ذیشان
اسسٹنٹ پروفیسرجامعہ ہمدرد، نئی دہلی
9398485929
Email- zishan789@gmail.com
ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایسے بہت سے مجاہدین آزادی پیدا ہوئے جنہوں نے ملک کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا، مگر تاریخ کے اوراق میں انھیں کوئی خاص جگہ نہیں مل سکی۔ آج جب ہندوستان آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، ہمیں تاریخ کے صفحات میں گم ان مجاہدین آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کو سامنے لانے اور انھیں یاد کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ہندوستان کے وقار اور اس کی سالمیت کو بچانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا. انھیں میں سے ایک ہیں مولانا مظہر الحق۔ حق صاحب کی ولادت 22 دسمبر 1866 کو پٹنہ، منیر میں واقع بہپورہ گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام شیخ احمد اللہ اور دادا کا نام قاضی شیخاوت علی تھا۔ مولانا مظہر الحق کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ انھیں ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ملی، ثانوی تعلیم مدرسہ اسلامیہ بہپورہ (منیر) سے حاصل کی۔ انہوں نے 1886 میں پٹنہ کالجییٹ سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی سال انہوں نے مزید تعلیم کے لیے پٹنہ کالج میں داخلہ لیا لیکن ایک سال کے بعد 1987 میں وہ کیننگ کالج لکھنؤ گئے، لیکن 1888 میں حق صاحب قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ سماجی اور سیاسی طور پر بیدار ہونے میں انگلستان کا دورہ ان کے لیے بہت سود مند رہا۔ وہیں ان کی ملاقات مہاتما گاندھی سے ہوئی۔ انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مولانا مظہر الحق نے انگلینڈ میں ‘انجم اسلامیہ کی تشکیل کی۔ آگے چل کر یہ تنظیم ہندو مسلم اتحاد کی علامت بن گئی، جس کا مقصد دونوں مذاہب میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر ‘پنجاب اسلامیہ سوسائٹی، لندن کر دیا گیا۔1891 مولانا مظہر الحق قانون کی ڈگری لے کر ہندوستان آگئے، لیکن وکالت میں انہیں متوقع کامیابی نہیں ملی۔ اس کے بعد انہوں نے جوڈیشل سروس جوائن کی اور منصف بن گئے۔ مگر وہاں کے سرکاری ملازمین کے ساتھ انگریزوں کی من مانی اور بدسلوکی دیکھ کر 1896ء میں حق صاحب نے اس عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا اور چھپرہ میں آزادانہ پریکٹس شروع کی۔ 1897 میں ملک بھر میں ہونے والی خشک سالی اور قحط سے نمٹنے کے لیے چھپرا میں انہیں ‘ریلیف کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ حق صاحب نے اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اس ذمہ داری نے سماجی کاموں میں ان کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔ریاست بہار کی تشکیل اور مولانا مظہر الحقبہار کو بنگال سے الگ کرکے علیٰحدہ ریاست بنانے میں مولانا مظہر الحق کا اہم کردار رہا ہے۔ 1906 میں راجندر بابو، ڈاکٹر سچیدانند سنہا، مہیش نارائن اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں ‘بہاری اسٹوڈنٹ کانفرنس’ کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں طلبہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بہار ریاست کی تحریک کو کافی طاقت دی۔ 1907 میں اس تحریک سے مولانا مظہر الحق، برہمدیو نارائن، حسن امام، علی امام وغیرہ کے جڑنے سے تحریک کو مزید تقویت ملی۔ 1908 میں مولانا مظہر الحق بہار کانگریس کے کرتا دھرتا تھے۔ 1909 میں مولانا مظہرالحق کو بہار کی ریاستی کانگریس کمیٹی کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اسی سال مولانا مظہر الحق نے مارلے منٹو ایکٹ پر شدید تنقید کی۔ مارلے منٹو اصلاحات کے تحت 1909 پہلا الیکشن میں ہوا جس میں ڈاکٹر سچیدانند سنہا بنگال لیجسلیٹو کونسل کی جانب سے اور مولانا مظرالحق مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر قانون ساز کونسل کے لیے منتخب ہوئے۔ 12 دسمبر 1911 کو دہلی میں شاہی دربار کا انعقاد کیا گیا جہاں شہنشاہ جارج پنجم نے بہار اور اڑیسہ کو ملا کر ایک نئی ریاست ‘بہار کے قیام کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں 22 مارچ 1912 کو ریاست بہار کی تشکیل ممکن ہو سکی۔تحریک آزادی اور مولانا مظہر الحق 16 دسمبر 1916 کو پٹنہ میں مولانا مظہر الحق کی قیادت میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں ‘بہار ہوم رول لیگ کے قیام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بہار ہوم رول لیگ قائم ہوئی، جس میں مولانا مظہر الحق (صدر)، سرفراز حسین (نائب صدر) اور چندرونشی سہائے (وزیر) بنے۔ اس تحریک نے ہندوستان میں سیلف گورننس کے نظریے کو مزید تقویت بخشی اور آئینی طور پر ہندوستان کو حصول آزادی کے لیے طاقت فراہم کی۔ سال 1917 میں، مہاتما گاندھی چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے ذریعے ہندوستانی سیاست میں سرگرم ہوئے۔ مہاتما گاندھی نے بہار کے چمپارن ضلع میں کسانوں کے استحصال اور نیل کی کھیتی کے خلاف تحریک میں ستیہ گرہ کو پہلی بار سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس میں کامیابی پائی۔ جب مہاتما گاندھی اس تحریک میں حصہ لینے چمپارن پہنچے تو وہ حق صاحب کے پاس ہی رکے۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مولانا مظہرالحق کے علاوہ راج کمار شکلا، راجندر پرساد، برج کشور پرساد، انوگرہ نارائن سنہا، نرہری پاریکھ، آچاریہ جے بی، کرپلانی اور مہادیو دیسائی وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔اس کے بعد مولانا مظہر الحق مہاتما گاندھی کی ہر تحریک میں ان کے ساتھ نظر آئے۔ انہوں نے عدم تعاون کی تحریک، خلافت تحریک اور رولٹ ایکٹ کے خلاف مہاتما گاندھی کے نظریات کی حمایت کی۔ عدم تعاون کی تحریک کے دوران بہار کے کئی رہنماؤں نے اسمبلی کے انتخابات سے اپنی امیدواری واپس لے لی، ان میں مولانا مظہر الحق، راجندر پرساد، برج کشور پرساد، محمد رفیع وغیرہ ان میں سرفہرست تھے۔1920 میں تحریک عدم تعاون کے دوران بہار کے طلبہ نے سرکاری گرانٹ پر چل رہے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا۔ ان طلبہ تعلیم جاری رکھنے کے لیے مولانا مظہر الحق نے پٹنہ-دیگھا میں واقع ایک زمین خرید کر بہار ودیا پیٹھ کا قیام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں طلبہ کی تعلیم کا بھی انتظام کیا۔ مولانا مظہر الحق کو بہار ودیا پیٹھ کا وائس چانسلر، برج کشور بابو کو اس کا وائس چانسلر اور ڈاکٹر راجندر پرسند کو اس کا پرنسپل بنایا گیا۔ جب پٹنہ انجینئرنگ اسکول کے طلبہ عدم تعاون کی تحریک میں کود پڑے تو ان کے لیے مولانا مظہر الحق نے پٹنہ-دیگھا کے پاس اپنے دوست خیرو میاں کی جانب سے عطیہ کی گئی زمین پر ‘صداقت آشرم بنوایا، جہاں انہوں نے اپنے پیسوں سے ان طلبہ کی تعلیم کے لیے مناسب بند و بست کیا۔ حق صاحب نے فریزر روڈ (پٹنہ) پر واقع اپنا پرتعیش گھر ‘سکندر منزل چھوڑ کر وہیں طلبہ کے ساتھ رہنے چلے گئے۔مولانا مظہر الحق نے تحریک عدم تعاون کے دوران پٹنہ سے ’دی مدر لینڈ‘ اخبار کی اشاعت کا آغاز بھی کیا۔ اس اخبار کے ذریعہ حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ سنہ 1926 سے مولانا مظہر الحق کی صحت کی خرابی کی وجہ سے تحریک آزادی میں ان کی سرگرمی کم ہو گئی۔ اس دوران وہ پٹنہ چھوڑ کر فرید پور (سیوان) میں اپنے لیے بنائے گئے مکان ‘آشیانہ میں رہنے لگے۔ وہاں رہتے ہوئے بھی ملک بھر سے سماجی کارکنان، سیاست دان اور تحریکی جہدکار ان سے ملنے فرید پور آتے رہے۔ طویل علالت کے بعد 2 جنوری 1930 کو مولانا مظہر الحق اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے بنائے ہوئے گھر ‘آشیانہ میں ہی ان کی قبر ہے۔
بہار حکومت نے مولانا مظہر الحق کے اعزاز میں سال 1998 میں پٹنہ میں ‘مولانا مظہر الحق عربی اور فارسی یونیورسٹی کا قیام کیا جو آج ان کے خیالات کو نئی نسل تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مولانا مظہر الحق کی وفات کے بعد مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ’’مولانا مظہر الحق ایک سچے محب وطن، سچے مسلمان اور قومی اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے‘‘۔
