معروف افسانہ نگار خورشید حیات کے اعزاز میں ادبی و شعری نشست کا انعقاد

پٹنہ : علمی مجلس بہار کے زیر اہتمام معروف افسانہ نگار خورشید حیات کے اعزاز میں ایک ادبی و شعری نشست سابق ڈسٹرکٹ جج اکبر رضا جمشید کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔ خورشید حیات اس ادبی نشست کے مہمان خصوصی تھے۔ خورشید حیات بہار کے گیا ضلع کے رہنے والے ہیں ۔ ایک عرصہ دراز کے بعد بلاس پور سے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد یہاں تشریف لائے ۔ خورشید حیات کا نام محتاج تعارف نہیں ہے ۔ انہوں نے کئی اہم افسانے لکھے ۔انکے افسانوی مجموعہ کی بھی اشاعت ہوچکی ہے ۔ لفظ بولتے کیوں ہو، سورج ابھی جاگ رہا ہے ۔ خورشید حیات نے اس موقع پر ایک مختصر افسانہ بھی سنایا اور اس افسانہ پر اہل علم و ادب نے کھل کر باتیں کیں۔ معروف افسانہ نگار علی امام نے کہا کہ خورشید حیات کا یہ افسانہ ماضی اور حال پر مبنی ایک کہانی معلوم ہوتی ہے ۔ انہوں نے اسلوب کا بہترین انتخاب کیا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مکالمہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کاسلسلہ چلتا رہے اور اس سے ادب میں نکھار پیدا ہوتاہے ۔ شاعر خورشید اکبر نے خورشید حیات کی کہانی پر عالمانہ اور محققانہ دلائل کے ساتھ باتیں کیں اور انکی کہانی کے کئی گوشوں پر اپنی رائے بھی دی اور تخلیق کار سے اس بارے میں مزید جانکاری چاہی۔ انکی کہا نی پر سید سرور حسین، ڈاکٹر آصف سلیم ، ڈاکٹر عطا عابدی اور شمع کوثر شمع نے بھی اپنی رائے رکھی۔ ادبی و شعری نشست کی نظامت علمی مجلس بہار کے جنرل سکریٹری پرویز عالم نے کی۔ اس موقع پر نسیم احمد،ڈاکٹر انوارالہدیٰ، نہال احمد، محمد اظہر الحق، شہزاد احمد، وغیرہ نے شرکت کی ۔ ادبی نشست کے بعد معروف شاعر ناشاد اورنگ آبادی کی صدارت میں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام ہوا، شعری نشست میں پڑھے گئے اشعار اس طرح ہیں :
بجھی جاتی ہیں قندیلیں جہاں دیکھو محبت کی
اٹھو کہ ہر جگہ روشن اے میرے یار ہوجائے
عرفان احمد بلہاروی
لٹتی ہے کہیں سیتا کہیں رضیہ تبسم
انسان کی بستی میں بھی انسان نہیں ہے
ڈاکٹر نعیم صبا
چند علماء نے بگاڑا ہے یہ ماحول اثر
شہر اتنا بھی یہ بیمار نہیں ہوسکتا
اثر فرید ی
پھولوں سے ملا ہوا زخم بھی گہرا ہوتا ہے
کانٹوں کو ہی صرف اس کا ذمہ دار نہ سمجھو
شمع کوثر شمع
آخری تحریر ہے آب رواں پر
آخری بوسہ فضا ہونے سے پہلے
خورشید اکبر
زمیں کرتی ہے میرا خیر مقدم
کہ میں جنت سے ٹھکرایا گیا ہوں
ناشاد اورنگ آبادی
جو انکی مانگو گے تو قیمتی محل دینگے
نہیں تو سر بھی تمہارا وہی کچل دینگے
معین گریڈیہوی
میں صحرا میں سفینہ دیکھتا ہوں
سمندر کوئی گزرا ہے ادھر سے
عطا عابدی
سید سرور حسین نے جہد مسلسل کے عنوان سے ایک نظم سنائی

About awazebihar

Check Also

بہارایگریکلچر یونیورسٹی کے تحت147مختلف عہدوں کیلئے فارم 19مئی تک

پٹنہ (پریس ریلیز)بہار ایگریکلچر یونیورسٹی کے تحت یونیورسٹی ہیڈ کوارٹر،سبور،پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *