ڈاکٹر قاسم خورشید
9334079876
داستان سے افسانے تک اُردو فکشن کی روایت قدیم ہو چکی ہے مگر کسی بھی عہد میں ایسا نہیں ہوا کہ تخلیقی و عصری معنویت سے مزیّن فن پارہ عہد ساز نہ رہا ہو۔ یہ ضرور ہوا کہ اکثر فن پارہ شہ پارہ نہ ہو نے کی وجہ سے دیر تک مرکزیت قائم رکھنے میں معدوم رہا ہے۔ اُردو فکشن پر ایسا بھی دور گزرا ہے جب اسے قصہ گوئی سے دور رکھکر بلکہ ابہام کی حکمرانی کا غلام تصوّر کیا جانے لگا اور جدیدیت کے امام نے ادبی فتویٰ صادر کر عجلت زدہ تخلیق کاروں کو وقتیہ ادبی وزارت سے خوب خوب نوازا ۔ امام واقف تھا کہ جو تخلیق کار فکری بے راہ روی پر یقین رکھے گا وہ صبح کے اخبار کی طرح خبر میں ضرور رہے گا مگر حدیثِ دل کی طرح کبھی دیر پا اثر قائم رکھنے کے اہل نہیں ہوگا اور امام نے ایسے ہی افراد کو ابہام کا راستہ دکھا کر خوب خوب آزمایا اور خود قصہ پن کی حمایت میں داستان کی طرف لوٹ گیا۔امام نے اپنی تنقیدی بصیرت سے ایک اور کام کیا کہ ہمارے پیشِ نظر عالمی ادبیات کا منظر نامہ پیشِ کرتے ہوئے تخلیق اور تنقید کے رشتے کی معنویت کو بھی اجاگر کر دیا۔
اب تنقید خالص علمی جولان اور کہانی ایک تخلیقی وجدان سے مستعار ہوکر اپنی شدت و حدت کا شائبہ تصوّر کی جانے لگی
جینوئن قلمکاروں نے کبھی دل کی آواز پر کچھ بھی حاوی نہیں ہونے دیا ظاہر ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اُن کی تحریریں اب بھی ہمارے اندر جاگتی ہیں سوتی ہیں ہنستی ہیں مسکراتی ہیں راہ دکھاتی ہیں راہ بناتی ہیں محرک بنتی ہیں متحرک کرتی ہیں’’ ہم اپنے موقف پر تب اور نازاں ہوئے جب عہد ساز فکشن نگار شفیع مشہدی کے تخلیقی مشاہدے سے ہم آہنگ ہونے کا شرف حاصل ہوا-کسی غیر مرئی روایتی تاثر سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے اپنے لکھنے کے عمل کو یوں بیان کر دیا کہ
‘” ۔۔۔۔۔ایک پیاس ہے،ایک تڑپ ہے ،ایک اضطراب ہے جس کی تسکین کے لیے ہم لکھتے ہیں ایسا کیوں ہے ،یہ ہم نہیں جانتے – کچھ واقعات،حادثات اور مشاہدات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم لکھیں ہم اپنی ذات کے اظہار کے لیے بھی لکھتے ہیں ہم اپنے احساسات و مشاہدات کی تحریری تجسیم کے لیے بھی لکھتے ہیں ہم اس لیے بھی لکھتے ہیں کہ ہم اس تشنگی کو دوسروں سے share کرنا چاہتے ہیں جہاں تک کہانی لکھنے کی بات ہے ،میرا تجربہ تو یہ ہے کہ ہم خود نہیں لکھتے بلکہ کہانیاں مجھ سے خود کو لکھواتی ہیں”
شفیع مشہدی نے اپنے خیالات و افکار کی قندیلیں روشن کرنے کے عمل میں کوئی دانستہ حاشیہ آرائی نہیں کی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کی تخلیقات کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ۔۔تخلیق کار بلا شبہ گرد ونواح کے حالات سے متاثر ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ بر وقت قلم اٹھانے کے لیے مجبور ہو جائے دراصل وہ دیر تک اپنے شعور کی رو میں بہتے ہوئے خود کلامی کے عمل میں اپنی تخلیق سے کئی بار مصافحہ کرتا ہے کبھی سوچتے سوچتے چونک اٹھتا ہے کبھی قلم اٹھاکر چند سطور کے ساتھ ریاضت سے گزرتا ہے مگر چاہ کر بات نہیں بن پاتی ہے کیونکہ تخلیق تو اپنے خالق سے کچھ اور توقع کی متلاشی رہتی ہے شفیع مشہدی کو پڑھنے کے دوران راوی کا بیانیہ تصدیق کر دیتا ہے کہ کہانی نے واقعی خود کو لکھوایا ہے ورنہ موضوعات کے تنوع میں وجدانی کیفیات کا فقدان ہو جاتا اور کہانی خود لایقینی کا پیش خیمہ بن جاتی-
غالب نے یوں ہی نہیں کہا تھا کہ خیال میں مضامیں یا متن غیب سے ہی آتے ہیں ہاں غزل میں فکر کے تسلسل سے زیادہ شعور کی مو شگافیوں کا دخل ہو جاتا ہے مگر کہانی میں تخلیق کار خیال کی تفہیم میں جس حد تک صناعی سے کام لیتا ہے اور شدّت کو اخیر تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے اسی اختصاص کے ساتھ اس کا شہہ پارہ زندہ رہتا ہے آپ کسی بیجا تنقیدی اور غیر مرئی تصوّر کے حصار سے دور جاکر اگر کبھی شفیع مشہدی کی کہانیوں کا غائر مطالعہ کریں گے تو اپنے فطری احساس سے بھی ہم آشنا ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔
میرا یہ مصمم یقین رہا ہے کہ تخلیقی ادب کا کوئی منشور نہیں ہوتا ظاہر ہے _ یہ عمل وجدانی کیف سے مستعار ہونے پر ہی حیاتِ جاودانی کا حامل ہوتا ہے تو پھر اس پر کی جانے والی تنقید کی بساط ہی کیا رہ جاتی ہے ؟ جبکہ تخلیقی دیانتداری کے لیے مکمل آزادی لازم و ملزوم ہے شفیع مشہدی کا اس موقف پر مکمل یقین رہا ہے اور وہ کہتے بھی ہیں کہ
” میں نظریے کی پابندی کا قائل نہیں ہوں ادیب کا اپنا نظریہ ہونا چاہیے تخلیق میں دیانت داری تبھی ممکن ہےجب تخلیق کار کو مکمل آزادی نصیب ہو”
ظاہر ہے کسی نظریے سے متاثر ہونے اور پابند ہونے میں فرق ہوتا ہے متاثر کسی مخصوص بچے کی مسکان سے ہم ہو سکتے مگر تغیّر کے بعد بھی وہی شدت فطری طور پر برقرار نہیں رکھ سکتے
شفیع مشہدی جس وراثت سے ابھرے وہاں ترقی پسندی بھی خوب خوب پھل پھول رہی تھی تھوڑا اثر کم ہوا تو جدیدیت بھی آئی پھر مابعد جدیدیت کا شہرہ بھی رہا اور مزے کی بات یہ رہی کہ ایک فرد کی حیثیت سے وہ جگہ جگہ متاثر ضرور ہوئے مگر مرعوب کبھی نہیں رہے اور یہ بڑی وجہ رہی کہ ناقدین نے اپنی نصابی مجبوریوں کی وجہ سے انہیں کبھی وہ اہمیت نہیں دی جہاں قارئین کے افکار کے نئے دروازے وا ہو سکیں حالانکہ رسائل جرائد میں پابندی سے شائع بھی ہوتے رہے اور اہل دانش پسند بھی کرتے رہے مگر یہاں ایک خاص لابی بھی درکار ہے جہاں سہولت پسند افراد کا گروہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ادب اور ادیب کا استعمال کرتا رہا ہے مگر نہ ایسے لوگ خود ہی زندہ رہے اور نہ ہی ان کی لابی کا کوئی نام نہاد تخلیق کار نئی نسلوں میں منتقل ہو سکا – وقت نے وقت پر سبھی کو آئینہ دکھا ہی دیا بس کسی مخصوص سہارے کے بغیر آزاد فضا میں جس ادب کو زندہ رہنا تھا وہ رہ گیا
شفیع مشہدی کو مدھم روشنی میں دیکھنے کی تمام کوششیں معدوم ہوتی رہیں اور ان کے قاری اور سامع کا حلقہ پوری دنیا میں فطری طور پر بڑھتا رہا شفیع مشہدی کو بھی عموماً پروفیشنل نقّاد کی سردمہری نے ادب کے جینوئن متحرک افراد کی طرح خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن جب زی فہم حلقے کے زیرِ اثر خاموشی سے انکی تخلیقات جمع کی جانے لگیں اور ادب کے نئے قاری تک رسائی کی صورت اُبھری تو بلا شبہ شفیع مشہدی کو معاصر ادب کا معتبر رہنما تصوّر کیا جانے لگا اس ضمن میں اُردو کے فعال اور متحرک نقاد محقق ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے بہت عرق ریزی اور تگ و دو کے بعد شفیع مشہدی کے بہترین افسانوں کو جمع کیا فرداً فرداً سبھی افسانے کا اختصاص پیش کرنے کے ساتھ مشہدی صاحب سے معاصر ادب اور اُن کے ادبی منظر نامے پر سیر حاصل گفتگو بھی کی – میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح غالب کی تفہیم کے لیے عبدالرحمن بجنوری ناگزیر ہیں اسی طرح شفیع مشہدی کی بازیافت کے لیے ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی تحریروں سے گزرنا بھی ناگزیر ہوگا
کہانیاں موضوعات سے مزیّن ہونے کے ساتھ اسلوب و ڈکشن کے فنکارانہ رموز کی وجہ سے قاری کو قرآت کے لیے مجبور کرتی ہیں چونکہ ان کے جہانِ فکشن میں ڈرامے کی وحدت کے اثرات بھی نمایاں ہیں اس لئے وہ جلد ہی قاری سے جُڑ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات محاکاتی کیفیات میں مبتلا بھی کر دیتے ہیں اُن کے حاصل شدہ محض 60 افسانوں کا ہی مطالعہ کرنے پر گوناں گوں جہتوں کا اندازہ ہوتا ہے افسانوی مجموعے شاخِ لہو (1976) سبز پرندوں کا سفر ( 1989) سلسلہء روز و شب (2011)سنی حکایتِ ہستی (2019) میں شامل نصف صدی پر محیط اقدار کی آتی جاتی اُبھرتی ڈوبتی لہروں کو شدّت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہانی کہنے والا صرف حقیقت نگار نہیں ہے بلکہ بہترین نباض بھی ہے وہ حاشیے سے لگی آبادیوں کے دردمند ضرور ہیں مگر نوحہ خانی پر اکتفا کرکے نبرد آزما نہیں ہوجاتے بلکہ احتساب کے لیے مجبور بھی کرتے ہیں عروج آدم،کرچیاں،شونارہرین،کبوتر،گرتی دیواریں،طوطے کا انتظار،قہرِدریش،سنیچر شاہ،پگلابابا،نجربٹو ،سید کی حویلی،مجاور،دیمک،ابابیل،تاوان،ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا،آہنی ہے پیرہن،کپڑے کا گھوڑا،کافورکی خوشبو، اور دیمک وغیرہ میں اُن کی فنی وراثت سے اہل نظر بخوبی واقف رہے ہیں
شفیع مشہدی چونکہ انتہائی معزز اقدار کے زیرِ سایہ خود بھی رہے ہیں اس لیے اُن سے بہتر کوئی بدلتی قدروں اور وقت کی آہٹوں کو کیسے سمجھ سکتا ہے ایسا نہیں کہ اشراف کے گھروں میں زمانے سے ٹھکرائی ہوئی آبادیوں کی پرورش و پرداخت نہیں ہوئی بلکہ وقت واقف ہے کہ دھیرے دھیرے ایسے افراد سماج کے قومی دھارے میں شامل ہو گئے اور جہاں انہیں سائبان میسّر تھا وہاں شرافت کی دبیز پرتوں میں جیسے سب کچھ کہیں دب کر رہ گیا
سادات ایسے گردشِ حالات ہو گئے
حالات جن کے سدھرے وہ سادات ہو گئے
شفیع مشہدی کی حقیقت نگاری کو اس لیے بھی معتبریت کا درجہ حاصل ہے کہ یہاں متن مستعار نہیں ہے بلکہ معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔اُن کا ماننا ہے کہ جن کی جڑیں ماضی سے ٹوٹ جاتی ہیں اُن کی اہمیت بے جڑ کے پودے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتی ناسٹلجیا کے باب میں وہ شدت پسند بھی نہیں ہیں مگر حدت کبھی کم نہیں ہونے دیتے ناسٹلجیا پر یوں تو ہر دور میں بحثیں ہوتی رہی ہیں اور قدروں کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر بھی ہے ہم اس وراثت کو سنبھالنے پر خاصے حساس نظر آتے ہیں جو مستقبل میں بازار کی صورت اختیار کرنے کے بعد محض تفریح کے لیے جانی جاتی ہیں مشہدی اپنے معتدد افسانوں میں فطری طور پر جب ماضی کے پُرنور چہرے پر اٹی دھول۔ صاف کرتے ہیں شیشوں کی کرچیاں چنتے ہیں ٹوٹی حویلیوں کی تاریکیوں کو روشن کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تخلیق سے پیغمبری کا کام لے رہے ہیں جانتے ہیں کہ اُن کا یہ عمل رجعت پسندوں یا عجلت زدوں کو پسند نہیں آئے گا مگر وہ اس حکایت کے امین ہیں جہاں قدرت نے ہمیں رہتی دنیا تک کے لیے ایک راہ بر عنایت کر دیا ہے ایمان والے اُن ہی کی امت ہیں اور امت کے لیے ہر دور آزمائش کا رہا ہے ہم چاہے لہو لہان ہوں یا اپنے عہد کے شدّاد کے ظلم نفرت اور طنز کے شکار ہی کیوں نہ ہوتے رہیں آزمائش ہمارا مقدر رہے گا ہی کیونکہ ہم خدا کے حکم سے اپنے پیغمبر کی پیروی کر رہے ہیں لیکن
ہمارے پیٹ کے پتھر پہ طنز مت کرنا
ہمارے گھر میں پیمبر کی رسم آئی ہے
شفیع مشہدی کے افسانوں میں زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے بعد کی زندگی زیادہ محرک نظر آتی کیونکہ یہاں توقعات نہیں ہوتی امیدوں کی حصار بندی نہیں ہوتی مگر جہتوں کا لامتناہی سلسلہ طویل تر ہوتا ہے ہر دور میں وقت کا نباض اُسے اپنے اپنے طور پر کریدتا ہے _ راکھ میں بھی زندگی کی نمو محسوس ہوتی ہے ہزاروں سال کے کردار آج بھی کیسے اور کیونکر زندہ ہیں زندگی کی لافانی حقیقت کے حوالے سے شفیع مشہدی کا واضح نظریہ ہمارے تذبذب کو یقین کا پیرہن عطا کرتا ہے
مشہدی صاحب مانتے ہیں کہ۔۔
“زندگی کی حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ بھی فنا نہیں ہوتا بلکہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اگر ایک فرد کی زندگی کو اکائی مان لیا جائے تو اس کی کہانی بھی ختم نہ ہوگی موت تو ایک وقفہ ہے،پھر عالمِ برزخ کی زندگی ،حشر،دوزخ،جنّت اور ابدی زندگی ،کہانی ختم کہاں ہوتی ہے،وہ تو چلتی رہتی ہے –
ہم جتنا جانتے ہیں ،اس کو اختتام کا نام دیکر مطمئن ہو جاتے ہیں،،،ایک عجیب سی تشنگی ہے جو کبھی بجھتی ہی نہیں،،،،”
اور ہماری دنیا کی یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی میں اگر تشنگی نہ ہو فریب پیہم نہ ہو تو واقعی دم ہی نکل جائے_ تخلیق کار اس ودیعت سے سرشار ہوتا رہتا ہے کہ قدرت نے اسے خاص وصف عطا کیا ہے کہ وہ صرف سوچ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اسکی ترسیل بھی کرتا ہے اور پھر دنیا کی بڑی آبادی اس کے افکار میں خود کو تلاش کرتی ہے زندہ ہوتی ہے متحرک کرتی ہے _شفیع مشہدی کے پیشِ نظر افسانوں ڈراموں نے بخوبی یہ کام کیا ہے اسی لیے ماضی حال اور مستقبل کی تصویریں جابجا نظر آتی ہیں تبدیلی یا تغیّر زندگی کا خاص شائبہ ہے _اس لیے اس کے فطری عمل سے فرار بھی ممکن نہیں _ شفیع مشہدی نے بھلے اپنے پچاس سالہ ادبی سفر کی حکایتیں بیان کی ہیں مگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قصے کی جڑیں روزِ ازل پر محیط ہیں_ درد کا رشته ہو یا الہام کی کیفیت_ ہونے والے تغیر سے چہرہ بدلتا ہے احساس نہیں _ فطرت بدلتی ہے اساس نہیں_ اور بعد میں یہی رنگ تخلیقی اظہار کو جاوداں بنا دیتا ہے چاہے” شو نار ہرین “میں انسان کی محرومی و محزونی ہو “کرچیاں” میں وجود کا بکھرا ہوا شیرازہ “جھاگ “میں انسانی بےحسی “سنیچر شاہ” کی نفسیاتی کشمکش” بنت زُلیخا” میں محنت کش کا رزمیہ “سبکدوش” میں انسانی جذبات و نفسیات کی گرہیں ہوں “طوطے کے انتظار میں” اخلاقی زوال کا المیہ ہو” قہر درویش” میں غربت و افلاس کی نقش گری ہو “جھینی جهینی رہے چدریا “میں اعلیٰ انسانی اوصاف کا بیانیہ ہو “سبز پرندوں کے سفر” میں عصری سیاست کے رویے ہوں یا “سید کی حویلی” میں بیگم صاحب کے توسط سے بڑے المیے کا منظر نامہ ہو , تنوع کےجہان میں شفیع مشہدی شانہ بہ شانہ اپنے قاری کے ساتھ چلتے ہیں اور وحدتِ تاثرکی خوشبوؤں سے خود بھی سرشار ہو جاتے ہیں ۔
مَیں کہہ چکا ہوں کہ اُن کی کہانیاں صرف نصف صدی کا قصّہ نہیں بلکہ بعض شہہ پارے مستقبل کا بھی پیش خیمہ ہیں کئی بار وقت کی آہٹ وہ پہلے بھی سن لیتے ہیں اور کسی جنون میں ایسا کچھ بھی لکھ جاتے ہیں جن کا رشتہ حال سے کم اور ماضی و مستقبل سے زیادہ رہتا ہے وہ جانتے ہیں کہ کبھی کبھی ماضی اور حال کے رشتے کی دوری زیادہ نہیں ہوتی مثلاً اس ضمن میں ایک اور کہانی کا ذکر ناگزیر معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب یہ کہانی وجود میں آئی تو اس کا پس منظر کم از کم سیاسی نہیں تھا مگر حالیہ برسوں میں یہ موضوع کسی اور وجہ سے زیادہ زیربحث ہے میرا اشارہ ان کی کہانی” آگ ” کی طرف ہے_ کہانی میں ایک ہندو دوست کے اچانک اسلام قبول قبول کرنے کی خبر آتی ہے عام ذہن کا مسلمان اس خبر سے خوش بھی ہو جاتا ہے مگر کہانی کار نے جب حقیقت کا انکشاف کیا تو مذہب کا بیجا استعمال خطرناک حد تک مضحکہ خیز نظر آیا اور وہ وجہ یہ تھی کہ دوست اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی سالی سے محض شادی رچانے کی غرض سے اسلام قبول کرتا ہے کیونکہ ہندو سماج میں ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ معاملہ عصری منظر نامے پر اب اتنا گمراہ کن ہو گیا ہے کہ اہلِ سیاست کو ایوان کی کرسی تک ملنے لگی ہے جبکہ بقول مجروح سلطان پوری
مجھ سے کہا جبریلِ امیں نے یہ بھی وحی الٰہی ہے
مذہب تو بس مذہبِ دل ہے باقی سب گمراہی ہے
اس طرح شفیع مشہدی کی فکشن کی دنیا کے محاسبے کے بعد پورے اعتماد سے ہمیں کہنے میں تامل نہیں ہے کہ اُن کے فن پارے کی حصار بندی کے دوران ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ بعض ایسی کیفیات جن پر ہر دور میں قدرتی طور پر ایک ہی ڈھنگ سے سوچا جاتا رہا ہے مثلاً سانس لینے،دل کے دھڑکنے ،بولنے یا دیکھنے کی جبلتیں جو اب تک نہیں بدلی ہیں خواہ ہم کتنے مشینی کیوں نہ ہو جائیں ،آسمانوں کے سفیر ہی بنتے رہیں ،لیکِن فطری تقاضوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوٹا ہے_ میں تخلیقی ادب کو اسی زمرے میں رکھتا ہوں ہم کب،کہاں،کس موڑ پر کیا کچھ اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں ،اس کا اندازہ اس وقت ہوا کرتا ہے جب ہمیں اندر سے کچھ پریشان کرنے لگتا ہے اور ہم اسے لکھنا یا کہنا چاہتے ہیں قلم اٹھاتے ہیں تو اپنے اندر کچھ کوندنے لگتا ہے کبھی نوسٹلجک ہو جاتے ہیں کبھی اپنی مُبہم سی فکر کو کوئی معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک بے ترتیب سوچ بھی کبھی پینٹنگ کی طرح کوئی معنویت عطا کرنے لگتی ہے اور یہی معنویت ہمیں تخلیقی توانائی سے روشناس بھی کرتی ہے اس عمل سے گزرتے ہوئے شفیع مشہدی کے اعتبار کو بھی تنوع حاصل ہوا اُن کے تخلیقی اختصاص کے منظر نامے پر جا بجا احتجاج ہے ،محبت ہے،نفرت ہے ،
بحران ہے،فساد ہے،قدریں ہیں،جنس ہے،نفسیات ہے،ہے راہ روی ہے،تنہائی ہے،شناخت ہے،گلوبلائزیشن ہے،بازار ہے،وراثت ہے،پسماندہ ہے،اشرافیہ ہے،ہجرت ہے،تقسیم ہے،جنگ ہے،امن ہے،کاروبارِشوق ہے۔نقشِ فریادی ہے،جنریشن گیپ ہے،رشتوں کے نئے صحیفے ہیں،تانیثیت ہے،تہذیبوں کے ٹوٹنے بکھرنے کا نوحہ ہے غرض یہ اور ایسے بےشمار موضوعات ہیں مگر ان کی سربلندی کا احساس تب اور شدید ہو تا ہے جب وہ مالکِ کائنات کے روبرو اپنی جستجو اپنے تجسّس اپنی تر دامانی کا اظہار کرتے ہوئے بے اماں نظر آتے ہیں سچ ہے کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی،،،
زمیں سفر میں ،فلک ، عالمِ حجاب میں ہے
یہ کائنات ابھی تک حصارِ خواب میں ہے
زمانہ گزرا کہ مَیں سر اٹھا کے گزرا تھا
سنا ہے راہگزر اب بھی پیچ و تاب میں ہے
٭٭
