نئی دہلی، 18 نومبر(یو این آئی)مرکزی اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی پر حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مرکزی حج کمیٹی کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نےانہیں ایک تفصیلی خط لکھا ہے جس میں انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ محترمہ وزیر موصوفہ آپ کی ہی وزارت میں اپنے ہی قانون حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
پریس کو جاری خط میں انہوں نے کہا ہے کہ ایکٹ میں صاف صاف لکھاہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا اور اسٹیٹ حج کمیٹی کی چار ماہ پہلے پوری کمیٹی بن کر تیار رہنی چاہیے مگر جون 2019 کے بعد حج کمیٹی آف انڈیا کی مدت ختم ہوئی اور وزارت نے چھ چھ ماہ کی مدت بڑھائی اور اس کے بعد عدالت کے دخل کے بعد بیشتر اسٹیٹ میں حج کمیٹیاں بنی ہیں اور حج کمیٹی آف انڈیا آج تک ایکٹ 2002 کے تحت نہیں بنائی گئی اپریل 2022 میں حج کمیٹی آف انڈیا جو 12 رکنی بنائی گئی اس میں بھی ایک ممبر کی مفتی کوٹہ میں ممبر شپ رکھی گئی اور دوسرے راجیہ سبھا ممبر جن کی مدت 3 ماہ بعد ختم ہونی تھی اور ختم ہوگئی اس طرح قانون کا مذاق اڑا کر حج کمیٹی کی ادھوری تشکیل کردی گئی جبکہ 19 ممبران کو ووٹ دینے کا حق ہے سب سے پہلے ضروری ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل حج ایکٹ 2002 کے تحت پوری 23 رکنی کمیٹی بناکر ایک ساتھ اس کا انتخاب کیاجائے۔
مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ آل انڈیا حج کانفرنس سے میڈیا کو دور رکھا گیا جبکہ اس کانفرنس کی طرف پورے ملک کے مسلمانوں کی نگاہیں لگی رہتی ہیں کہ حج کانفرنس میں ملک کے عازمین حج کے لیے کچھ نئی سوغات ملے گی مسٹر اعظمی نے کہا کہ وزیر موصوفہ نے جواشارہ دیے ہیں وہ کچھ اخبارات میں خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ڈیپوٹیشن پہ ڈاکٹر خادم الحجاج اے .ایچ. او .وغیرہ جاتے ہیں شاید آپ کی رائے ہے کہ انھیں بند کردیا جائے ۔مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ مکہ شہر پوری طرح پہاڑ پر بسا ہوا ہے اور ملک سے جانے والے حاجیوں کی ایوریج عمر 65 سال سے زیادہ ہوتی ہے اور وہاں کا موسم بھی یہاں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور عازمین مکہ پہنچنے کے بعد فوراً انھیں ضروری ارکان پیدل چل کر کافی محنت اور مشقت سے ادا کرنے پڑتے ہیں ایسے میں 90 فیصد عازمین کا شروعاتی دور میں بیمار پڑنا لازمی ہوتاہے اور مکہ میں 20 سے 40 اسپتال قائم ہوتے ہیں جس کے ایک ایک اسپتال میں کئی کئی ڈاکٹر اور عملہ ہوتا ہے اور وہ حاجیوں کا ضروری علاج کرتے ہیں اور مدینہ میں بھی یہی نظام قائم ہوتاہے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ خادم الحجاج اور اے.ایچ. او جو وہاں بھیجے جاتے ہیں کاؤنسلیٹ وہاں اپنے طور پر ڈیوٹی لگاتاہے اور مختلف بلڈنگوں میں خادم الحجاج کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور چوں کہ یہاں کے حاجی سعودی زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کی وہ پوری طرح رہنمائی کرتے ہیں اور وہاں پر حاجیوں کے گم ہونے کی شکایت بھی بہت زیادہ رہتی ہے ایسے میں یہ افسران انھیں ڈھونڈ کر کمرہ میں پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں اس لیے یہ سہولت بھی برقرار رہنی چاہیے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ عازمین حج کو انٹر نیشنل مسافر کی طرح ڈالر دینے کے بارے میں بھی بات آئی ہے لیکن وہ نظام کسی بھی طرح حج کمیٹی کے حاجیوں کے لیے مناسب نہیں ہوگا کیوں کہ 75 فیصد آبادی ہماری گاؤں میں ہے اور حاجی اسی گاؤں سے جاتے ہیں اس طرح پہلے یہ نظام تھا کہ جدہ میں ایئرپورٹ پر انھیں یہ ریال دیے جاتے تھے جس میں بہت شکایتیں ملتی تھیں کہ وہاں لائن لگاکر بھی کچھ حاجی نہیں لے پاتے تھے اور کچھ حاجی ادھر ادھر ہوجاتے تھے اس طرح کی شکایت ملنےکے بعد حج کمیٹی آف انڈیا نے غورخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اپنے ملک ہی میں انھیں ایئرپورٹ پر یہ ریال دیا جائے اور یہ نظام پوری طرح اچھا ہے اگر اس سلسلے میں ڈالر کا نظام قائم کیا گیا تو حاجی گاؤں سے لے کر مکہ شہر تک ڈالر کو کیش کرانے میں اور ڈالر کو حاصل کرنے میں پریشان ہوں گےلہٰذا یہ نظام کسی بھی طرح بند نہ کیاجائے۔اور 2100 ریال جو حاجی کو دیے جاتے ہیں وہ ان کی ضرورت کےلیے کافی ہوتے ہیں۔
مسٹر اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ شیڈول فلائٹ سے بھی حاجیوں کو بھیجنے پہ غور وخوض ہورہاہے جوکسی بھی طرح عملی طور پر کامیاب نہیں ہوسکتا کیوں کہ جدہ میں حج ٹرمنل الگ ہے اور شیڈول فلائٹ کا ایئرپورٹ الگ ہے اور ساتھ ہی شیڈول فلائٹ سے اتنی بڑی تعداد میں حاجی کا جانا ناممکن ہے حج کمیٹی کے حاجی کوچارٹر فلائٹ سے ہی بھیجنا مفید ہوگا ہاں کرایہ کم کرنے کے لے انٹر نیشنل گلوبل ٹینڈر کیاجائے اور اس میں شفافیت اور محنت سے وزارت شہری ہوا بازی اپنی ذمہ داری نبھائے ۔ اس کے علاوہ جو9 بڑے امبارگیشن پوائنٹ ہیں ان کی الگ سے ٹینڈرنگ کی جائے تو یہ سفر کچھ سستا اور آرام دہ ہوسکتاہے ۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ جہاں تک حج سستا کرنے کا سوال ہے معلم فیس اس وقت کئی گناہ بڑھ گئی جو سعودی عرب حکومت سے وابستہ ہے اس سلسلے میں امبیسڈر اور کونسل جنرل آف انڈیا کی طرف سےسنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے وہاں شاہی حکومت ہے نتیجہ کچھ بھی ہوسکتاہے ہاں جو وہاں رہائش کے لیے کمرہ لیا جاتاہے اس میں کچھ شفافیت اور محنت کی جائے تو کچ سستے مکان مل سکتے ہیں ۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے پاس جو بھی اثاثہ اور سرمایہ ہے وہ مسلمانوں کی گاڑھی کمائی کا ہے اسے خرچ کرنے کےلیے ایکٹ 2002 میں 4 ایکس آفیشیو ممبران اس کی دیکھ ریکھ کےلیے اور سرکار کی رائے بتانے کےلیے ہوتے ہیں ۔
مسٹر اعظمی نے اخیر میں محترمہ وزیر موصوفہ سے مؤدبانہ اپیل کیا ہے کہ یہ سفر ایک گاؤں سے شروع دوسرے ملک میں ختم ہوتاہے اس میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے سے پہلے متعلقہ محکمہ وزارت خارجہ وزارت شہری ہوا بازی، اسٹیٹ حج کمیٹی ، سینٹرل حج کمیٹی، اور ہرشہر میں جو حج رضا کار ہیں ان کے مشورے سے یہ دھیرے دھیرے برسوں سے اصلاحات کرکے روایات قائم ہوئی ہے اس لیے اس میں ہفتوں اور مہینوں میں کچھ لوگوں سے مشورہ اور رائے مانگ کرکے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے کم ازکم ایک سال کی مدت کے لیے کوئی کمیٹی بنائی جائے اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داروں کو شامل کرکے اور اس کے لیے جگہ جگہ دورے کرکے وہ اپنی رپورٹ پیش کرے اس کے بعد کوئی انقلابی تبدیلی آئے گی تو وہ عازمین حج کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے ۔
مسٹر اعظمی نے خط کی کاپی وزیر اقلیتی فلاح وبہبود وحج محترمہ اسمتی ایرانی کے علاوہ وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری اور وزارت شہری ہوا بازی کے جوائنٹ سکریٹری ،اقلیتی فلاح وبہبود وحج وزارت کے جوائن سکریٹری سعودی عرب ریاض میں امبیسڈراور کونسل جنرل آف انڈیا جدہ اور چیف ایکزیٹیو حج کمیٹی آف انڈیا ممبئی کو بھیجی ہے۔