کھانے اور مشروبات جو آپ کی یادداشت کے لیے اچھے ہیں

یادداشت اور کھانوں کے بارے میں سوچتے ہوئے فرانسیسی مصنف مارسل پراؤسٹ کے ناول ’ان سرچ آف لوسٹ ٹائم‘ کی یاد آتی ہے، جو ایک صدی قبل 18 نومبر 1922 کو وفات پا گئے تھے۔ان کے ناول کا پہلا باب ’بائی سوانز وے‘ میں جب ہیرو چائے کی پیالی میں ایک روایتی بسکٹ ’میڈیلین‘ ڈبوتے ہیں تو ان کی بچپن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
اس کے بعد سے اس تجربے کو، جو ہم میں سے ہر کسی کے ساتھ کسی نہ کسی موقع پر ہو چکا ہے، ’پروسٹیئن مومنٹ‘ یا ’میڈیلین ڈی پروسٹ‘ کہتے ہیں۔بی بی سی ٹریول سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ میں نفسیات کے پروفیسر سوزن کراس وٹبورن کہتی ہیں کہ کھانے سے یادوں کے تعلق کا قیام شعوری طور پر نہیں ہوتا۔
انھوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس عمل میں بہت بنیادی اور دماغ کے ایسے حصے استعمال ہوتے ہیں جن کا زبان سے تعلق نہیں ہوتا اور یہ آپ کی آگاہی کو بائی پاس کر دیتا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ جب آپ کوئی ایسی چیز کھاتے ہیں جس کے ساتھ آپ کی گہری یادیں وابستہ ہوتی ہیں تو اس کے باعث ایک مضبوط جذباتی ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ ان یادوں کو لفظوں میں نہیں ڈھال سکتے لیکن آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ ضرور ہے جو کھانے کے باعث آپ کو ماضی کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔
’یہ یادیں کھانے سے زیادہ اس لمحے کے ساتھ آپ کے تعلق کی ہوتی ہیں جو یا تو کسی شخص یا جگہ کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔‘
تاہم کھانے اور یادوں کے اس تعلق میں کیا کچھ ایسے بھی کھانے یا مشروبات ہیں جو آپ کی یادداشت بہتر بناتے ہیں۔
ماہرِ نفسیات کمبرلے ولسن جنھوں نے نیوٹریشن میں ماسٹرز ڈگری بھی کر رکھی ہے کہتے ہیں کہ ایسے کھانے اور مشروبات ہیں جن کا آپ کی یادداشت پر منفی یا مثبت اثر پڑتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی ریل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یادداشت دراصل ماضی قریب یا بعید میں معلومات کو دوبارہ سے یاد کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری یادداشت کی تین اقسام ہوتی ہیں: ایک فوری، ایک ورکنگ اور ایک طویل المدتی۔ ہماری فوری یادداشت معلومات کو صرف کچھ ہی وقت کے لیے سنبھال سکتی ہے جیسے آپ کو اگر کوئی زبانی فون نمبر بتائے تو آپ اسے بغیر لکھے اپنی یادداشت کے ذریعے ہی ڈائل کر لیں۔‘ہم اپنی ورکنگ یا جاری یادداشت کو کسی عمل کے دوران سوچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے ذریعے ہمیں بات چیت کے دوران یہ یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے کہ دوسرے شخص نے کیا کہا ہے اس کا مطلب کیا ہے، اس کا اس سے پہلے ہونے والی بات چیت سے کیا تعلق ہے اور پھر اس بارے میں ہمارے خیالات کیا ہیں۔ہماری طویل المدتی یا لانگ ٹرم یادداشت ہمیں گزرے ہوئے دنوں یا سالوں سے متعلق معلومات یاد کرنے میں مدد دیتی ہے۔
جو یادیں اس میں موجود ہوتی ہیں وہ ہماری فوری یادداشت سے اس میں منتقل ہوتی ہیں اور اس مرحلے کو ’کنسالیڈیشن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ہماری یادداشت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ایک تحقیق کے دوران جب عمر رسیدہ افراد کے ایک گروپ کو جامنی انگوروں کا 500 ملی لیٹر شربت ہر روز 12 ہفتے تک پلایا گیا تو انھیں الفاظ یاد کرنے میں پلیسیبو گروپ سے زیادہ آسانی رہی۔ (پلسیبو گروپ سے مراد وہ افراد جو اس تجربے میں شامل تھے مگر انھیں انگور کے شربت کے بجائے اس سے ملتا جلتا پانی پلایا گیا تاکہ نفسیاتی اثرات کے امکان کو رد کیا جا سکے۔)ایک اور ایسی تحقیق جس میں بچوں کو 240 گرام تازہ بلوبیریز کھلائی گئیں تو انھیں ایسا کرنے سے زیادہ الفاظ یاد ہوئے اور وہ دو گھنٹے بعد انھیں زیادہ بہتر انداز میں یاد کرنے کے قابل بھی ہوئے۔تو کیا جامنی انگور اور بلو بیری میں کچھ خاص بات ہے؟دونوں میں ہی اینتھوسایاننز کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے اور اس میں ایک پودوں میں موجود کیمیائی مادہ پولی فینول بھی موجود ہوتا ہے جو انھیں ان کا گہرا رنگ فراہم کرتے ہیں۔ یہ پولی فینول کمپاؤنڈ دوسری بیریز میں بھی موجود ہوتے ہیں۔جب یہ انسانی جسم میں جا کر ہضم ہوتے ہیں تو ان کے باعث خون کی شریانوں میں دماغ تک خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے۔ اس کے باعث ہمیں توانائی سے منسلک زیادہ غذائی اجزا ملتے ہیں اور آکسیجن ہماری سوچنے کی صلاحیت بڑھاتی ہے۔اور یہ صرف بیریز کی حد تک ہی محدود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ طویل عرصے کے لیے قہوہ پینے سے بھی آپ کی شارٹ ٹرم یادداشت بہتر ہوتی ہے، آپ کا ورکنگ میمری کا فوکس بہتر ہوتا ہے اور آپ کی سوچنے کی صلاحیت میں کمی نہیں آتی۔اس حوالے سے چاکلیٹ کھانے کے شوقین افراد کے لیے بھی اچھی خبر ہے کیونکہ کوکوا دماغ میں خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے تاہم اس کے لیے آپ کو ڈارک چاکلیٹ کھانے کے ضرورت ہے جس میں 70 فیصد کوکوا ہونا چاہیے، تاکہ آپ کو اس کا بھرپور فائدہ ہو سکے۔اس حوالے سے صحت مند کھانے کا عام قاعدہ یہ ہے کہ اس میں پھل، سبزیاں، اناج، دالیں اور مچھلی شامل ہو۔ آپ کی یادداشت کا دماغ میں جتنا بڑا حصہ ہو گا یادداشت بھی اتنی بہتر ہو گی۔
تو اگر چاکلیٹ، بیریز اور سبز قہوہ آپ کی یادداشت بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے تو کیا کوئی ایسا کھانا بھی ہے جس سے یادداشت پر برا اثر پڑتا ہے؟
دہائیوں سے جانوروں پر کی جانے والی تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسی غذا جس میں ریفائنڈ کھانوں کی بڑی مقدار شامل ہو وہ آپ کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔ایک تحقیق میں 110 صحت مند افراد سے، جو عام حالات میں غذائیت سے بھرپور کھانا کھاتے تھے، ایسا کھانا کھانے کے بارے میں کہا گیا جس میں ریفائنڈ فوڈز کی مقدار زیادہ ہو۔ ایسا انھوں نے صرف ایک ہفتے کے لیے کیا۔
ان کے ناشتے میں چار دن دو بیلجیئن وافلز تھے اورہفتے میں دو مرتبہ جنک فوڈ دیا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں انھیں سیکھنے اور چیزیں یاد رکھنے اور بھوک کے بارے میں شکایات پیدا ہونے لگیں۔ایسی غذا جس میں ریفائنڈ فوڈ اور چینی کی مقدار زیادہ ہو، اس میں پھل، سبزیاں اور فائبر کم ہوں تو ایسے میں الزاہمرز کی بیماری لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی غذا کی مجموعی غذائیت میں اضافہ کریں، اور ناشتے میں پھل کھائیں یا رات کے کھانے میں سبزیاں کھائیں تو اس بہ شکریہ بی بی سی اردو ۔سے آپ کی آج کی یادیں محفوظ رکھنے کا موقع ملتا ہے اور مستقبل میں بھی انھیں محفوظ رکھنے کا موقع ملتا ہے۔

About awazebihar

Check Also

پاکستان میں یوم خواتین کے جلوس پرپابندی عائد

لاہور :عورت مارچ کے منتظمین نے لاہور انتظامیہ کی جانب سے ریلی نکالنے کی اجازت …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *