’’لیو اِن ریلیشن شپ‘‘ کلچر ہندوستان کو لےڈوبےگا

ڈاکٹر جہاں گیرحسن
تعلیم وترقی کے میدان میںآگے بڑھنا اور خوب خوب کامیابی حاصل کرنا بُری بات نہیں اور نہ آزادی کی وکالت اور ہرشہری کو اُس حق دینا -دلانا بُری بات ہے۔ لیکن ترقی کے نام پر غیراِنسانی اور غیرمعاشرتی عمل کو جائز ٹھہرانایہ بُری بات ہے۔اِسی طرح حق آزادی اوراُس کی وکالت کے پردے میں ہوس زدگی کا دروازہ کھولنااور اُس کے تعفن وغلاظت سے ملک وملت اور قوم ومعاشرہ کوتباہ وبربادی کے دہانے پر لا کھڑاکردینا یہ بُری بات ہے۔ہم دیگر ممالک کی بات نہیں کرتےکہ اُن ممالک کو جو کرنا ہے کریں اور جس قدر تباہی وبربادی سے اُنھیںگزرنا ہے گزریں۔ اس کے برخلاف اَگرہمارا ملک وملت اور ہمارا سماج ومعاشرہ جب کسی غیراِنسانی اور غیراِخلاقی طور-طریقے کا شکار ہوتا ہے اور پھراِس کے سبب تباہی وبربادی سے گزرتا ہے، تو واقعی بڑارنج اور بڑادُکھ ہوتا ہے۔ ہندوستان اپنے اول دن سے ہی انسانیت کا گہوارہ رہا ہےاوریہاںہمیشہ ہی اَخلااقیات کی خوشبو بکھیری گئی۔ کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا گیاکہ جس سے ہندوستانی تہذیب وثقافت کا جنازہ اُٹھے۔بلکہ ہندوستان میں ہروہ عمل روا رکھا گیا ہے کہ جس سے ہندوستان کی ساکھ برقرار رہے اور یہاں کی عورتوں کی عفت وعصمت کو تحفظ فراہم ہوسکے۔اِس تناظر میں دیکھاجائے توہندوستان کے اندر نکاح اور بیاہ ایک ایسا پاکیزہ رشتہ اور بندھن ہے کہ اُس سے بندھ جانے کے بعد اِنسان ہراُس حیوانیت اور اَخلاقی خباثتوںسے اَزخود دُورہوجاتا ہے جسے اِنسانی سماج ومعاشرہ انتہائی بُراسمجھتا اور جانتا ہےاور اِس طرح ہم اور ہم سے وابستہ افراد اُن تمام ندامتوں اور شرمندگیوں سے نجات پاجاتے ہیں جو اُنھیں کہیں بھی اور کبھی بھی بےآبرو کرسکتی ہیں،اس کے برخلاف’’ لیواِن ریلیشن شپ ‘‘کا فارمولہ جس کےجوازکادَرجہ آج کے خودفریب معاشرے نے فراہم کررَکھا ہےدراَصل یہ صرف اِنسانی نسل ہی کی تباہی وبربادی کا سبب نہیں ہے بلکہ اگر غور سے دیکھاجائے توہندوستان کی صدیوں پُرانی تہذیب وثقافت پربھی ایک خطرناک حملہ ہے جو ہماری اصل اور شناختی بنیاد تک کو ہلاکے رکھ دےگا۔بایں سبب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیںکہ قانون ہند میں ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کو جوازکا درجہ ملنا سراسر ہندوستانی مزاج کے خلاف قدم ہے۔ کیوں کہ جس ملک ومعاشرے میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں رہتے ہوں اور تقریباً تمام مذاہب میں ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کےلیے چنداں گنجائش نہ ہو،پھر اُس ملک ومعاشرے میں ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کو قانونی درجہ دینا چہ معنی دار؟ ہمارے خیال سے اِس طرح کے قوانین کے نفاذ سے پہلے عوامی سطح پر رائے عامہ حاصل کرنے کااہتمام لازمی طورپر کیا جانا چاہیےاور پھر اُسی کے مطابق کوئی بھی لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے، تا کہ چندگنے چنے افراد کی جنسی آوارگی کی تسکین کے لیے ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کی آگ میں جھلسنے سےہم اور ہمارا پیارا ملک محفوظ رہے اور اِنسانیت جوہماری اور ہمارےہندوستان کی شناختی نشان ہے وہ بھی حیوانیت اور دَرندگی کی بھینٹ نہ چڑھنے پائے۔ آج شردھاوالکرکے ساتھ ہوئے غیراِنسانی حادثے کو لے کرایک طرف اکثر ہندوستانی ہرہندوستانی دکھی اور غمگین ہیں،توکچھ ناعاقبت اندیش شہری اِس حادثے کو ’’لوجہاد‘‘ سے جوڑنے کی نادانی کررہے ہیں۔جب کہ اِس وقت ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘کے سلسلے میں غوروفکر کرنا زیادہ اہم ہے کہ آخر ہندوستان میں اس کی ضرورت کیوں ہے اور اِس قانون کے نفاذ سے ہندوستانی سماج ومعاشرے پر کیا منفی اثرات ہورَہے ہیں اوراِس کے سبب مستقبل میں کس قدر خطرناک نتائج سامنے آئیںگے، لیکن افسوس کہ اِن مسائل پر زبان کھولنے کےلیے کوئی تیار نہیں۔جب ملک ہمارا ہے اورمعاشرہ ہمارا ہے اورہمیں ہی ہندوستان میں رہناہے، تو پھر دیگر ممالک کی دیکھا-دیکھی اوراُن کے طرز ِحیات پرہندوستان میں کسی بھی نوع کے قانون ودستور کو منظوری کیوں دی جائے؟ اگر بیرون ممالک میں ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کو کلچر کا درجہ ملاہوا ہے تویہ اُن کا پرسنل ملکی معاملہ ہے اور اُن کے ہاں یہ کسی حد تک درست قرارپاسکتا ہے۔لیکن جن ممالک میں ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کو اِنتہائی معیوب سمجھاجاتا ہے،تو اُن ممالک میں اِس قانون کا نفاذ کیوں کر دُرست قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہندوستان کی عوامی زبان میںاوریہاں کی ثقافت وتہذیب کے پیش نظر ’’ لیواِن ریلیشن شپ‘‘ کے تحت( نکاح اور بیاہ کے بغیر) میاں-بیوی کی طرح رہنےوالے جوڑے میںسے ایک (عورت) کو’’رکھیل‘‘ اوردوسرے(مرد) کو ’’رنڈی باز‘‘ کہا جاتا ہےجسے آج چند عیاش پسند اور رَنڈی باز ی کے دلدادہ اَفراد نے مورڈن نام ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ دے رکھا ہےاور مزے کی بات یہ ہے کہ جس فریب دہی کے لیے یہ خوب صورت نام استعمال ہوا ہےاُسے ہم ہندوستانی نے بخوشی قبول بھی کرلیا ہے اور فریب آزادی کے نام پرہم اُس کواَپنا حق بھی سمجھ رہے ہیں،جب کہ درحقیقت ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘ ہماری بہوؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت وآبروپر ڈاکہ ڈالنے کا ایک گھاتک ہتھیار ہےجس کی وارسے چاہ کر بھی ہم محفوظ نہیں سکتے ہیں اور نہ ہمارا سماج ومعاشرہ محفوظ رہ سکتا ہے۔پھرایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہےکہ آج باشندگان ہند میںکتنے ایسے ہیں جو اَپنے خاندان کی عورتوں کو نکاح اور بیاہ کے بغیرمیاں-بیوی کی طرح دوسرےمردوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں اورمستقبل میں بھی ایسا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟اگر باشندگان ہند کا جواب ’’ہاں‘‘میں ہے تو بالکل لیواِن ریلیشن شپ’’ کو کھلی چھوٹ ملنی چاہیے۔ لیکن اگر اُن کا جواب ’’نہیں‘‘ میںہے، تواِس طرح کی بےحیائیوں اور گندگیوںکا یکسرخاتمہ ہونا چاہیے۔پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ آج ایک شردھاوالکراِس قانون کی بھینٹ چڑھی ہے کل سیکڑوں شردھاوالکر اِس قانون کا شکار ہوںگی اور اِس کے ذمےدار عدلیہ کے ساتھ ساتھ تمام باشندگان ہند بھی ہوںگے۔ چناںچہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے تمام باشندگانِ ہندپرلازم ہوگیا ہےکہ ’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘کو کالعدم قراردِیے جانےکی ملک گیر پیمانے پروکالت کریں اوراِس سلسلے میں نتیجہ خیز قدم اُٹھائیں،ورنہ وہ دن دور نہیںکہ جب یہی’’ لیواِن ریلیشن شپ ‘‘نہ صرف ہماری تہذیب وثقافت،ہماری شناختی نشان اور ہماری اخلاقیات وسماجیات کو تباہ وبربادکردِےگی بلکہ ہمارےملک عزیزہندوستان کو بھی لے ڈوبےگی۔

About awazebihar

Check Also

بجلی کا نیا فلیٹ ریٹ: پھر بڑھی بنکروں کی بےچینی!!

تحریر: جاوید اختر بھارتی javedbharti508@gmail.com  بنکروں کے اندر ایک بار پھر بے چینی بڑھی چھوٹے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *