محمد ہاشم القاسمی
موبائل نمبر :=9933598528
راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام 1925 میں کیشو رام بلی رام ہیڈگیوار کی جانب سے ناگپور میں عمل میں لایا گیا تھا۔
اس وقت آر ایس ایس کے بانی کے علاوہ جو لوگ اس کی تاسیسی میٹنگ میں شریک ہوئے تھے ان میں وشوناتھ کیلکر، بھاوجی کاورے، انا ساہنے بالاجی ہدار، بابو راؤ بھیدی جیسے سرکردہ لوگوں کے نام سر فہرست ہیں. اس تنظیم کے قیام کے تقریبا ایک سال کے بعد 17 اپریل 1926 کو اس کا نام آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سیوک سنگھ رکھا گیا اور اس کا جھنڈا بھگوا رنگ کا متعین کیا گیا اور اسی دن اس کے اصول وضوابط وضع کئے گئے۔ ساتھ ہی اس کے بانی کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا ۔
1930 میں آر ایس ایس نے قومی ترنگا جھنڈا کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ساتھ ہی گاندھی جی کے نمک ستیہ گرہ تحریک کی پورے ملک میں مخالفت کی تھی۔ اس وقت سے لے کر 2002 تک وہ قومی جھنڈا کو ماننے اور اسے اپنے دفتر میں لہرانے سے گریز کرتا رہا اور اپنے دفتروں میں بھگوا جنڈا ہی لہراتا رہا۔ راسٹریہ سیوم سنکھ کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک (ہندوراسٹر) میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لئے آر ایس ایس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درجنوں تنظیمیں قائم کیں۔ ان میں سے چند کے نام درجہ ذیل ہیں (1)بی جے پی (سیاست میں ) (2)بھارتیہ کسان سنگھ (کاشتکاروں میں )(3)بھارتیہ سنگھ(مزدوروں میں)(4)سیوابھارتی(5)راشٹریہ سیویکا سمیتی (6)اے بی وی پی یعنی اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد (طلبہ میں )(7)وشو ہندو پریشد (8)ہندو سویم سیوک سنگھ (9) سودیشی جاگرن منچ (10) سرسوتی شیشو مندر (11)ونواسی کلیان آشرم (12)مسلم راشٹریہ منچ (مسلمانوں میں )(13)بجرنگ دل (نوجوانوں میں )(14)لگھو ادھوگ بھارتی ۔(15بھارتیہ وچار کیندر (16) وشو سنواد کیندر (17)راشٹریہ سکھ سنگت (18)ہندو جاگرن منچ(19)وویکا نند کیندر۔
آر ایس ایس کی تاریخ کو ان کے سر براہوں کے دور اقتدار کے اعتبار سے چھ ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں. پہلا دور 1925 سے 1940 تک کے زمانہ پر محیط ہے. یہ اس تنظیم کے بانی کا دور ہے۔
دوسرا دور 1940 سے 1973 کے زمانہ پر مشتمل ہے، یہ گوالکر کا دور ہے، اس کے دور کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں. (۱)ابتدائی دور 1948-1949 اور (۲)انتہائی دور1973-1949
تیسرا دور 1973سے 1994 تک کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے، یہ بالا صاحب دیورس 1906کا عہد ہے ۔
چوتھا دور 1994 سے 2000 تک کے زمانہ پر محیط ہے، یہ پروفیسر راجندر سنگھ عرف رجو بھیا کاعہد ہے، پانچواں دور 2000 سے 2009 تک کازمانہ ۔یہ کپا ہلی سیتارمیا شدرشن کا دور ہے، چھٹادور 2009سے تا حال موہن راؤ بھاگوت کا عہدہے ۔
ساور کر ہندتوا کی تعریف کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس ملک کا انسان بنیادی طورپر ہندو ہے اس ملک کا شہری وہی ہو سکتا ہے جس کا آبائی وطن ،مادری وطن اور مقدس سر زمین یہی ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے آبائی اور مادری وطن تو ہر کسی کا ہوسکتا ہے لیکن مقدس سرزمین صرف اور صرف ہندؤں، سکھوں، بودھسٹوں اور جینیوں کا ہی ہو سکتی ہے کیونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی مقدس سر زمین مکہ اور فلسطین ہے ۔
گولوالکر نے اپنی کتاب Bunch of thoughts میں جس کا ان دنوں سنگھ کے نظریہ سازوں نے زیادہ حوالے نہیں دیئے۔ واضح طور پر کہا کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹس ہندو قوم کیلئے داخلی خطرہ ہیں۔ اپنی ایک اور کتاب We or Our Nationhood Defined میں گولوالکر کہتا ہے کہ ہم ایک ہندو قوم ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک اختیار کیا جانا چاہئے جس طرح جرمنوں نے جرمنی میں یہودیوں اور دوسرے کمزور طبقات کے ساتھ کیا۔
ہندوستانی تاریخ کے اوراق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ سنگھ کا فکرہ ساز، اس کا بانی اور اس کے اراکین ہمیشہ جنگ آزادی کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اور انگریزوں کے ساتھ مل کرمہاتما گاندھی اور مجاہدین آزادی کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔ ساورکر نے عین آزادی کی لڑائی کے وقت انگریزوں سے مصالحت کر لیا تھا ۔1910 میں جب اسے” ابھینو بھارت تحریک“ سے تعلق رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور مقدمے کے بعد مشہور سیلولر جیل اینڈمان نیکوبارمیں ڈال دیا گیا تو اس نے جیل سے انگریزوں کے پاس یکے با دیگرے چھ معافی نامے لکھے۔ جس کی وجہ سے وہ 1924میں اس شرط کے ساتھ رہا ہوا تھا کہ آئندہ انگریز مخالف کسی بھی تحریک سے الگ رہے گا اور انگریزوں کا وفاداربن کر رہے گا۔ اسی کو بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہل گاندھی نے مہاراشٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کی وضاحت کرتے ہوئے معافی نامہ کی کاپی اپنے ہاتھوں سے لہراتے ہوئے نامہ نگاروں کو دکھایا تھا.
ساورکر کا جنم 28 مئی، 1883ء میں مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے بھاگر گاؤں میں ہوا تھا۔ ان کی ماں کا نام رادھا بائی ساورکر اور باپ دامودر پنت ساورکر تھے۔ دونوں کی چار اولاد تھیں۔ ویر ساورکر کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم ناسک کے شیواجی اسکول سے ہوئی۔ محض 9 سال کی عمر میں ہیضے کی بیماری میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے کچھ سال بعد ان کے والد کا بھی 1899ء میں طاعون کی وبا میں انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے بڑے بھائی نے خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ ساورکر بچپن سے ہی باغی فطرت کے تھے۔ جب وہ گیارہ سال کے تھے تبھی انہوں نے وانر سینا (بندروں کی فوج) کے نام سے ایک گروپ بنایا تھا۔ وہ ہائی اسکول کے دوران بال گنگادھر تلک کے شروع کیے گئے شیواجی اتسو اور گنیش اتسو کیا کرتے تھے۔ مارچ 1901ء میں ان کی شادی یمنا بائی سے ہوئی۔ سنہ 1902ء میں انہوں نے ڈگری کے لیے پونے کے فرگوسن کالج میں داخلہ لیا۔ معاشی بد حالی کی وجہ سے ان کی کلیاتی تعلیم کا خرچ ان کے سسر یعنی یمنابائی کے والد نے اٹھایا۔ ساورکر آگے چل کر ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے منسلک ہوئے۔
1920-21کی تحریک عدم تعاون کا بلی رام ہیڈ گیوار اور اس کے ہمنواؤں نے مخالفت کیا اور اس میں شریک ہونے سے انکار کیا ۔1925میں ہیڈ گیوار نے سنگھ کی بنیاد کے ساتھ ہی اپنے آپ کو آزادی کی تحریک سے جدا کر لیا تھا ۔
میں گولولکر نے آر ایس ایس کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب اور ثقافت کی حفاظت کے ذریعے ہی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، نہ کہ انگریزوں سے جنگ کرکے، گولو الکر کی پیدائش 18 فروری 1902کو ناگپور میں ہوئی تھی ان کے والد ڈاک و تار کے محکمہ میں کلرک تھے، میٹرک کرنے کے بعد 1922 میں ناگپور کے ایک کالج میں داخلہ لیا، 1924 میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں سے زولوجی میں M. SC کیا ۔ 1930میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں استاد ہوگۓ، اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور ناگپور آکر قانون۔ LL B, کی ڈگری لی، کچھ دن وکالت بھی کی 1937 میں ناگپور آئے جہاں ہیڈ گیوار نے فوراً انہیں سنگھ کا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ انہوں نے 1939 میں ایک کتابچہ تیار کیا جو قومیت کے مسئلہ پر تھی، اسمیں انہوں نے جہاں مغربی تصور قومیت کے بعض پہلوؤں پر تنقید کی وہیں اس کے صحیح تصور کو اختیار کرنے کا بھی مشورہ دیا، انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مصیبتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم صحیح قومی شعور سے محروم ہیں چنانچہ یورپی سماج اپنی تمام تر خرابیوں کے باعثِ آزاد۔ مضبوط اور ترقی یافتہ ہے، گولو الکر نے کانگریس کے تصور قومیت۔ جغرافیائی قومیت پر بار بار تنقید کی ہے،
چنانچہ 1942کی ”بھارت چھوڑو تحریک“ کا سنگھ ،ہندو مہاسبھا کے صدر ساورکر اوراس کے رکن رکین شیاما پرساد مکھرجی نے زبردست مخالفت کیا اور اس تحریک کو ناکام بنانے میں انگریزوں کا پورا ساتھ دیا تھا.
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سرفہرست رہا ہے۔ چنانچہ 1927 کے ناگپور فساد میں آر ایس ایس کا اہم رول رہا ہے۔ 1948 کو اس تنظیم کے ایک رکن ناتھورام ونائک گوڈ سے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ 1969 کو احمد آباد فساد، 1971 کو تلشیری فساد اور 1979 ء کو بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو اس تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دیا۔ آر ایس ایس کو مختلف فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر تحقیقی کمیشن کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا، وہ درج ذیل ہیں.
1969 ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ. 1970 کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈرن رپورٹ. 1971 ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ. 1979 ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ. 1982 کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ. 1989 کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ.
درجِ ذیل وطن مخالف سرگرمیوں میں سنگھ پریوار تنظیمیں ملوّث ہیں۔ (1)مالیگاؤ بم دھماکا
(2)حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکا
(3)اجمیر بم دھماکا
(4)سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکا
سنگھ پریوار کے زیرِ قیادت بھارت میں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو زعفرانی دہشت گردی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
آر ایس ایس کی کل شاکھائوں کی تعداد 77848 ہے جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندو انتہا پسندی کے لیے کام کر رہی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 20 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً 1 لاکھ نوجوانوں نے پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فی صد بلاک میں اپنی شاکھائوں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 12431 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ بیرون ہند ان کی کل 93 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھائوں کی تعداد 641 ہے۔ برطانیہ میں 48 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھائوں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگانڈا، ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطی کے مسلم ممالک میں بھی ہیں اور وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں میں مذموم عزائم میں مصروف ہیں. ***