مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
Cell: 9849099228
ہر انسان کو ایک دن مرنا یقینی چیز ہے،ٹھیک اسی طرح دوبارہ زندہ کر کے اپنے رب کے سامنے پیش کردیا جانا بھی ایک امر حقیقت ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن حکیم یوں ذکر کرتا ہے۔
(ترجمانی) ان سے کہو،اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ یعنی یہ بات صاف طور پر ارشاد فرائی گئی ہے کہ ہر آدمی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے زمین کے ہر گوشہ،سے گھیر کر لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کردیا جائے گا۔
اسلامی تعلیمات میں تصور آخر ت یا زندگی بعد الموت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کیونکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جو کہ انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے میں معاون و مددگار ہوتی ہے۔ عقیدے توحید و رسالت کے بعد عقیدے آخرت جتنا مضبوط ہوگا انسان اپنے ارتقائی منازل کو طئے کرتے ہوئے اللہ رب العزت کا محبوب بندہ بن جاتا ہے اور جو شخص اس اہم عقیدے کو فراموش کردیتا ہے یا اس کا انکار کر بیٹھتا ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتا ہے اور مغضوب و ظالین کے فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم کی تعلیمات اور رسول اللہؐ کے ارشادات گرامی میں فکر آخرت پر بہت زیادہ زور اس لئے دیا گیا ہے کہ جتنی بھی قومیں بگڑی ہیں اور تباہی و بربادی جن کا مقدر بن چکی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہو ںنے زندگی کے شب و روز خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس سے خالی ہوکر گذاری تھیں اس طرح ان کی دنیا بھی تباہ ہوکر رہی اور آخرت کا خسران جو کہ ہمیشہ ہمیشہ کا نقصان ہے اس سے دو چار ہونا پڑا انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو طاقت و قوت اور صلاحیت عطا فرمایا ہے،مال و دولت اور اقتدار سے جو نوازا گیا ہے اور دنیوی زندگی میں جو کچھ آزادی دے رکھی ہے الغرض جو کچھ بھی نعمتیں اسے حاصل ہورہی ہیں اس کا اْس وقت تک صحیح استعمال ہوتے رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے منعم حقیقی کے سامنے جوابدہی کا احساس اور اس سے ڈر کر زندگی گذارتا ہے۔ اس طرح فکر آخرت اور جوابدہی کا احساس اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات کا حساب دینے کے تصور کے ساتھ جو زندگی گذرتی ہے وہ ہمیشہ راہ نجات کی راہ پر گامزن رہتی ہے جو نتیجہ کے لحاظ سے دنیوی راحت اور اخروی شادمانی کی ضمانت ہے۔
برخلاف اس کے اگر انسان زندگی بعد موت کو فراموش کردے اور اپنے آقا کے سامنے جوابدہی کے احساس کے بغیر زندگی گذارنے لگے تو پھر اس سے ایسے ایسے کام اور ایسے جرائم کا ارتکاب ہونے لگتا ہے جسے دیکھ کر شیطان جھوم اٹھتا ہے۔ خواہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی انجام دہی ہو یا حقوق العباد کے معاملات ہوں ان ساری چیزوں میں انسان اعتدال کی شاہ راہ کو گم کردیتا ہے اور اللہ کے سامنے مجرم بن کر پیش ہوتا ہے۔
انسان کی یہ سراسر بے انصافی ہے کہ وہ اپنے خالق کے احسانات کی ناقدری کرتا ہے اور نا شکرانہ طرز حیات کو اختیار کرتا ہے حالانکہ اس کا مالک اسے نازک مراحل سے حفاظت سے گذار کر جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے اس کی تخلیق فرمایا اور اس کا مزید کرم اس پر یہ ہوا۔ اور ہورہا ہے) کہ قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا اور انسان کو وہ علم کی دولت سے مالا مال فرمایا جو وہ جانتا نہ تھا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ انسان ایک حقیر ترین حالت سے نکال کر ساری مخلوقات میں اشرف مقام پر پہنچا دیا گیا لیکن اپنے محسن کا نہ شکرا بنا رہا ہے ؟اس کی اصل وجہ قرآن حکیم میں یوں بیان کی گئی کہ
ہر گز نہیں،انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔ (حالانکہ ) پلٹنا یقینا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔ (ترجمانی از مولانا سید ابولا علی مودوی رحمت اللہ علیہ )
آیات مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسان جو کچھ سرکشی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہوئے کرتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بے لگام ہوکر حدود بندگی سے آگے نکل جاتا ہے۔ اگر انسان اس بات پر اچھی طرح یقین کرلے کہ مجھے ایک دن اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے تو اس کی حالت ایسی نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتوں کا صحیح استعمال کرتا اور سرکشی و بے بندگی کی زندگی سے اجتناب کرتا۔
اس سلسلہ میں محترم پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمت اللہ علیہ نے بہت خوب تحریر فرمایا ہے۔ ’’پہلے تو یہ بتایا کہ کم ظرف انسان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور ایک طاقتور جتھ اس کا فرماں بردار بن جاتا ہے وہ،اپنے آپ کو اپنے رب سے بھی مستغنی سمجھنے لگتا ہے گویا اس نے اپنے خدا سے جو کچھ لینا تھا لے لیا۔ اب اسے اس کی (العیاذ باللہ) کوئی ضرورت نہیں اور جب اس کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو وہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ نہ اسے اللہ تعالیٰ کے کسی فرمان کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کے بھیجے ہوئے رسول کے ارشادات کو وہ قابل اعتنا سمجھتا ہے، جو اس کے جی میں آتا ہے کر گذرتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ ہفت کشور کا سلطان (ساری دنیا کا سلطان) بھی بن جائے اگر دنیا بھر کی دولت بھی جمع کرلے تو پھر بھی وہ ایک بے بس انسان ہے۔ جب اس کی موت کا وقت آئے گا تو فرشتہ اجل اس کی اکڑی ہوئی گردن مروڑ کر رکھ دے گا اور آخر کار اسے اس کے پروردگار کے دربار میں جواب دہی کیلئے پیش ہونا پڑے گا۔ اس وقت اس کو اپنی ناتوانی اور بے نوائی کا احساس ہوگا۔ (ضیا القرآن جلد پنجم)۔ قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوکر آتی ہے کہ خوف آخرت کے فقدان سے انسان کی گمراہی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔
سورہ مدثر میں کفار کی گمراہی اور ان کی ہٹ دھرمی اور نبیؐ کی دعوت کا انکار، جو بذریعہ قرآن ہورہی تھی اس سے منہ موڑ نے اور مختلف حیلے بہانے تراشنا اور حق سے فراری اختیار کرنا اور اس طرح کی دیگر باتوں کی اصل وجہ یہی بتائی گئی کہ ’’کلا بل لا یخا فون الآخرۃ (آیت 3) (ترجمانی) ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔
الغرض جو لوگ آخرت کا خوف اپنے اندر نہیں رکھتے اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے انہیں اس بات کا کوئی خیال بھی نہیں آتا کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا برپا ہوگی جس میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا یہی وہ اصل بیماری ہے جو آدمی کو بے فکر اور ایک غیر ذمہ دار طرز زندگی اختیار کرنے کا عادی بناکر رکھ دیتی ہے آخر کار اس کا انجام جہنم کی آگ کی شکل میں ہوتا ہے۔
قرآن حکیم جنتیوں اور دوزخیوں کا ایک دوسرے سے سوال و جواب کا ذکر کرتا ہے اور جب جنتی لوگ مجرمین سے یہ بات پوچھتے ہیں کہ ’’مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَر‘‘ ’’تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی‘‘؟ اس کے جواب میں دوزخی ۴ چیزوں کا ذکر کرتے ہیں (۱) ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے (۲) مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے (۳) اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے (۴) وکنا نکذب بیوم الدین۔ اور روز جزاء کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔
قرآن مجید معاشرے کی مختلف برائیوں اور خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے موقع بہ موقع گرفت کرتا ہے تا کہ انسان سنبھل جائے اور اپنے برے اعمال سے باز آجائے۔ چنانچہ سورۃ المطفّفین میں اللہ تعالیٰ نے نام تول میں کمی کرنے والوں کو تباہی مول لینے والوں میں شامل فرمایا اور یہاں پر بھی انہیں آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ بتایا۔
’’تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کیلئے جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں اور اسے نہیں جھٹلاتا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گذر جانے والا بد عمل ہے۔( ترجمانی آیات 10 تا 12)
اسلام کی نظر میں دیانت داری اور ناپ تول،راست بازی اور معاملات میں شفافیت صرف ایک اچھی پالیسی نہیںہے بلکہ یہ تو ایک فریضہ ہے جو تصور آخرت اور مالک یوم الدین کے سامنے کھڑے ہونے ہی کے احساس سے ادا ہوسکتا ہے ورنہ آدمی شتر بے مہار بن کر جو چاہے کرنے لگتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے مختصر و جامع انداز میں یوں تحریر فرمایا۔
’’اس عام بے ایمانی پر گرفت کی گئی ہے جو کاروباری لوگوں میں بکثرت پھیلی ہوئی تھی کہ دوسروں سے لینا ہوتا تھا تو پورا ناپ کر اور تول کرلیتے تھے، مگر جب دوسروں کو دینا ہوتا تو ناپ تول میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ گھاٹا دیتے تھے۔ معاشرے کی بے شمار خرابیوں میں سے اس ایک خرابی کو ’جس کی قباحت سے کوئی انکار نہ کرسکتا تھا، بطور مثال لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے۔
جب تک لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک روز خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوڑی کوڑی کا حساب دینا ہے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کامل راستبازی اختیار کرسکیں۔ کوئی شخص دیانت داری کو ’’اچھی پالیسی ‘‘ سمجھ کر بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں دیانت برت بھی لے تو ایسے موقع پر وہ کبھی دیانت نہیں برت سکتا جہاں بے ایمانی ایک ’’مفید پالیسی ثابت ہوتی ہے۔ آدمی کے اندر سچی اور مستقل دیانت داری اگر پیدا ہوسکتی ہے تو صرف خدا کے خوف اور آخرت پر یقین ہی سے ہوسکتی ہے کیونکہ اس صورت میں دیانت ایک ’’پالیسی ‘‘نہیں بلکہ ’’فریضہ ‘‘ قرار پاتی ہے اور آدمی کے اس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کا انحصار دنیا میں اس کے مفید یا غیر مفید ہونے پر نہیں رہتا۔ (تفہیم القرآن جلد ششم صفحہ 78 تا 279)
اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو اس کی آخری منزل کی طرف نشاندہی فرماتے ہوئے جھنجھوڑ رہا ہے کہ تو اس دارالعمل میں جو کچھ اعمال کررہا ہے اس کے عین مطابق اس کی جزاء ملے گی۔یعنی اس میں دو طرح کے انسان کا نقشہ کھینچا گیا ہے ایک وہ ہے جو فکر آخرت کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہا اور دوسرا وہ بد بخت ہے جو دنیا و لذات دنیا میں مگن رہ کر خوب عیش کے سامان کرلیا۔
ارشاد باری تعالیٰ اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے پھر جس کے نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔ رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے پلٹنا کیسے نہ تھا، اس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہا تھا (سورۃ الانشقاق آیت 2 تا 15)۔ الغرض خوف آخرت مومن کی لازمی صفت ہے اس طرح آخرت کی جواب دہی کے خوف کے ساتھ جو زندگی بسر ہوتی ہے وہ ہمیشہ راہ نجات و راہ حق پر گامزن رہتی ہے اور اس کے حامل لوگ اپنی زندگی سے اس کی شہادت بھی پیش کرتے ہیں۔
اللہ کے عذاب سے ڈرنے والوں کے اعمال اور ان کا مقام بلند ’’ جو نماز پڑھنے والے ہیں، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں، جن کے مالوں میںسائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے، جو روز جزاء کو برحق مانتے ہیں، جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاطت کرتے ہیں۔ بجز اپنی بیویوں یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو اپنی امامتوںکی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں، جواپنی گواہیوں میں راست بازی پر قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے۔ (ترجمانی سورۃ المعارج آیات 22 تا 35)
مذکورہ بالا آیات کریمہ میں یہ بات بتلائی گئی کہ بلند مقام تک پہنچنے کیلئے انسان کو کن کن اوصاف کا حامل ہوناچاہئے اور یہ بھی حقیقت ہر وقت سامنے رہنی چاہئے کہ متقی اور فرماں بردار بن کر دنیا میں زندگی بسر کرتے وقت ہر طرف سے مشکلات و مصائب اور آزمائش سے دو چار ہونا پڑتا ہے کیونکہ جنت کا حصول کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ جو شخص بھی دوزخ کی آگ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیابس وہ کامیاب ہوگیا۔ ہمارے سامنے ایک بہترین کردار کی حامل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی صالح جماعت کے شب و روز رہنے چاہئے جنہیں ہر قسم کی آزمائشوں سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ مشرکین مکہ اور سرداران قریش صحابہؓ کے متعلق یہ تصور کرتے تھے کہ یہ سماج کے کمزور قسم کے لوگ ہیں جو ’’محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اطراف جمع ہوگئے ہیں، انہیں دین سے پھیرانے کی کوشیش میں ان کو خوب ستا یا گیا ظلم کے پہاڑ توڑے گے اور اس کی انہوں نے انتہا کردی لیکن،ان سعید روحوں نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لاکر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے نصب العین (جو اسلامی تعلیمات کی رو سے ’’اقامت دین ‘‘ ہے) پر جم گئے جس کا حقیقی محرک صرف رضا الٰہی و حصول آخرت تھا لہٰذا اسی کی خاطر انہوں نے آخری وقت تک بھی جدوجہد کی غرض یہ کہ ان کی مہاجرت،قربانیاں اور کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمات کفر کو پست کرنے اور ختم کرنے کے پیچھے جو چیز کارفرما تھی وہ یہ ہے کہ اللہ کے حضور جوابدہی کا احساس اور حصول جنت کی تڑپ۔ اللہ نے ان کے اعمال کی قدر فرمائی اور کرم کی بارش فرمایا اور دنیا ہی میں انہیں کامیابی (رضی اللہ عنہم و رضو عنہ) کی سند عطا فرمادی۔فکر آخرت کی طرف متوجہ کرنے والی آیات کریمہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوچکی کہ انسانی زندگی میںاس کی کتنی اہمیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ارشادات گرامی کے ذریعہ اس عقیدے آخرت کو خوب اجاگر فرمایا تا کہ لوگوں کے افکار و اعمال پر فکر آخرت غالب رہے۔
’’حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنی دنیا کو عزیز رکھا،اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت کو عزیز رکھا اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا۔ تو تم باقی رہنے والی چیز کو اس پر ترجیح دو جو فنا ہونے والی ہے۔ (احمد،البہیقی فی شعب الایمان ) یعنی کامیاب شحض وہی ہے جو آخرت کے مقابلہ میںدنیا کے مفاد کو ترجیح نہ دے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ آدمی کے دل سے دنیا کی محبت نکل گئی ہو اور آخرت کا شوق اس کے دل میں پیدا ہوگیا ہو۔ (کلام نبوت جلد اول صفحہ 304)
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی انتہائی مختصر ہے اور آخرت کی حیات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، سورۃ الاعلی میں اس کا ذکر یوں ہوا ’’لیکن تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
ترمذی اور ابن ماجہ میں ہمیں ایک روایت ملتی ہے جس کے راوی حضرت شداد بن آوس رضی اللہ عنہ ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے ’’دانا شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کیلئے عمل کرے اور نادان شخص وہ ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی اختیارکرے اور اللہ سے غلط آرزوئیں وابستہ رکھے۔
قرآن حکیم ایک مقام پر دنیا کی حقیقت چند الفاظ میںیوں بیان کرتا ہے کہ ’’دنیا کی زندگی بس ایک دھوکہ کی ٹٹی ہے‘‘۔
سرکار دو عالمؐ نے دنیا کی مثال آخرت کے مقابل میں کیسی ہے اس کی تشریح یوں فرمائی ’’مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا آپؐفرماتے تھے۔ خدا کی قسم دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس میں لگ کر آیا۔ (مسلم)
لمحہ فکر !
قرآن کریم کی آیات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی اور صحابہ کرامؓ کی روش کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہر شخص اس بات کا فیصلہ کرلے کہ وہ کل روز قیامت خسارہ سے بچنے اور راہ راست و راہ نجات پر اپنے آپ کو گامزن کرنے کیلئے کس طرح کا عمل اختیار کرناچاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچنا چاہتا ہو، اس کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تبارک تعالیٰ پر کامل طور پر ایمان رکھے جیساکہ اس کا حق ہے، رسول اللہؐ کی رسالت کا اقرار کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہے یعنی آپؐ جو کچھ حکم دیں اسے لے لیں اور اس پر عامل ہوجائیں اور جس بات سے منع فرمادیں اس سے رک جائیں،طبع ذات طریقہ حیات سے اجتناب کریں، خواہ معاملات ہوں یا عبادات ہوں معاشرت ہو یا معیشت،اخلاق ہو یا سیاست ان سب چیزوں میں کتاب اللہ،سنت رسولؐ کی تعلیمات کو مقدم رکھیں خلفائے راشدین کے طرز عمل اور صحابہ کرامؓ کی روش کو سامنے رکھیںاور آخرت پر یقین کامل رکھتے ہوئے خدا کے پاس جوابدہی کے احساس کے ساتھ شب روز گذاریں، ہمارے شام و سحر اس طرح گذریں کہ ’’ ان اللہ کان علیکم رقیبا‘‘ یقین جانو کہ اللہ ہم پر نگرانی کررہا ہے والی یقینی کیفیت ہمیشہ پائی جاتی رہے اور ہم اللہ بزرگ و برتر کو ہر وقت حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھائیں۔ یہی کیفیت سلف صالحین میں ہم پاتے ہیں۔ کسی شاعر نے حاضر و ناظر کے تصور کو یوں اجاگر کی:
مٹ جائے گا ابلیس کا بھرم جہاں سے اقبال
اگر ہوجائے یقین کہ ’’اللہ‘‘ دیکھ رہا ہے