پٹنہ4دسمبر(پریس ریلیز):اے ایم یو ایلومنی فورم،بہار،پٹنہ اور سول سوسائٹی پٹنہ کے مشترکہ زیر اہتمام بہار اردو اکادمی کے ہال میں اتوار کو ’’موجودہ دور میں سرسید تحریک کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سول سوسائٹی، پٹنہ کے صدر سابق اے ڈی ایم عبدالباری نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر جے ڈی یو رہنما رکن کونسل آفاق احمد خان شریک ہوئے۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اے ایم یو ایلومنی فورم بہار کے سربراہ اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ نصرالہدیٰ خان نے سبھی مہمانوں کا سمینار میں پُرجوش خیرمقدم کیا اور سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سرسید تحریک کی اہمیت پہلے سے زیادہ آج ہے اور اس تحریک کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سرسید نے خود ہی کہا تھا کہ جو کام اپنے اسلاف کو یاد نہیں کرتی ہے وہ قوم خود ہی فراموش کردی جاتی ہے اور بے وقعت بن جاتی ہے۔ سرسید احمد خان سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ سرسید کا نظریۂ تعلیم بہت عمدہ اور قابل تقلیدہے۔ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ معیاری تعلیم کو فروغ دینا سرسید کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ سر سید نے ایسے حالات میں انگریزی تعلیم کی وکالت کی تھی جس دور میں مسلم ملت انگریزی تعلیم کو کفر تصور کرتی تھی مگر آج وہی ملت انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پریشان ہے۔
مہمان خصوصی رکن کونسل آفاق احمد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سرسید کی تحریک کی معنویت پہلے کے مقابلے آج زیادہ بڑھ گئی ہے جب ایک منفی فکر و نظریہ تمام لوگوں پر جبراً تھوپا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مسلمان بیدار نہ ہوئے اور اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد شروع نہیں کی تو فرقہ پرست طاقتیں اپنی خطرناک سازشوں میں کامیاب ہوجائیں گی جس کا خمیازہ پورے ملک کوبھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ تو نہیں ہیں مگر خالص سیاسی فرد ہونے کی حیثیت سے 1980سے اب تک اے ایم یو سمیت ملک کے مسلمانوں کے ہر بڑے و حساس مسئلہ سے جڑے رہے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ آئندہ بھی وہ اپنی سماجی و ملّی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو ایلومنی فورم اور سول سوسائٹی کی کاوشیں قابل قدر ہیں، انہیں معیاری قسم کے تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہیے جس میں وہ اپنی جانب سے، پارٹی کی جانب سے اور حکومت کی جانب سے ہرممکن تعاون کریں گے۔حکومت کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے بھی وہ اس کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کریں گے ۔سبکدوش ضلع جج اورمعروف قلمکار اکبر رضا جمشید نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خان بنیادی طور پر ایک جج تھے مگر ان کا یہ کردار فراموش کردیا گیا۔ انہیں ایک ماہر تعلیم اور تحریک کار کی حیثیت سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ سرسید کی تعلیمات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے خاص زور دینا چاہیے۔ اپنی صدارتی تقریر میں سبکدوش اے ڈی ایم اور سول سوسائٹی کے صدر عبدالباری نے کہا کہ ہمیں اسلامی اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں سے سبق حاصل کرنا ہوگا اور سرسید کی تحریک کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ ویمنس ٹریننگ کالج پٹنہ یونیورسٹی کی پرنسپل ڈاکٹر منور جہاں نے کہا کہ سرسید کو یاد کرنا پوری مسلم ملت کی ذمہ داری ہے کیونکہ انہوں نے بڑے احسانات کئے ہیں جسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
وہ قوم کے نباض تھے لیکن ہمیں سرسید کے مشن کو آگے بڑھانے کی فکر کرنی ہوگی تبھی ہم ذلت و رسوائی سے نجات پاسکیں گے اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ مسلمان متحد و منظم ہوکر اپنی بقا و ترقی کے لیے تحریک چلائیں۔ خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کریں کیونکہ خاندان میں مرد کے ساتھ خواتین گاڑی کے دو پہیے کے مانند ہیں، اگر ایک پہیہ نکال دیاجائے تو گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خاں تقسیم ہند کے سب سے بڑے مخالف تھے۔اے ایم یو کے پروگرام میں محمد علی جناح کا بائیکاٹ کیا گیا تھا لیکن آج شرپسندانہ طور پر سرسید کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیاجارہا ہے۔ فرقہ پرست ذہنیت سے سبھی لوگ واقف ہیں لیکن ہمیں اسی ماحول میں رہ کر اپنے لئے راستے کی تلاش کرنی ہوگی۔ سرسید سائنٹفک ایجوکیشن کے حامی و علمبردار تھے جنہوں نے کہا تھا کہ مسلمان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس ہونا چاہیے۔سرسید ترقی پسند تھے مگر مذہب کی پاسداری بھی پوری مضبوطی سے کرتے رہے۔ لوگ ان کی اصل فکر کو آج بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں، یہ ہماری ملت کا المیہ ہے اور تباہی کا سبب بھی ہے۔ سرسید راتوں کو اللہ کے سامنے روتے تھے اور دن کو میدانِ عمل میں جدوجہد کرتے رہتے تھے۔ ان کے افکار ونظریات کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ بھارتیہ ہمومن فرنٹ کے قومی صدر ڈاکٹر محبوب عالم انصاری نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہر طرف مذہبی منافرت و شرانگیزی کا خطرناک ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں پھر سے سرسید تحریک کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ہی اپنے دوسرے مسلم بھائی کو لیڈر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیںمگر اس کے باوجود اپنے بزرگوں کو بار بار یاد کرنے سے ہمارے اندر تحریک چلانے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اس لئے تحریک کا دامن کبھی نہیںچھوڑنا چاہیے۔ ڈاکٹر شبیر احمد خان نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرسید ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ان کے افکار و نظریات پر عمل ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہمیں ان کی حیات و خدمات سے سبق لے کر معیاری تعلیم اور صحت خدمات کو بڑے پیمانے پر فروغ دینا چاہیے کیونکہ معیاری صحت خدمات کا زبردست فقدان ہے، خاص طور پر بہار میں۔ تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں تو کچھ کام ہوبھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر ارشد ایس حق نے کہا کہ سرسید تحریک کے بے شمار پہلو ہیں۔ مذہب، ادب، سیاست اور معاشرہ کی اصلاح بھی ان کی تحریک کا حصہ رہے۔ سرسید نے ابتدائی دور میں سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا لیکن یہ بھی کہا تھا کہ پہلے تعلیم حاصل کی جائے اور بعد میں سیاست کی جائے۔پٹنہ ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ محمد مشتاق عالم نے کہا کہ نصرالہدیٰ خان کی ملّی و سماجی سرگرمیوں سے وہ بہت متاثر ہیں اور ان کی جدوجہد میں ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ معیاری تعلیم کے فروغ کے ساتھ قوم کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا جانا بہت ضروری ہے۔
آج ہم سب کو سرسید بننے اور ان کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔پٹنہ کے مہاویر مندر کی آمدنی سے مہاویر کینسر سنستھان جیسا کینسر کا بڑا اسپتال قائم ہوسکتا ہے تو مسلمان اس طرح کے ادارے کیوں نہیں قائم کرسکتے۔ سینئر صحافی اسفر فریدی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مختلف واقعات کا تاریخی حوالے سے تفصیلی تذکرہ کیا اور کہا کہ سرسید احمد خان نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں فوقیت دی تھی اور اس کے لیے ملک گیر مشن چلایا تھاجس کی آج پھر شدید ضرورت ہے۔ سرسید نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلم ہماری دو آنکھیں ہیں اور دونوں آنکھوں میں یہ امتیاز کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں کہ کون آنکھ بہتر ہے اور کون خراب بلکہ دونوں ہی آنکھوں کی ایک ہی حیثیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید نے علی گڑھ میں جومدرسہ قائم کیاتھا اس نے ترقی کرتے ہوئے سنٹرل یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی جو طویل عرصے سے پوری دنیا میں معیاری تعلیم کا ایک عظیم گہوارہ ہے مگر المیہ ہے کہ پٹنہ میں انہوں نے جو ماڈل اسکول قائم کیا وہ آج خستہ حالی کا شکار ہے اور انتہائی کمتر درجہ کا اسکول بن کر رہ گیا ہے اور مسلمان اس پر توجہ نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید کی معنویت آج زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ طبیہ کالج پٹنہ کے سابق پرنسپل ڈاکٹر محمد شہاب الدین نے کہا کہ تعلیم کو پہلی ترجیح بنانا اور معیاری تعلیم کے مراکز قائم کرنا سرسید کو بہترین خراج عقیدت ہوگا اور اس سمت میں ایلومنی فورم و سول سوسائٹی کو کوشش کرنی چاہیے۔ اے این سنہا انسٹی چیوٹ کے سینئر اسکالر ڈاکٹر ودیارتھی وکاس نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے دستاویزی ثبوت پیش کئے اور کہا کہ سرسید احمد خان ہندوستان میں ایک بڑے انقلابی رہنما کی حیثیت رکھتے تھے جنہوں نے تعلیم سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی کارنامے انجام دیے لیکن المیہ ہے کہ ان کے عظیم کارناموں کو یکسر فراموش کردیا گیا، یہاں تک کہ مسلم سماج نے بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اپنے محسن کے احسانات کو فراموش کردیا۔ سرسید ایک سچے محب وطن تھے، عظیم فلسفی تھے، مسلم سماج کو باوقار زندگی جینے کا سلیقہ سکھایا، تعلیم سمیت ہر میدان میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ روایتی طرزِ زندگی اور افکار کو تبدیل کرکے جدید فکر و نظریہ پیش کیا۔ آزادی کی پہلی لڑائی ملک میں مسلمانوں نے لڑی۔ سرسید نے سائنس پر مبنی تعلیم کو فوقیت دی۔ پہلے کے یا آج کے انگریز سے لوہا لینے کے لیے علم کی طاقت ہمارے لیے پہلا اسلحہ ہے، جس کے بغیر ہم زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پنڈت نہرو بھی سرسید کے افکار ونظریات سے بہت متاثر تھے۔ سرسید نے کہا تھا کہ وقت کے ساتھ چلو ورنہ برباد ہوجائوگی اور آج مسلمان وقت کے ساتھ نہیں چلنے سے تباہی کا شکار ہیں۔
مغربی تعلیم اور تہذیب و تمدن پر بھی سرسید نے سوال اٹھایا تھا اور اس مغربی تہذیب و تعلیم سے متفق نہیں تھے۔سرسید ہندومسلم اتحاد کے مضبوط علمبردار تھے اور انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دروازہ سب کے لیے کھلا رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کالج کا پہلا گریجویٹ ہندو تھا۔ وہ جدید ہندوستا ن کے معمار تھے۔ مولانا آزاد نے بھی کہا تھا کہ بھارت کے مسلمان اگر سرسید کو ٹھیک سے جان جائیں تو ان کے حالات تبدیل ہوجائیں گے۔ سرسید ترقی پسند تھے مگر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے بھی مضبوط علمبردار تھے۔ سیکولرزم سے انہوںنے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تقریب سے حسیب الرحمن اور آسمہ بدرخان سمیت کئی دیگر لوگوں نے بھی خطاب کیا جبکہ سابق وزیر عبدالمالک، ڈاکٹر سعید عالم،پرویز عالم، محمد اظہرالحق، محمد اسلم اور دیگر سرکردہ شخصیتیں بھی موجود تھیں۔
