ڈھاکہ، 10 دسمبر (یو این آئی) بنگلہ دیشی صحافی شفیق الاسلام کاجول نے کہا کہ انہیں 53 دن تک زیر زمین سیل میں رکھا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ چڑیا گھر میں جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، ان کی آنکھوں پر ہمیشہ کے لیے پٹی باندھی گئی تھی اور صرف کھانے کے لیے ان کی ہتھکڑیاں ہٹائی جاتی تھیں۔
بی بی سی نے کاجول کے حوالے سے بتایا کہ ‘کبھی کبھی وہ مجھے پوچھ گچھ کے لیے لے جانے سے پہلے مارا پیٹا کرتے تھے۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ کتنا دردناک تھا۔ انہوں نے مجھ سے ان کہانیوں کے بارے میں پوچھا جو میں نے لکھی تھیں۔ مجھے بہت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اب بھی اس کے بارے میں بولنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں۔”
بی بی سی آزادانہ طور پر کاجول کے انکشاف کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب وہ اپنی کہانی اتنی تفصیل سے شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انسانی حقوق نہیں ہیں اور میں مسلسل خوف میں رہتا ہوں۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ کاجول نے اسی ہفتے ہم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا جب بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے دن کے موقع پر بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کا منصوبہ بنایا گیا تھا، سکیورٹی فورسز کی ڈھاکہ میں حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے ارکان کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔
بی این پی لوگوں سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی کی قیادت میں حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ ان کے اہم خدشات میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اپیل ، زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر تشویش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹیں شامل ہیں۔
پولیس نے اپوزیشن کے عہدیداروں کو بھی حراست میں لیا ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی اختلاف رائے کو کچلنے کی براہ راست کوشش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ وہ آزادی اظہار پر نکیل کس رہی ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ کاجول کو کچھ لڑکیوں کی تصاویرکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے انہیں سوشل میڈیا پر شائع کرکے کچھ لڑکیوں کا استحصال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔