محمد حسین آزاد کی حیات و ان کی ادبی خدمات کا ایک مطالعہ

اسلم رحمانی
شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور
محمد حسین آزاد 10/جون 1830ء کو دہلی میں پیدا ہوئے،اور 22/ جنوری 1910ء کو 80/سال کی عمر میں ان کی روح پرواز کر گئی۔
ابتدائی تعلیم:محمد حسین آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صحافی شہید مولوی محمد باقر کے دوست شیخ محمد ابراہیم ذوق سے حاصل کی۔ آزاد نےعربی اور فارسی اپنے والد سے ہی سیکھی اور پھر دلّی کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے ساتھ صحافت سے وابستہ ہوگئے۔
ادبی خدمات :محمد حسین آزاد ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ تحریر تقریر اور بطور خاص اسلوب میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تحقیق، تنقید،تذکرہ نگاری،سوانح نگاری،خاکہ نگاری،انشاء نگاری،مقالہ نگاری،صحافت نگاری،مکتوب نگاری،تاریخ نگاری،نثر نگاری وغیرہ اردو میں نقش اوّل کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی محمد خالد اقبال احمد صدیقی رقمطراز ہیں کہ:
مولانا آزاد کی سب معرکتہ الآراء تصنیف آب حیات ہے وہ پلہی کتاب ہے۔ جس نے اردو تنقیدی شعور اور تحقیقی بصیرت سے روشناس کرایا۔یہ الگ بات ہےکہ اس نے باقاعدہ تحقیقی وتنقیدی اصول وضوابط متعین نہیں کئے۔تنقید وتحقییق کی کسوٹیاں اور معیار مقرر نہیں کئے۔لیکن عملی طور پر کاربند ہوکر غیر شعوری طور سے اس بات کا احساس دلایا کہ کسی شاعر کے کلام یاکسی ادیب کی تصنیف کو بنا چوں و چرا و بغیر نقدو تحقیق کئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔نہ ہی اس کی رائے کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاسکتا ہے۔جو چیز آپ کو پسند ہے ضروری نہیں کہ سب کو پسند ہو ،جس بات کا مشورہ آپ دوسروں کو دیں۔ لازم نہیں کہ وہ اسے ویسے ہی مان لے کسی کے کلام یاکسی کی تصنیف کو کسی دوسرے پر تھوپا نہیں جاسکتا بلکہ اس کے محاسن و معائب گنائے جائیں گے اس پر نقد و تبصرہ کیاجائے۔ تحقیق و تنقید کے اصول و ضوابط معیار و کسوٹی پر جانچا اور پرکھا جائے اسی پر عروضی، فنی اختلافی بحثیں بھی کی جائیں۔
(مولانا حسین آزاد کی تنقید نگاری،ص:19/ بھوپال بک ہاؤس، بدھوارا، بھوپال)
قاضی محمد خالد کی اس تفصیلی اور طویل اقتباس سے آزاد کی فنی کمالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے آزاد کی تنقید نگاری بے مثل اور فنی کمالات کا مجموعہ ہے۔ یہ مسلم حقیقت ہے کہ محمد حسین آزاد وہ پہلے تنقید نگار ہیں۔ جنہوں نے باقاعدہ طور سے اردو کو تنقید سے آشنا کیا۔قاضی محمد خالد اقبال احمد صدیقی مزید لکھتے ہیں کہ:
مولانا آزاد کے سامنے اردو میں تنقید کاکوئی قابل تقلید نمونہ نہیں تھا۔اس لئے بحیثیت ناقد یا تنقید نگار انہیں خودہی اپنی ذہانت مطالعہ اور فارسی وانگریریزی کی تنقیدوں کا سہارا لیتے ہوئے سب کچھ کرنا پڑا۔لیکن ان کی تحریروں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہےکہ انہوں نے مغرب سے استفادہ کے باوجود مشرقی اصول شعریات کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ مشرقی نقد ہی ان کے ذہن میں معیار بنے۔مولانا نے شعراء کے کلام پر تنقیدی رائے دینے میں مشرقی معیار نقد کو کسوٹی اور نمونہ بنایا ہے اور اسی پران کا جانچا و پرکھا ہے۔وہ ہر شاعر کے کلام میں الفاظ، قافیہ،ردیف،صنائع بدائع،تشبیہ استعارے عروضی و فنی چیزیں سادگی، روانی اصلیت جوش محاکات فصاحت، بلاغت روز مرہ محاورات برجستگی، صحت مضامین کو اپنی باریک بینی اور “پارکھ” نظروں سے دیکھتے اور تولتے ہیں۔ انہوں نے تنقیدی تبصرے بھی انشاء پردازی کے رنگ میں ڈوب کر لکھے ہیں۔
(مولانا حسین آزاد کی تنقید نگاری،ص:25/ بھوپال بک ہاؤس، بدھوارا، بھوپال )
محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی مانند عیاں ہوجاتی ہے کہ کسی شاعر پر قلم اٹھانے سےقبل وہ کوئی مفروضہ قائم کرلیتے ہیں۔اس کے بعد جب زبان قلم کو انشاءپردازی کا چٹخارا دلاتے ہیں تو زبان قلم ایسی چلتی ہے گویا بوٹے تراش رہی ہو۔ تحقیق و تنقید کے سمندر میں غوطہ لگا رہے ہو۔
نثر نگاری :نثر نگاری کی فن کو پروان چڑھانے میں محمد حسین آزاد کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر نوارالحسن نقوی رقمطراز ہیں کہ:
1857ء کاسال ہمارے ملک کی تاریخ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سال ہندوستان ہندوستان سے مغل سلطنت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ایک تہذیب بھی مٹ گئی۔ ملک پر انگریزوں کا تسلط ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی تہذیب آئی سوچنے کا نیاانداز آیا ہمارے بزرگ نقادوں نے انگریزی ادب کو دیکھا تو اس کے مقابلے میں اپنا ادب ناکارہ اور بے مصرف نظر آیا۔ شاعری میں عشق و عاشقی کے قصے بے وقت کی راگنی محسوس ہوئے۔نثر کا مصنوعی انداز اظہار خیال کے راستے کی رکاوٹ معلوم ہوا۔اہل قلم کے دلوں میں یہ احساس جاگزیں ہوگیا کہ اب اپنی نثر و نظم کی دنیا بدل ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔اردو ادب کی خوش قسمتی کہ کئی دیوقامت نثر نگار پیدا ہو گئے جن کی تحریروں نے اردو نثر کی کائنات میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیا۔
(تاریخ ادب اردو، ص:286 ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ )
اردو نثر نگاری کو محمد حسین آزاد نے پروان چڑھایا۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں کہ:
اردو نثر کو پروان پروبال عطاء کرنےوالوں میں ایک بڑی شخصیت مولانا محمد حسین آزاد کی ہے، جس طرح نظم جدید کی ابتداء کرنے کا سہرا آزاد کے سرہے اسی طرح اردو نثر میں کئی قابل قدر اضافوں کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہے۔
جدید شاعری کے معمار :جدید اردو شاعری کو ایک نیا شعور ایک نیا نسب اور ایک نیا افق دینے والے محمد آزاد حسین کی شاعرانہ خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے ہوئے عبد القادر سروری لکھتے ہیں کہ:
اردو کی جدید شاعری کے بانیوں میں سب سے پہلی قابل قدر شخصیت محمد حسین آزاد ہے۔ آزاد ایک مضطرب دماغ اور بچین دل لےکر پیدا ہوئےتھے۔ ذوق جیسے قادرالکلام استاد کی صحبتوں نے ان کے مذاق شعری اور قوت لسانی کو بےحد سنواردیا تھا۔”انجمن پنجاب” کے ایک جلسے میں جو اگست 1867ء میں منعقد ہواتھا۔ انھوں نے قدیم شاعری کے تنزل کا مرثیہ پڑھنے کے بعد،شعر کے حقیقی مطمح نظر کو یوں واضح کیا تھا۔
شعر گلزار فصاحت کا پھول ہے۔ گہلائے الفاظ کی خوشبو ہے،روشنی عبارت کا پرتو ہے۔ روح کےلئے ابحیات ہے۔ گرد غم کو دل سے دھوتا ہے،طبیعت کو بہلاتا ہے خیال کو عروج دیتا ہے دل کو استغنا اور بے نیازی اور ذہن کو قوت پرواز دیتا ہے۔
آزاد نے اپنے طورپر یہ کوشش شروع کردی تھیں لیکن اس وقت ان کی غیر اہم شخصیت، عوام پر ان کے خیالات کا اثر جمنے نہیں دیتی تھی اس لئے انہوں نے کرنل ہالرائیڈ کو جو سررشتہ تعلیم پنجاب کے ناظم تھے 1874ء میں اس بات پر آمادہ کیاکہ اردو شاعری کے قدیم طرز کو بدلنے میں وہ ان کی مدد کریں۔اس کے مشاعرے منعقد کئے جائیں جن کا مقصد طرح مصرعہ کی بجائے موضوع پر شعر لکھوانا ہو آزاد کی یہ سعی بڑی مشکور ہوئی۔
(جدید اردو شاعری، ص:78/ مطبع انجمن امداد باہمی مکتبہ ابراہیمیہ اسٹیشن روڈ،حیدرآباد دکن)
بطور مثال پیاری ماں نطم ملاحظہ فرمائیں ؂
نہ کچھ مجھ میں طاقت تھی جس آن اماں
نہ اچھے برے کی تھی پہچان اماں
تمہیں سب طرح تھیں نگہبان اماں
تمہیں کو تھا ہر دم مرا دھیان اماں
مری پیاری اماں مری جان اماں
مجھے پیار سے دودھ تم نے پلایا
تھپک کر محبت سے تم نے سلایا
بہت دن مجھے گودیوں میں پھرایا
مجھے سکھ دیا آپ ہے دکھ اٹھایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
کبھی اپنی گودی میں مجھ کو لٹانا
کبھی میٹھی باتوں سے مجھ کو ہنسانا
کبھی پیار کرنا گلے سے لگانا
نہ بھولوں گا میں عمر بھر وہ زمانہ
مری پیاری اماں مری جان اماں
جو دکھ سے کبھی نیند مجھ کو نہ آئی
تو اس فکر میں رات تم نے گنوائی
کبھی کچھ دوائی کھلائی پلائی
کبھی کوئی میٹھی سی لوری سنائی
مری پیاری اماں مری جان اماں
تمہیں نے ہے اچھا طریقہ سکھایا
تمہیں نے ہے رستہ خدا کا بتایا
تمہیں نے گناہوں سے مجھ کو بچایا
تمہیں نے مجھے آدمی ہے بنایا
مری پیاری اماں مری جان اماں
بہت کی مرے ساتھ تم نے محبت
اٹھائی مرے واسطے سخت محنت
اگر دے خدا مجھ کو عمر اور دولت
تمہاری بجا لاؤں ہر طرح خدمت
مری پیاری اماں مری جان اماں
تصنیفات:محمد حسین آزاد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے تصنیف وتالیف کے میدان میں ان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ صدر شعبۂ فارسی و اردو لکھنؤ یونیورسٹی پروفیسر مسعود حسین رضوی لکھتے ہیں کہ:شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد عربی وفارسی کے جید عالم تھے، سنسکرت اور بھاشا سے بھی واقف تھے،انگریزی شاعری کے رنگ اور انگریزی نثاری کے اسلوب کو خوب سمجھتے تھے۔ لسانیات کے ذوق پر ان کی تصنیف سخندانِ فارس شاہد ہے اور ادبی تحقیق کے ذوق پر آب حیات گواہ ہے۔ اس طرح ان میں وہ تمام اوصاف جمع تھے جو اردو کے کسی ادیب کی کامیابی کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اردو کے شعر و ادب کا جائزہ لےکر ہمیں بتایاکہ اس میں کیا کیا خامیاں ہیں اور کن کن چیزوں کی کمی ہے،اور خودساری عمر ان خامیوں کو دور اور ان کمیوں کو پورا کرنے میں مصروف رہے۔
آب حیات کی مقبولیت: بہت سی کتابیں حضرت آزاد کی تصنیف سے ہیں، مگر جن کتابوں نے اپنے مصنف کا نام اور اردو ادب کا مرتبہ بلند کیاکردیا وہ چار ہیں۔آب حیات، سخندانِ فارس،دربار اکبری، نیرنگ خیال یہ گویا چار ستون ہیں کہ حضرت آزاد کی شہرت کا قصر رفیع انھیں پر قائم ہے۔ ان میں بھی جو شہرت آب حیات کو حاصل ہے،وہ کسی دوسری کتاب کو میسر نہیں۔
محمد حسین آزاد کی فن تصنیف وتالیف کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے آغا محمد باقر یوں رقمطراز ہیں کہ:
آزاد کو تصنیف وتالیف کا اس قدر ہمہ گیر شوق تھا۔کہ وہ ادبیات کے کسی خاص شعبے تک محدود نہ تھا۔دربار اکبری اکبر کے زمانے کی تاریخ ہے۔ آب حیات میں شعرائے ہند کا تذکرہ ہے۔ فارسی بول چال پر مشتمل ہے۔ سخندان پارس زبان فارسی کی تحقیقات سے لبریز ہے۔نیرنگ خیال میں بالکل نئی وضع کے خیال مضامین ہیں۔ڈرامہ اکبر کے ذریعہ ڈرامہ کا نمونہ دیاہے۔ غرض ان کی ہر تصنیف اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو ادبیات اردو اور فارسی کے ہر شعبے سے شفقت تھا۔ اور وہ ہر صنف میں ایک ایسی تصنیف پیش کرنے کے آرزو مندتھے جوآنے والے دور کےلئے نمونے کا کام دےسکے ظاہر ہے وہ شخص جس کے ارادے اس قدر بلند ہوں۔ تن تنہا ان کی تکمیل سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ لیکن باوجود مشکلات کے جس قدر آزاد کو اپنے ارادوں میں کامیابی ہوئی ہمارے ملک میں کم مصنّفوں کو نصیب ہوئی ہوگی۔
(آب حیات کے لطیفے اور شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد کے مکمل سوانح حیات،ص:82 شیخ مبارک علی تاجر کتب اندرون لوہاری دروازہ، لاہور)
تاریخ، تحقیق اور تنقید کو ایک نیا شعور عطاء کرنے والے والے محمد حسین آزاد کی مقبول ترین تصنیف آب حیات کی پر معترضین کے اعتراضات کا علمی انداز میں تعمیری جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
آب حیات کا آغاز تاریخ زبان اردو سے ہوتا ہے۔ ایک نقّاد کی رائے میں جدید نقطہ نظر سے یہ بات تاریخ ادب سے نہیں بلکہ تاریخ لسانیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے شاعری کی تاریخ میں اس کا وجود غلط سمجھنا چاہیے یہ رائے آج کی ادبی تاریخوں کے بارے میں صحیح ہوسکتی ہے۔لیکن آب حیات کو اس نقطہ نظر سے چانچنا غلطی ہوگی آزاد جس زبان کی شاعری کی تاریخ مرتب کررہے تھے۔ اس زبان میں لسانیات اور تاریخ ادب کا کوئی تصور سرےسے موجود ہی نہ تھا۔ اس وجہ سے انھوں نے شاعری کی تاریخ بیان کرنے سے پہلے زبان کی تاریخ کرنے سے پہلے زبان کی تاریخ کو سلسلہ وار پیش کرنا مناسب سمجھا۔ ان کا یہ کارنامہ اردو زبان کی تاریخ میں ہمیشہ اہم سمجھا جائے گا۔
( محمد حسین آزاد حیات اور تصنیفات، ص:61/ انجمن پریس کراچی)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آزاد نے اردو زبان کی تاریخ کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے آب حیات میں نامور شعراء کی شخصیت اور ان کی شاعرانہ عظمت کو اجاگر کیا۔ طرز کلام کو واضح کیا،شاعرانہ خصوصیات پر بحث کی اور ادب میں ان کا مقام متعین کیا۔
انشائیہ نگاری:محمد حسین آزاد کے عہد کو انشائیہ کا صبح کاذب اور رشید احمد صدیقی کے دور کو انشائیہ کی صبح صادق کہاگیا ہے اور بالکل درست ہے۔پروفیسر نوارالحسن نقوی رقمطراز ہیں کہ:
آزاد کے قلم میں عجب جادو ہے۔ شبلی نے کہاتھا کہ “وہ گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے”۔آب حیات، دربار اکبری، نیرنگ خیال ان کی وہ تصانیف ہیں جن کے مختلف حصوں پر کبھی افسانے کا دھوکا ہوتا ہے کبھی خاکے کا گمان گزرتا ہے،کہیں انشائیہ کا عکس نظر آتا ہے نیرنگ خیال کے شہ پاروں کو تو انشائیوں کے سوااور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
محمد حسین آزاد کی انشائیہ نگاری کی انفاردیت اور اسلوب کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے،انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں کے مصنف محمد اسداللہ لکھتے ہیں کہ:
مولوی محمد حسین آزاد کا شمار اردو کے بہترین انشائیہ نگاروں میں ہوتاہے۔ محمد حسین آزاد کا اسلوب خالص انشائیہ کا اسلوب ہے۔ ان کے ہم عصر ادیبوں کے برعکس محمد حسین آزاد کی تحریریں بالکل ہی جداگانہ کیفیت کی حامل ہیں۔
(انشائیہ کی روایت،ص:153/ماڈرن پرنٹ، محمد علی روڈ، مومن پورہ،ناگپور)
آزاد کی جداگانہ اور منفرد انشائیہ نگاری کی پر روشنی ڈالتے ہوئے ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں کہ:
اردو ایسّے(انشائیہ) نگاری میں محمد حسین آزاد بالکل الگ مقام رکھتے ہیں۔انھیں انگریزی ایسّے سے شغف تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد کے یہاں مشرقی مزاج کے پیش نظر ایسّے نگاری میں تمثیلی رنگ خصوصیت واہمیت نہیں رکھتا۔
آزاد نے ان خیالی مضامین میں انشا پردازی کا کمال دکھایا۔ان کے اسلوب بیان کی وجہ سے ایسّیز میں لطافت و دلکشی پائی جاتی ہے۔ تمثیلوں کے ذریعے سے تاریخ، فلسفہ، اخلاق و غیرہ کے اہم پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔
محمد حسین آزاد کے یہاں شگفتگی سے زیادہ اہم چیز ندرت خیال پائی جاتی ہے۔ جو انشائیہ کی جان ہے۔ان کے انشائیہ میں نکتہ آفرینی کا عمل بھی ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔
ان کے انشائیہ گلشن امید کی بہار کا یہ اقتباس جو ان خوبیوں کی عکاسی کرتا ہے ہوا نظر آتا درج ذیل ہے۔
امید ایک رفیق ہمدم ہے کہ ہر حال اور ہر زمانے میں ہمارے دم کے ساتھ رہتا ہے۔ دم بدم دلوں کو بڑھاتا ہے۔اور سینے کو پھیلاتا ہے خیالا کو وسعت دیتا ہے اور نئی نئی کامیابیوں کی تر غبیں دیتا ہے۔
(انشائیہ اور چند انشائیے، ص:48/ ایوان اردو، پٹنہ بہار)
آج بھی آزاد کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کی تخلیقات میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ابھی اہل اردو پر محمد حسین آزاد کا قرض واجب الادا ہے۔

 

About awazebihar

Check Also

غزل

مری ہستی میں فن بھرنے نہ دے گا یہ بھوکا پیٹ کچھ کرنے نہ دے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *