گجرات فسادات ۲۰۰۲ میں مسلمانوں کی ایک طرح سے نسل کشی کی گئی ۔ انہیں چن چن کر قتل کیا گیا ۔ ان فسادات کے تعلق سے کئی طرح کی تحقیقات بھی ہوئی ہیں۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ یہ سارے فسادات خود بی جے پی کی کارستانی تھے اور سرکاری طور پر مخالف مسلم فسادات برپا کئے گئے تھے ۔ حالانکہ یہ سب کچھ ایک قیاس ہے اور اس پر کوئی عدالتی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس تعلق سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ فسادات میںکیا کچھ ہوا تھا اور یہ سب کس کی کارستانی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ فسادات تھے جن کے ذریعہ بی جے پی نے عوام میںاپنے موقف کو مستحکم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ان فسادات کے کئی مقدمات عدالتوںمیںچلے ہیں۔ بعض مقدمات میںشکایات وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے خلاف بھی کی گئی تھیں۔ سینکڑوں افراد کو مسلم کش فسادات کے سلسلہ میںعدالتوں سے سزائیں بھی سنائی گئیں۔ ان سزاوں کو بعد میں بی جے پی حکومت کی جانب سے ختم بھی کروادیا گیا ۔ اب جبکہ گجرات میںاسمبلی انتخابات ہورہے ہیں اور انتخابی مہم زوروں پر پہونچ چکی ہے ۔ چند دن میں پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے ایسے میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک خطاب میں دعوی کیا ہے کہ 2002 میں کسی کو سبق سکھایا گیا ۔ یہ بیان در اصل ایک طرح کی دھمکی اور انتباہ ہے کہ اگر بی جے پی چاہے تو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ اس طرح کا بیان دیتے ہوئے ان شبہات کو تقویت دی گئی کہ بی جے پی کی اس وقت کی گجرات حکومت نے ان فسادات کو ہوا دی تھی ۔ گجرات کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور سماج میں ایک بار پھر ہندو ۔ مسلم نفرتوں کوفروغ دینے کیلئے شائد یہ بیان دیا گیا ہو لیکن یہ بیان ملک کے وزیر داخلہ کو ذیب نہیں دیتا اور اس طرح کے بیان سے ایک بار پھر سے حالات کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ کسی طرح انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے اور اقتدار برقرار رکھا جائے ۔گجرات کے اسمبلی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بی جے پی کو بظاہر یہاں اپنا اقتدار بچانا مشکل نظر آ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ۔ اپنے آلہ کار عناصر کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ سمام میں نفرتوں کو پھر سے ہوا دی جا رہی ہے ۔ گجرات فسادات میںبلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے افراد خاندان کا قتل کرنے والے مجرموںکو سنسکاری قرار دیتے ہوئے جیلوںسے رہا کروایا گیا ہے ۔ ایک پھر وہاں حکومت کے کام کاج اور عوامی خدمات کو پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کو بھی اندازہ ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی اوروزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست میں اگر اسے شکست ہوتی ہے تو اس کے اثرات سارے ملک پر مرتب ہونگے اور دونوںقائدین کی عوامی مقبولیت کا گراف گھٹ سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی انتخابات میں بہرصورت کامیابی حاصل کرنے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیںکر رہی ہے اور وزیرداخلہ امیت شاہ کا بیان کہ 2002 میںغیر سماجی عناصر کوسبق سکھایا گیا ایک طرح سے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ امیت شاہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ انتہائی اہم ذمہ داری پر فائز ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ سماج میں نفرتوںکو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں۔ امن و امان کو متاثرکرنے کی کسی کو اجازت نہ دی جائے لیکن اگر وہی اس طرح کا بیان دیتے ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک ہے ۔امیت شاہ کا یہ بیان در اصل گجرات فسادات کے متاثرین کے زخم کریدنے کی کوشش ہے ۔ پہلے ہی بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی سے فساد متاثرین میں غم کی لہر ہے ۔ وہ لوگ اپنے زخموںکو مندمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے میںاگر ملک کے وزیر داخلہ ہی ایسا بیان دیتے ہیں کہ انہیں سبق سکھایا گیا ہے تو یہ افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔ انتخابی کامیابی کیلئے کئی طرح کے حربے اختیار کئے جاسکتے ہیں اور ہر جماعت ایسا کرتی بھی ہے لیکن ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے والے ریمارکس کرنا اور ان کے زخموںکو کریدنا مناسب نہیں ہے اور ملک کے وزیر داخلہ کو تو ایسا کرنے سے گریز ہی کرنا چاہئے تھا ۔
