ممبئی،28،نومبر(یواین آئی)ممبئی میں پاسبان ادب کے زیراہتمام دوروزہ ادب وثقافت کے تحت اردو میلہ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے- اس موقع ادب،ثقافت ،کوئزاور مشاعرے کے ساتھ ساتھ داستان گوئی کے قدیم فن کو زندہ کرنے کی کوشش بھی شامل رہی جبکہ دوسرے روز تصوف پر سیر حاصل خطبات ہوئے اور اردو کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کاجائزہ بھی لیا گیا۔اس میلہ میں اردو شاعری و تصوف کے موضوع پر مذاکرات اور داستان گوئی کے پروگرام جو بھی پسند کیا گیاگیا،اس بہترکارکردگی پرپاسبان ادب کے روح رواں اور ممبئی ریلوے کے پولیس کےکمشنر قیصر خالد نے مسرت کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا مقصد زبان کو فروغ دینا اوردیگر زبانوں کے لوگوں سے مزید تعلقات استوار کرنا یے۔انہیں اپنے ادب اور ثقافت ،شاعری اور تہذیب پیش کی جائے ،جبکہ ان کی بہترین چیزوں اور فن کو سمجھا جاسکے-
واضح رہے کہ پاسبان ادب کے زیر اہتمام ابتدائی روز اردواسکولوں کے طلباء کے ذریعے 26/11کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیاگیا ،اور ان کی ملک کے لیے دی گئی قربانی کو یاد کیاگیا۔ پاسبان ادب کے روح رواں قیصر خالد کی نگرانی اور سرپرستی میں ہرسال ادبی وثقافتی تحریک کے زیراہتمام داستان گوئی کے علاوہ ادبی کوئز، مشاعرے، موسیقی سے بھر پورشو، صوفیانہ کلام، مباحثے اور عام لوگوں کے فن کا مظاہرہ “اوپن مائیک” کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس بار داستان گوئی کو اہمیت دی گئی ہے۔جبکہ نوجوانوں اور ابھرتے ہوئے شاعروں کے لیے بھی ایک سیشن میں بھرپور موقعہ دیاجائے گا۔ابتداء میں ہی مشہور ادیب اور شاعر شمیم طارق نے کہا کہ جو قوم اپنے وطن پر فدا ہونے کا جذبہ نہیں رکھتی یا فدا ہونے والوں کو یاد نہیں کرتی وہ کبھی سرخرو نہیں ہوتی. شرکاء مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اس پروگرام میں شریک ہوکر باشعور اور با ضمیر ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں.شمیم طارق نے کہاکہ وہ لوگ بھی خراج عقیدت کے مستحق ہیں جو ہندوستانیت اور ہندوستان سے محبت کی، اس روح کا سنگھار کرتی رہی ہے جو خود بھی ملک کا دفاع کرتی رہی ہے اور دوسروں کو بھی ملک کے دفاع پر آمادہ کرتی ہے. اس لیے اردو کے وہ اہم تخلیق کار اور قلمکار جو دنیا سے گذر چکے ہیں مثلاً پروفیسر گوپی چند نارنگ ،شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی اور دوسرے قلمکار بھی خراج عقیدت کے مستحق ہیں.واضح رہے کہ 12 سال پرانی ادبی، ثقافتی تحریک پاسبانِ ادب (محافظِ ادب) کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس میلے میں داستان کے اسٹیج کے علاوہ ادبی کوئز، مشاعرے، میوزیکل شو، صوفیانہ کلام، مباحثے اور اوپن مائیک بھی شامل تھے ۔