محمد ضیاء العظیم قاسمی
موبائل نمبر: 7909098319
اسلام ایک دین فطرت ہے۔ جس نے ہر قدم پر انسانوں کی راہنمائی فرمائ ہے، زندگی کے کسی بھی پہلو کو باغوردیکھیں گے تو ہمیں کہیں بھی بے یار و مددگار اور مایوس نہیں کیا ہے ، مہد سے لے کر لحد تک انسانی راہنمائی کی ہے، امن و سلامتی کےاور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں۔
اس روئے زمین پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، آخر میں صدرکے طور پر سیدناےحضرت محمد ﷺ کو بحیثیت آخری نبی بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ،آپ کی ذات مقدس وہ کامل ترین ہستی ہے جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا بھر پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین اور کامل نمونہ ہے۔آپ کو اللہ رب العزت نے سراپا رحمت وبرکت اور ہدایت بنا کر اس دنیا میں انسانوں کی فلاح وکامیابی کے لئے بھیجا، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانوں کے لئے ایسا پیغام ہے جو انسانوں کو مکمل کامیابی کی ضمانت بخشتا ہے ۔آپ نے زبانی اور عملی مشق کے ساتھ زندگی گزار کر دکھا دیا کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں، کون سی زندگی رب چاہی زندگی ہے، زندگی کے کسی گوشے اور پہلو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ علیہ السلام نے ہماری رہنمائی کی ہے، خواہ عبادات ہو کہ معاملات ہو، سماجی ومعاشرتی، اقتصادی، اخلاقی،پہلو ہو، سفر ہو کہ حضر ہو، تنہائی ہو کہ محفل ہو، خلوت ہو کہ جلوت ہو، رات ہو کہ دن ہو، صبح ہو کہ شام ہو۔
اور رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل دنیا کی حالت ِ زار ناقابل بیان ہے۔تاریخ اس دور کو دور جاہلیت کہتی ہے ، کیوں کہ وہ معرفت الہی اور ہدایت سے بہت دور گمراہی وضلالت میں گھرے تھے ۔ عرب کی حالت ایام جاہلیت کا بیان مولانا الطاف حسین کے الفاظ میں کچھ یوں ہے :۔
عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں
نہ کھتّوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بسُو جا بجا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا
وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
ہونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی
بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں
توحید کی جگہ شرک، خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ، اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم وزیادتی نے لے لی تھی۔ معاشرے میں کون سی ایسی خرابیاں نہ تھیں جو ان میں نہ ہوں ۔ جن عورتوں کو اسلام نے عزت واحترام بخشتے ہوئے ان کے اعزاز میں مکمل سورہ،، سورہ نساء،، نازل فرمائی ان کی کوئی اہمیت نہ تھی، ان کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا،ذلت و رسوائی کا سبب مانا جاتا ، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی جنگ وجدال شروع ہوتے تو وہ سالہا سال چلتے رہتے ۔شراب نوشی، قمار بازی، اور اصنام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ایک رب کو چھوڑ کر سینکڑوں بتوں کی پرستش کرتے تھے، انسانیت سسک سسک کر ، بلک بلک کر، اور چیخ چیخ کر دم توڑ رہی تھی، انہیں ایک مسیحا کا انتظار تھا، جو ان کی دکھتی رگوں پر دست شفا رکھ کر راحت و آرام کا سامان بن سکے، جو ان کے غموں کو اپنے اندر سمیٹ کر ان کے لئے خوشی وشادمانی کا پیغام سناسکے، انہیں ان جاہلانہ رسومات و بدعات ، خود ساختہ مذہبی خرافات ، سماجی ومعاشرتی تنزلی اور گراوٹ ، فتنہ و فساد، تخریب کاری، سے آزادی دلا کر راہ راست پر لاسکے، ظلم وبربریت کی گھٹا ٹوپ اندھیر میں ہدایت کی شمع جلائے ، اللہ کی رحمت انعام واکرام،عذاب وعتاب سے آشنا کرا سکے ، چنانچہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔جس کی آمد نے سارے جہاں میں حق کا پیغام سنایا،جس کا وجود سراپا سارے جہاں کے لئے رحمت ہے، جس کی آمد کی خبر سابقہ انبیاء کرام نے دی،
جس کی آمد سراپا عشق ومحبت اور پیار پر منحصر ہے، جس کا کام عشق ،جس کا پیغام عشق، جس نے صرف درس عشق دیا، عشق بھی وہ عشق جسے ہم عشق حقیقی کہتے ہیں،جو عشق سارے جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، کیوں عشق یہ انسانی فطرت اور تقاضے ہیں،انسان کے رگ وریشے میں قدرت نے اسے رکھا ہے ۔یہ فطری تقاضے کبھی انسانوں کو کامیاب وکامران بنا دیتی ہے اور کبھی ذلت ورسوائ کا سبب بنتی ہے ۔ایک انسان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ مالک حقیقی سے عشق کرے اور عشق کے جو تقاضے ہیں ان تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے ۔اس کے مطابق اس کے ہر اشارہ پر عمل کے لیے آمادہ رہے، کیوں کہ عشق کا تعلق قلب سے ہوتا ہے اور یہ قلبی محبت اگر عروج پر پہنچ جائے تو بسا اوقات جان بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بندہ مومن سے اسلام کا مطالبہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عمومی محبت نہ کرے بلکہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھے تاکہ احکامات خداوندی اور اتباع رسولؐ کا حق کلی طور پر ادا ہو سکے ۔
کیوں کہ کسی چیز کو ہم اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کلی طور پر اس کی حقیقت وافادیت سے واقف ہوتے ہیں، اس کے نتائج کا علم ہوتا ہے ، اور جب ہم کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ اس تسلیم شدہ چیز کے تقاضے کو پوری کریں ۔ اسی طرح ایک مسلمان اللہ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کو پوری عقیدت و محبت کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے تو بحیثیت محب اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو پیغامات لے کر آئے ہیں ان پیغامات کو تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔چونکہ اسلام نام ہی ہے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کا اور یہ تقاضا تب ہی پورا ہو سکتا ہے جبکہ ہم سیرت کے پیغامات کو اپنائیں،
اور عشق کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت وافادیت سمجھیں، اور یہ ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وپیغامات پر ہی عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخروئی کی ضمانت ہے ۔قرآنِ کریم کی پوری عبارت اور مفہوم در اصل سیرت کا ہی پیغام ہے ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کے لئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن مجید مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر، تصویر، تحریر، اور تقریر ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق وکردار ، سماجی ومعاشرتی مسائل، انفرادی و اجتماعی مسائل،قومی وبین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی اصول وقوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ جہت پہلوؤں کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے، زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔
رسول اللہ کی زندگی کو نمونہ بنا کر اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش وہی شخص کرے گا جس کو بعث بعدالموت کا یقین کے ساتھ ساتھ احساس بھی اور اعمال کے واجبی نتائج کا یقین کامل ہو۔ رہا وہ فرد جسے یا توآخرت کی امید ہی نہ ہو یا اگر ہو تو کبھی کبھار ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہو اور زندگی کی ہماہمی و مصروفیات نے اسے موت کے بعد پیش آنے والے نتائج سے غافل کر رکھا ہو تو ایسا شخص بجائے اللہ کے رسول ؐ کو رہنما بنانے کے، اپنی مطلوب من پسند شخصیت کو رہنما بنائے گا تاکہ اس کے لیے دنیاوی ترقی ممکن ہو سکے۔اور یہ ہم اس دور میں میں بدرجہ اولی دیکھ رہے ہیں، ہم اور ہمارا معاشرہ ہر جہت سے اللہ کی ناراضگی اور رسول اللہ صلعم کی تعلیمات کا جنازہ نکال رہا ہے، ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنے سر صرف اللہ کی لعنت مول لے رہے ہیں، ہماری عبادات کا تو اللہ ہی محافظ ہے، معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، دکاندار تجارت میں جھوٹ بول کر چیزیں فروخت کر رہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، لیا ہوا قرض لی ہوئی وامانت لوٹانے کا نام نہیں لے رہے ہیں، بیٹیوں اور پھوپھیوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، نکاح وشادیات جو کہ محض ایک عبادت وبندگی کا نام ہے اس موقع پر ہم چار قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، ناچ گانا، آتش بازیاں، مرد وعورت کے اختلاط، جانوروں کی طرح گھوم گھوم کر کھانے لینا پھر اسے کھڑے ہوکر کھانا، اس دوران اگر کھانا اٹک گیا تو دوڑ کر پانی تلاش کرنا ان تہذیب وثقافت میں خود کو رنگ لیا ہے۔
مسلمانوں کے اکثریت علاقے میں کسی بھی گھر کی بنیاد بغیر جھگڑے کے نہیں پڑتی ہے، جان بوجھ کر دوسرے کی زمین کے حد میں پیلر ڈالنا، ناحق قبضہ جما لینا، اگر کسی سے کوئی رنجش یا اختلاف ہو جائے تو اس کے راز فاش کردینا،کسی کمزور پر ظلم کرنا، کسی کو ناحق ستانا، کسی کی کامیابی پر جلنا، پڑوسیوں کو تکلیف دینا، فقراء ومساکین، یتیموں اور نوکروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا، اللہ رب العزت نے سورہ ماعون میں کفار ومنافقین کے چند علامات کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس سورہ کے پس منظر میں خود کے کردار عمل کو دیکھ سکتے ہیں،انہیں وجوہات کی بنا پر اللہ کا عذاب وعتاب نازل ہورہا ہے چونکہ اللہ رب العزت نے واضح فرما دیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں (تو دنیا میں دیکھنے والا تھا اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس دنیا میں میری نشانیاں آئیں تھیں تو تو نے ان کو فراموش کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی فراموش کردیا جائے گا اور جو شخص اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور حد سے تجاوز کرے ہم اسی طرح اس کو سزا دیتے ہیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور بہت باقی رہنے والا ہے۔
ہم اس آیت کریمہ پر غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یقیناً ہم اللہ کے احکامات کو پامال کر رہے ہیں جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے، اللہ کے احکامات کو توڑنا یہ دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے،حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام کر اپنے اندر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلوؤں کو بسا کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں، یہی تقاضا رب اپنے بندے سے کرتے ہیں، اسی سے زندگی کامیاب ہو سکتی ہے چونکہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے
ترجمہ:مت گھبراؤ غمزدہ نہ ہو تم ہی سربلند رہوگےاگرتم مومن ہو،
اور اللہ کا وعدہ برحق ہے، سچا ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں تاکہ ہماری زندگی مکمل کامیاب ہو سکے۔اللہ ہم سب ایمان و یقین کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین،