراق اور لیبیا ہے ۔متذکرہ بالا تینوں ممالک کی معیشت کافی ترقی پزیر تھی۔اسی کے باہم ان تینوں ممالک نے امریکہ کی غلامی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس پر مستزاد لبیا نکولیر بم بنا لینے کے دہانے پر کھڑا تھا۔جس سے امریکہ کافی خوفزدہ تھا۔جملہ طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں ممالک ہر طرح سے امریکہ کے مقابل کھڑے ہونے کی جراءت کر رہے تھے۔یہی جراءت رندانہ ان تینوں ممالک کے لئے عذاب جان ثابت ہوا۔ کیونکہ ان کی ایسی جراءت امریکہ کو قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ امریکہ نے اپنے حواریوں(ناٹو ممالک)کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کر دیا۔اب یہاں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ کیسا عالمی چودھری ہے کہ وہ تن تنہا کسی بھی ملک سے جنگ کرنے کا اہل خود کو تصور نہیں کرتا ہے۔شاید یہی سبب ہے کہ وہ اپنی ہر جنگ میں اقوام متحدہ کے باہم ناٹو ممالک کا سہارا لینے کو مجبور ہوتا ہے۔اس کا یہ معنی ہوا کہ وہ خود اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی اسے اپنی فوج اور اپنے اسلحہ جات پر ہی یقین ہے۔ان تمام حقائق کے باوجود وہ خود کو خدائے وقت تصور کرتا رہاہے۔اب اسے اس کی نادانی پر محمول کیا جائے یا بیجا تکبر پر۔یہ امر احقر کی فہم سے پرے ہے ۔
فی زمانہ جاری روس اور یوکرین کے مابین جنگ کسی ملک پر قبضے کے لئے نہیں ہے یا گزشتہ امریکہ و عراق کی جنگ کی مانند تیل پر قبضے کی جنگ نہیں ہے۔بلکہ حقیقتاً اپنی اپنی خدائی قائم کرنے کی جنگ ہے۔ایک جانب امریکہ ساری دنیا پر اپنی خدائی قائم کئے ہے تو دوسری جانب روس کو کسی بھی ملک کی محکومی و غلامی قبول نہیں ہے۔وہ خود کو امریکہ پر سوا تصور کرتا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ روس کسی بھی طرح امریکہ سے زیر نہیں ہے۔اسی برتری کی جنگ میں بیچارہ یوکرین پس گیا۔وہ بھی ایسا پسا کہ بالکل ملبہ میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔اب اگر روس شکست خوردہ بھی ہوتا ہے تو فائدہ امریکہ کو ہوگا نہ کہ یوکرین کو۔یوکرین تو ہر طرح سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔اب چونکہ اس جنگ میں بڑے پیمانے پر بم بارود جہاز و میزائل اور توپ ٹینک برباد ہوئے ہیں جس کے باعث یقیناً امریکہ بھی کمزور ہوا ہی ہے۔کیونکہ یوکرین کو حربی مدد صرف امریکہ ہی دے رہا ہے یہ اور بات ہے کہ امریکہ کے علاوہ کم و بیش پچاس ممالک مل کر کر دے رہے ہیں اور روس تن تنہا سبھوں کو پانی پلائے ہے۔امریکہ کی تو کوشش تھی کہ روس اسی بہانے حربی طور پر بالکل کھوکھلا ہو جائے۔شاید اس نے روس کی حربی ذخیرے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ایک اکیلے روس نے پچاسوں ممالک کو پانی پلا کر رکھ دیا۔اس کے باوجود ابھی بھی بہت سارے بڑے ہتھیار کا استعمال اس نے نہیں کیا ہے تاکہ ہلاکت مزید بڑے پیمانے پر عمل پزیر نہ ہو ۔جبکہ اسی امریکہ نے افغانستان کے ساتھ جنگ میں تورا بورا پہاڑ پر فائبر بم گرایا تھا تا کہ بڑے پیمانے پر مجاہدین کی ہلاکت عمل میں آئے ۔فائبر بم کی خوبی یہ ہے کہ وہ جہاں پھٹتا ہے وہاں کے آکسیجن کو جذب کر لیتا ہے اور وہاں موجود انسان سانس نہ لینے کے باعث دم توڑ دیتا ہے۔یہ امتیاز ہے امریکہ اور روس کی فکر میں۔ایک نے بڑی بےدردی کے ساتھ دانستہ انسانوں کو ہلاک کیا اور دوسرا انسانی ہلاکت کے خوف سے اپنا ہلاکت خیز اسلحہ استعمال نہیں کر رہا ہے۔جبکہ اس جاری جنگ میں کثیر تعداد میں روسی فوج کی بھی ہلاکت عمل میں آئی ہے۔پھر بھی روس کے صدر پوتن وہ نہیں کر رہے ہیں جو ظالم امریکہ نے افغانستان میں کیا تھا۔ایسا صرف امریکہ کے احساس خدائی کے باعث ہوا۔اس کے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ میرا کون کیا بگاڑ سکتا ہے اور روس امریکہ کے اسی احساس برتری کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔وہ اس سلسلے میں اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوا ہے۔روس نے اس جنگ کے ذریعے کسی حد تک امریکہ کے اس تکبرانہ بھرم کو مٹانے میں کامیاب ہوا ہے۔اسی کے باہم اس حقیقت کو ناٹو ممالک بھی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا ہے۔اس لئے اب وہ اس روس اور یوکرین جنگ سے دامن چھڑانا چاہ رہے ہیں۔جیسا کہ خبر موصول ہو رہی ہے کہ ناٹو ممالک کے اسلحہ جات خاتمے کے قریب ہیں۔انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر غصے میں روس نے ان پر حملہ کر دیا تو ان کا کیا حشر ہوگا۔چنانچہ مغرور امریکہ کے باعث ان ناٹو ممالک کو کئی ملین ڈالر کا اسلحہ اسی امریکہ سے خریدنا ہوگا ۔جس کے غرور کے باعث ان کے اسلحہ جات ختم ہوئے یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ امریکہ نے ناٹو ممالک کو کس طرح بیوقوف بنا کر اپنی تجارت کو فروغ دیا ہے۔دوسری جانب ناٹو ممالک پر اتنے بیجا اخراجات اس وقت آگئے جب ساری دنیا کساد بازاری اور گرانی کی شکار ہے۔جہاں لوگوں کے لئے خوردنی اشیا کا حصول ایک عظیم مسئلہ بنا ہوا ہے ،ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔وہیں ناٹو اور دیگر مغربی ممالک کو اسلحہ کی خریداری پر پانی کی طرح پیسہ بہانا پڑ رہا ہے۔وہ بھی صرف اور صرف امریکہ کی خدائی قائم رکھنے کے لئے۔اخر یہ کیسی غلامی ہے۔حیرت تو اس امر پر بھی ہے کہ یہ ممالک خود امریکہ سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس کی زرہ برابر بھی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے ہیں۔یہ کیسا خوف اور کیسی دہشت ہے کہ یہ ممالک خود کی بربادی تو گوارہ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ سے بغاوت نہیں کر سکتے ہیں۔اس کے باوجود ناٹو اور دیگر ممالک والے خود کو بر صغیر والوں سے زیادہ فہم و فراست اور عقل و خرد والا تصور کرتے ہیں۔علاوہ ازیں خود کو ناقابل شکست بھی سمجھتے ہیں۔ان کی ایسی نادانی پر بس قہقہے لگانے کو جی چاہتا ہے۔
امریکہ اپنی خدائی قائم کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم سے کوشاں رہا ہے۔کسی حد تک اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہا ہے۔لیکن شاید وہ اس تلخ حقیقت کو فراموش کر گیا کہ جس نے بھی دنیا میں خدائی قائم کرنے کی کوشش کی اس کا انجام بہت برا ہوا ہے۔کیا اسے نہیں معلوم کہ اپنے وقت کا انتہائی طاقتور بادشاہ جس نے خدائی قائم کرنے کی کوشش کی اس کیا حشر کیا ہوا۔نمرود جس نے زمین پر خدائی قائم کرنے کی کوشش کی خدا نے اس کے ساتھ کیا کیا۔شداد جس نے روئے ارض پر جنت تعمیر کروا کر خدا کی زات کو چیلنج کر دیا اس کے ساتھ خدا نے کیا کیا۔فرعون کا کیا انجام ہوا۔متذکرہ بالا شاہان وقت کے علاوہ بھی کئی شاہان وقت نے اپنی اپنی خدائی قائم کرنے کی سعی بلیغ فرمائیں لیکن سب کے سب کا انجام اتنا برا ہوا کہ سنتے ہی روح لرزہ براندام ہو جاتی ہے۔معاصر دور کے امریکی حکمراں بھی اپنی خدائی قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ یقیناً ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو قبل کے مدعیان خدائی کا ہوا ہے۔اس کا یقین راقم الحروف کو تو ہے لیکن ان متکبر و مغرور امریکیوں کو نہیں ہے ۔شاید وہ نہیں جانتے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کو نہ تکبر پسند ہے اور نہ ہی اپنے سوا کسی کی خدائی۔اسی مقصد کے تحت اس نے طاقت و قوت کے معاملے میں روس اور چین کو امریکہ کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔چنانچہ امریکہ کے زوال و فنا کی داستان لکھانی شروع ہو چکی ہے۔عنقریب ہی فیصلہ کن معرکہ بھی متوقع ہے۔اب دیکھتے جائیےاس کے فنا یا سرخمی کا وقت کب کا متعین ہے۔

 

About awazebihar

Check Also

وقت کاتقاضہ اور ہماری ذمیداری

از قلم:- معراج احمد قمر                     …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *