کرد جنگجووں کے خلاف ترکیہ کا زمینی فوج اور ٹینک میدان میں لانے کا اعلان

انقرہ : ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے سپاہی ٹینکوں کے ساتھ کرد جنگجووں پر یلغار کریں گے۔ صدر ایردوآن نے یہ اشار دیا ہے کہ ان کے ملک کی زمینی افواج شام میں کرد جنگجووں کو نشانہ بنائیں گی۔ان کی طرف سے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے ہیں جب تک توپ خانے نے کردوں کے شام میں ٹھکانوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔ شامی فوجی ذرائع کے مطابق یہ حملے شامی قصبوں رفعت اور کوبانی میں کیے گئے ہیں۔ایردوآن نے شمال مشرقی ترکیہ میں اس بارے میں کہا ‘ ہم چند دنوں سے دہشت گردوں کواپنے جہازوں کے ذریعے دیکھ رہے رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو ہم دہشت گردوں کواب اپنے سپاہیوں اور ٹینکوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ترک صدر اس سے پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ کرد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن فضائی کارروائی تک محدود نہیں رہے گا۔ اس آپریشن میں زمینی افواج کو بھی شامل کیا جائے گا۔واضح رہے حالیہ برسوں کے دوران ترکیہ نے کردوں کی مسلح ملیشیا وائی پی جی کے خلاف اب تک شام میں کئی بڑے فوجی آپریشن کیے ہیں۔پیرکے روز کردوں کی اس مسلح ملیشیا نے کارروائی کر کے دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا، یہ تر فضائیہ کی بمباری کے بعد کیا گیا، اس سے پہلے ایک ہفتہ قبل استنبول میں بم دھماکے کیے گئے تھے۔دوسری جانب سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا کہنا ہے کہ ترکیہ کی حالیہ بمباری کے نتیجے میں 15 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم ترک وزیر دفاع نے یہ کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے منگل کے روز اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ترکیہ کی کارروائیوں سے داعش کے خلاف جنگی اہداف متاثر ہوں گے۔ ترجمان نے کہا امریکہ نے اپنی اس تشویش سے ترکیہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ترکیہ کو ان کارروائیوں کے نہ کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ اسی طرح ہم نے شام میں اپنے شراکت داروں سے بھی کہا ہے کہ وہ حملوں کو تیز نہ کریں۔ واضح رہے سیرین ڈیموکریٹک فورس اور وائی پی جی امریکی اتحادیوں میں شامل ہیں۔ جبکہ ترکی کے ساتھ ان کی گہری دشمنی ہے۔
جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کی شامی ہم منصب بشارالاسد کے ساتھ ملاقات کا امکان ہے۔انھوں نے دمشق کے ساتھ 11 سالہ تنازع کے دوران میں سفارتی تعلقات منقطع رکھے ہیں۔ترکیہ نے بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے برسرپیکار شامی باغیوں کی حمایت کی ہے اور صدرایردوآن انھیں ماضی اپنے ہی شہریوں کا’’قاتل‘‘قراردے چکے ہیں۔بدھ کے روز پارلیمان میں ایک رپورٹر کے سوال پر کہ کیا وہ شامی رہنما سے ملاقات کرسکتے ہیں؟صدر ایردوآن نے کہا:’’یہ ممکن ہے۔سیاست میں ناراضی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بالآخر، سب سے زیادہ سازگار حالات کے تحت اقدامات کیےجاتے ہیں‘‘۔ترکیہ اور شام کے صدورکے درمیان رابطے نہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے خفیہ سربراہان نے دوطرفہ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔صدررجب طیب ایردوان نے قبل ازیں اسی ماہ یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ترکیہ میں آیندہ سال جون میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے بعد شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ تعلقات پرنظرثانی کرسکتے ہیں۔
انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں گروپ 20 کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پرجب ان سے شامی صدرکے ساتھ ممکنہ ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے کہا کہ ’’سیاست میں کوئی دائمی ناراضی یا جھگڑا نہیں ہوتا‘‘۔طیب ایردوآن نے اتوار کے روز قطرمیں فٹ بال عالمی کپ کی افتتاحی تقریب کے موقع پرمصری ہم منصب عبدالفتاح السیسی سے پہلی بار مختصر ملاقات کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا تھا۔ترک ایوان صدر کی جانب سے جاری کردہ ایک تصویر میں دونوں رہنماؤں کو مصافحہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2013 میں مصری فوج کی قدیم مذہبی سیاسی جماعت الاخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدرمحمد مرسی کی حکومت کے خلاف کارروائی اور ان کی معزولی اور کے بعد سے ایردوآن اور السیسی کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں۔ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ عبدالفتاح السیسی کے ساتھ دوسری ملاقات کریں گے یا نہیں؟تو صدرایردوآن نے اس کے جواب میں کوئی تاریخ نہیں بتائی۔

About awazebihar

Check Also

بنگلہ دیش میں مزدوروں کے احتجاج کے دوران 130 فیکٹریاں بند

ڈھاکہ، 12 نومبر  بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں واقع دو بڑے صنعتی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *