شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
سیشن جیسا کوئی شاذ و نادر ہی پیدا ہوتا ہے ! یہ کوئی اور سیشن نہیں ، ٹی این سیشن ہیں ، جو ۱۹۹۰ء سے لے کر ۱۹۹۶ء تک ملک کے چیف الیکشن کمشنر تھے ۔ انہیں ، ان کی موت کے تین سال کے بعد ، عدالتِ عظمیٰ نے یاد کیا ہے ۔ یہ یاد بلا مطلب نہیں تھی ، ان کے کارنامے ہی ایسے شاندار تھےکہ انہیں یاد کرنا ناگزیر تھا ۔ موقع سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے ، الیکشن کمشنروں کی تعیناتی کے نظام میں اصلاحات سے متعلق چار درخواستوں پر سماعت کا تھا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جو بھی چیف الیکشن کمشنر ہو اس کا اپنا ایک ‘ کردار ‘ ہو ، اور جو کمیٹی چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کرے ، وہ ‘ غیر جانب دار ‘ ہو ۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس کے ایم جوسف کا کہنا تھا کہ ” چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنروں کے ‘ کمزور کاندھوں ‘پر بڑے اختیارات کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ، اور بات صرف اہلیت ہی کی نہیں ہے بلکہ اہم یہ بھی ہے کہ جو بھی اس عہدے پر ہو اس کا اپنا ایک کردار ہو ، وہ کسی کے بھی دباؤ میں نہ آئے ، اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ اُس کی تعیناتی کون کرے گا ؟ کم ازکم ایسا نظام بنے کہ کمیٹی میں چیف جسٹس بھی شامل رہیں تاکہ کمیٹی ممبران کو یہ احساس رہے کہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہو گی ، ہمیں اس کام کے لیے بہترین آدمی چاہیے ، اور اس بات پر کسی طرح کا اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔ جج بھی متعصب ہوتے ہیں ، لیکن اس طرح کم ازکم غیر جانبداری کی امید برقرار رہے گی ۔’’ سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی مدت کا معاملہ بھی اٹھا ، سپریم کورٹ کا یہ کہنا ہے کہ عہدے کی مدت ہے تو چھ سال کی ،لیکن چونکہ ۶۵ سال کی عمر ہونے پر یہ مدت ازخود ختم ہو جاتی ہے ، لہٰذا ہو یہ رہا ہے کہ ایسے لوگ اس عہدے کے لیے منتخب کیے جا رہے ہیں جو ۶۵ سال کو پہنچنے والے ہوتے ہیں ، لہٰذا انہیں ازخود اس عہدے سے ، چھ سال کی مدت پوری کیے بغیر ، ہٹنا پڑتا ہے ، اس طرح انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں مل پاتا اور وہ انتخابی اصلاحات نہیں کر پاتے ۔ سپریم کورٹ نے بہت واضح طور پر کہاکہ ملک میں یکے بعد دیگرے مرکزی حکومتوں نے الیکشن کمیشن کی آزادی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے ، ۱۹۹۶ءکےبعد سے کسی بھی چیف الیکشن کمشنر کوچھ سال کی پوری مدت نہیں ملی ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا ، جس کی وجہ سے ہر حکومت یہ خطرناک قدم اٹھاتی رہی اور مختصر مدت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا جاتا رہا ۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے یہ کہہ کر کہ ‘ ہم نے اہلیت کی بنیاد پر تعیناتی کی ہے ‘، سپریم کورٹ کی نکتہ چینی سے جان بچانے کی کوشش کی ہے ، لیکن دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے جو باتیں کہیں اور جو مشاہدہ کیا ، اس میں بڑی حد تک سچائی نظر آتی ہے ۔
نریندر مودی ۲۰۱۴ ء میں جیت کر آئے ، اور بی جے پی کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ، اس وقت وی ایس سمپت چیف الیکشن کمشنر تھے ، جو ۱۵ ،جنوری ۲۰۱۵ء کو دو سال ۲۱۸ دن عہدے پر رہکر سبکدوش ہوگیے ۔ ان کے بعد سے اب تک ، ۸ سالوں کے دوران سات چیف الیکش کمشنروں کی تعیناتی ہوئی ہے ، ساتویں راجیو کمار ہیں ، ان سے قبل کے جو چھ چیف الیکشن کمشنر تھے اُن میں سے سنیل ارورہ کا دورانیہ سب سے طویل تھا ، دو سال ۱۳۱ دن ۔ تین سال کی مدت کوئی مکمل نہیں کر سکا ۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے ۔ لہٰذا اگر سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنروں کے عہدوں پر رہنے کی مدت پر سوال اٹھایا ہے ، تو وہ اس میں حق بجانب نظر آتا ہے ۔ کم مدت کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو کام کا ، بالخصوص انتخابی اصلاحات کا ، موقع فراہم نہ ہو سکے ، اور وہ مسلسل دباؤ میں رہے ۔ ٹی این سیشن چھ سال تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر رہے ، اور جنہوں نے ان کے دور کے الیکشن کا ، اور اُن کے دور سے پہلے کے الیکشنوں کا نظارہ دیکھا ہے ، انہیں دونوں کے فرق کا خوب اندازہ ہوگا ۔ ایک دور وہ تھا کہ الیکشن کے دوران شہر اور دیہاتوں کی دیواریں الیکشن کے پوسٹروں سے پٹی رہتی تھیں ، بینروں کی بھرمار ہوا کرتی تھی اور الیکشن مہم رات رات بھر چلا کرتی تھی ، ساتھ ہی تقریروں کا شور کان پھاڑے رہتا تھا ۔ لیکن ٹی این سیشن نے ان سب کو بند کرادیا ، دیواریں انتخابی پوسٹروں کی غلاظت سے محفوظ ہو گئیں ، بینروں کا الیکٹرک پولوں پر لگنا رُک گیا اور مائکوں سے تقریروں کا سلسلہ بند ہو گیا ، اور لوگوں نے چین کی سانس لی ۔ سیشن کا ایک بڑا کارنامہ انتخاب کے دوران مالی گڑبڑیوں پر کامیابی کے ساتھ روک لگانا تھا ، انہوں نے ہر ایک امیدوار کو یومیہ حساب دکھانے کا پابند کردیا اور ایک رقم انتخابی مد میں خرچ کرنے کے لیے مختص کردی ۔ یہی نہیں انہوں نے الیکشن کے نظام کو اس قدر شفاف بنا دیا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے بدعنوانی یا گڑ بری کر کے دامن بچانا ممکن نہیں رہا ۔ وہ انتخابی بےضابطگیوں کو برداشت نہیں کرے تھے ، اسی لیے سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ ’’ سیشن جیسا کوئی شاذ و نادر ہی پیدا ہوتا ہے ! ’’ یہ ممکن اس لیے ہو سکا تھا کہ وہ پوری مدت اپنے عہدے پر رہے ۔ آج صورتِ حال ٹھیک نہیں ہے ، الیکشن کمیشن پرکئی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے ۔ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اب غیر جانبدار نہیں رہا ہے ، نیز یہ کہ وہ ، اپوزیشن میں جو سیاسی پارٹیاں ہیں ، ان کی شکایت پر کان نہیں دھرتا ، لیکن برسرِ اقتدار پارٹی کی ہر شکایت پر حرکت میں آجاتا ہے ۔ گڑبریوں کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں ، جیسے کہ بیلٹ بکسوں کو چوری چھپے لے جانا ، اور ای وی ایم کا برسرِ اقتدار پارٹی کے ذریعے اپنے مفاد میں استعمال ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ سب الزام درست ہی ہوں ، لیکن اِن الزامات سے بچنے کے لیے ایک شفاف نظام کا قیام ضروری ہے ، اور مفاد عامہ کی جو چار درخواستیں آئی ہیں ، جن میں سے ایک ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کی طرف سے ہے ، ان میں یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمشنروں کی تعیناتی کے نظام میں اصلاحات کی جائیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے اس درخواست پر غور کرے ، اور اگر ممکن ہو تو اس تعلق سے کمیٹی میں ملک کے چیف جسٹس کو بھی شامل کرے ، جیسے کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے انتخاب میں چیف جسٹس شامل ہیں ۔
………
کم مدت کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو کام کا ، بالخصوص انتخابی اصلاحات کا ، موقع فراہم نہ ہو سکے ، اور وہ مسلسل دباؤ میں رہے ۔ ٹی این سیشن چھ سال تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر رہے ، اور جنہوں نے ان کے دور کے الیکشن کا ، اور اُن کے دور سے پہلے کے الیکشنوں کا نظارہ دیکھا ہے ، انہیں دونوں کے فرق کا خوب اندازہ ہوگا ۔ ایک دور وہ تھا کہ الیکشن کے دوران شہر اور دیہاتوں کی دیواریں الیکشن کے پوسٹروں سے پٹی رہتی تھیں
