سعودی ۔چین کے مابین تعلقات روشن مستقل کے امکانات

ریاض : مملکت سعودی عرب اورعوامی جمہوریہ چین کے درمیان سفارتی تعلقات دونوں دوست ممالک اورعوام کے مفاد میں دوطرفہ اعتماد پر مبنی ہیں اور وہ مختلف شعبوں میں وسیع ترتعاون اور باہمی افہام وتفہیم کی طرف مستحکم رفتار سے ایک ٹھوس پیش رفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کا آغاز 80 سال قبل ہوا تھا۔تب عام سادہ تجارتی تعلقات اور چینی زائرین کے استقبال کی شکل میں تعاون اورترقی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔1990 میں دونوں ممالک نے باضابطہ مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے تھے،انھوں نے سفیروں کا تبادلہ کرنے اورسیاسی ،اقتصادی، نوجوانوں اور دیگر سطحوں پراجلاسوں اور ملاقاتوں کا اہتمام کرنے سے اتفاق کیا تھا۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکت سعودی عرب کی جانب سے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کوفروغ دینے کی خواہش تمام بااثرممالک اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات اور شراکت داری کو فروغ دینے اور مملکت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کے تزویراتی منصوبوں کا حصہ ہے۔جنوری 2016ء میں شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے عوامی جمہوریہ چین کے صدر عزت مآب صدر شی جن پنگ کا خیرمقدم کیا تھا اورالریاض کے الیمامہ محل میں ان سے ملاقات کی تھی۔اس میں انھوں نے اس بات پر زوردیا کہ سعودی عرب کے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں گذشتہ 25 برسوں کے دوران میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔دونوں ممالک دنیا میں استحکام اور امن و سلامتی کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔اس دورے کے موقع پرسعودی عرب اور چین کی حکومتوں کے درمیان 14 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔اس میں شاہراہ ریشم اکنامک بیلٹ، 21 ویں صدی کے میری ٹائم شاہراہ ریشم اقدام اور پیداواری صلاحیت میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک یادداشت بھی شامل تھی۔اس پر ولی عہد، وزیراعظم اوراقتصادی اور ترقیاتی امور کی کونسل کے چیئرمین شہزادہ محمد بن سلمان ولی عہد نے دست خط کیے تھے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی ہدایت پر ذی القعدہ 1437ھ میں شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ چین کے بعدمیں دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔انھوں نے صدر شی جن پنگ، سابق چینی نائب وزیراعظم ژانگ گوالی اور دیگرحکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
خطے اوراسلامی دنیا کی سطح پرایک نئی اور منفرد سائنسی کامیابی کے طور پر، مملکت سعودی عرب نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ مل کر چاند کے پوشیدہ پہلو کو قریب سے دریافت کرنے کے لیے ایک نادر سفرمیں شمولیت اختیار کی ۔یہ فیصلہ خلا کی تلاش میں اس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مظہرہے۔الریاض اور بیجنگ کے درمیان یہ تعاون 16 مارچ 2017 کو خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکے دورہ چین کے موقع پر دست خط شدہ مفاہمت کی یادداشت پر عمل درآمد کا عکاس تھا۔ اس سے چاند کی تلاش کے لیے چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ سعودی عرب کے تعاون کی بنیاداستوار ہوئی تھی۔چین سعودی ولی عہد کی جانب سے شروع کیے گئے مشرقِ اوسط سبزاقدام کی حمایت کرتا ہے اور صدر شی کی جانب سے عالمی ترقی کو متوازن، مربوط اورجامع ترقی کےایک نئے مرحلے میں لے جانے کے لیے تجویزکردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹومیں سعودی عرب کی شمولیت کا بھی خیرمقدم کرتا ہے۔
چین گذشتہ پانچ سال سے مملکت سعودی عرب کا پہلا تجارتی شراکت داررہا ہے۔وہ 2018 کے بعد سے سعودی عرب کی برآمدات اور درآمدات کے لیے پہلی منزل کے طور پر درجہ بندی کر رہا ہے،دونوں ملکوں میں تجارتی حجم 2021ء میں 309 ارب سعودی ریال تک پہنچ گیاتھا اور یہ2020 کے مقابلے میں 39 فی صد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔اس میں سعودی عرب کی چین کو کل برآمدات کی مالیت 192 ارب سعودی ریال بھی شامل تھی۔اس میں سعودی عرب کی 41 ارب کی غیر تیل کی برآمدات بھی شامل ہیں۔
چین میں سعودی سرمایہ کاری 8.6 ارب سعودی ریال تک پہنچ گئی ہے اور 2019 کے اختتام تک سعودی عرب چین میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں 12 ویں نمبر پرتھا۔ دوسری جانب سعودی عرب میں چین کی سرمایہ کاری 2021 کے اختتام تک مجموعی طور پر 29 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
سعودی عرب چین کے ساتھ ایک تزویراتی شراکت داری بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔وہ چینی فریق کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کی حمایت کرتا ہے اور مملکت کو خطے میں چین کا پہلا قابل اعتمادتزویراتی شراکت داربناتا ہے۔سعودی عرب نے 2005 سے2020 تک عرب دنیا میں چین کی سرمایہ کاری کا 20.3 فی صد سے زیادہ حصہ لیا ہے۔اس کی کل مالیت 196.9 ارب ڈالر ہے۔اس عرصے کے دوران میں چین کی جانب سے قریباً 39.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سعودی عرب میں کی گئی ہے۔اس طرح وہ چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے والاسب سے بڑا عرب ملک بن گیا۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات صرف مذکورہ شعبوں تک ہی محدود نہیں رہے ہیں بلکہ ایک وسیع تر پہلو بھی دیکھا گیا،خاص طور پر ثقافتی تبادلے میں ، خاص طورپرجب سعودی وزارت ثقافت نے 2019 میں مملکت سعودی عرب اور چین کے مابین ثقافتی تعاون کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔یہ مملکت سعودی عرب کی ثقافتی اور سائنسی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔اس ایوارڈ کا مقصد عربی زبان اور عرب اور تخلیقی فنون کو فروغ دینا، سعودی اور چینی ثقافتوں کے مابین باہمی افہام و تفہیم اور ثقافتی تبادلے کا فروغ اورثقافتی سطح پر سعودی ویژن 2030 اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(بیلٹ اور شاہراہ اقدام) کے مشترکہ مقاصد کو پورا کرنا ہے۔

سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین کے مابین تعلیم میں تعاون کے فریم ورک کے تحت متعدد سعودی یونیورسٹیوں اور اسکولوں نے چینی زبان کی تعلیم دینا شروع کردی ہے،اور 44 چینی یونیورسٹیوں میں عربی زبان بھی پڑھائی جارہی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے صدرشی جِن پِنگ کا 7 سے 9 دسمبر 2022 ء تک مملکت سعودی عرب کا دورہ دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے دوطرفہ تعلقات اور ان کی تزویراتی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور اپنے مشترکہ مفادات کی تکمیل میں اپنی سیاسی اور معاشی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔

چینی صدر کے دورے کے موقع پر تین سربراہ اجلاس منعقد کیے جائیں گے۔ یہ سعودی،چینی سربراہ اجلاس،الریاض خلیج چین سربراہی اجلاس برائے تعاون اور ترقی، اورالریاض عرب-چین سربراہ اجلاس برائے تعاون اور ترقی ہیں ۔ان سربراہ اجلاسوں اور دیگرمصروفیات سے چینی صدر کے اس دورے کی علاقائی اور عالمی سطح پر اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

About awazebihar

Check Also

بنگلہ دیش میں مزدوروں کے احتجاج کے دوران 130 فیکٹریاں بند

ڈھاکہ، 12 نومبر  بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں واقع دو بڑے صنعتی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *