ممبئی ،13 فروری(یواین آئی) سپریم کورٹ کے سابق جج ایس عبدالنذیر کی سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے 40 دنوں کے اندر آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر تقرری پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ جب کہ سپریم کورٹ کے چند سابق ججوں کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کانگریس نے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اسے روایت بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس نذیر پانچ ججوں پر مشتمل بنچ کا حصہ تھے جس نے فیصلہ دیا۔ نومبر 2019 میں متنازعہ رام جنم بھومی کیس میں ایودھیا کی زمین ہندو پارٹی کو دے دی گئی۔ جسٹس نذیر اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) رنجن گوگوئی کی زیر صدارت ایودھیا بنچ میں واحد مسلم چہرہ تھے۔اس کے ساتھ ہی جسٹس نذیر 4 جنوری کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب، جسٹس نذیر اس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے نومبر 2016 کی مرکز کی نوٹ بندی کی پالیسی کو برقرار رکھا تھا اور وہ اس آئینی بنچ کا بھی حصہ تھے جس کے حق میں مزید کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 19(1)(a) کے تحت آزادانہ تقریر۔
اس دوران کانگریس نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور ترجمان ابھیشیک سنگھوی نے کہاکہ “افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی کے ایک قدآور لیڈر اب ہمارے ساتھ نہیں رہے، ارون جیٹلی نے 5 ستمبر 2013 کو ایوان میں اور کئی بار باہر کہا کہ ‘کی خواہش ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ “اصولوں کی بنیاد پر اور ایک واضح انداز میں، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسے روایت بنایا جا رہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔”
ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکری ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ ہے”۔واضح رہے کہ جسٹس عبدالنذیر نے اس بات کا اظہار کیا تھاکہ وہ بابری مسجد کے کیس میں فیصلہ سنا کر اپنی قوم کے ہیرو بن سکتے تھے،لیکن انہوں نے ملک کو ترجیح دی تھی۔
سماج وادی پارٹی لیڈر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے اپنے ردعمل میں کہاکہ انہیں مقدمہ کے سلسلہ میں انعام سے نوازا گیا ہے اور انہیں یاد رکھنا چاہئیے ایک عدالت بعدازمرگ ہے ،جہاں کوئی جانبداری نہیں ہوتی اور نہ ہی تعصب کیا جاتا ہے ۔
علی مسلم یونیورسٹی کی کور کمیٹی کے رکن آصف فاروقی نے کہاکہ انہیں ان کی کارکردگی کاصلہ دیاگیا ہے اور ان کی نیت صاف ہے،تو انہیں گورنر شپ مل گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلہ پر کھرے اترتے ہیں تو اصل عدالت تو اللّٰہ کی ہے ،جہاں انہیں مزید سرخروئی مل جائے۔لیکن انصاف پر ایسے فیصلوں سے آنچ آسکتی ہے ۔
این سی پی لیڈر اؤر صحافی ایڈوکیٹ سید جلال الدین نے کہاکہ انہیں ان کا حق مل گیا ہے اور بہتر ہی ہوا ہے،درصل انہوں نے ضمیر فروشی کی تھی اور اس کا صلہ مل چکا ہے ۔لیکن انہیں مستقبل کا بھی دھیان رکھنا ہوگا۔
جسٹس عبدالنذیر (سبکدوش) کی تقرری کی خبر پر ردعمل میں سابق ایم ایل اے ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہاکہ بابری مسجد مقدمہ میں شامل ججوں میں یہ تیسری تقرری ہے،سابق چیف جسٹس گوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا اور ایک جج کو سرکاری این سی ایس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور جسٹس عبدالنذیر کو گورنر مقرر کیا گیا ہے جوکہ انصاف کے لیے ٹھیکہ نہیں ہے اور یہ ان کی سبکدوشی سے محض چالیس دنوں بعد ممکن ہوا ہے۔
سابق فوجیوں کی سہولت کے لیے ایمپلائمنٹ پورٹل بنانے کا مطالبہ
نئی دہلی، 13 فروری (یو این آئی) لوک سبھا میں آج حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سابق فوجیوں کو روزگار کی سہولت آسانی سے فراہم کرانے کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے۔
تلگو دیشم پارٹی کے رام موہن نائیڈو نے وقفہ صفر کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ سابق فوجیوں کے لیے روزگار تک آسان رسائی کے لیے ایک پورٹل بنائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کے پورٹل کے ذریعہ سابق فوجیوں کے لئے ملازمتوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں تو انہیں آسانی سے معلومات مل جائیں گی۔انہوں نے حکومت سے فوری طور پر پورٹل بنانے کا مطالبہ کیا۔
وقفہ صفر کے دوران بی جے پی کے پی پی چودھری نے راجستھان میں امتحان کے دن بچوں کے لیے انٹرنیٹ بند کرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ راجستھان ڈیجیٹل میڈیم استعمال کرنے والی ملک کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اور موجودہ حکومت لوگوں کے اظہار رائے کے حق میں مداخلت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان حکومت سرورز کو بند کر دیتی ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ پر راجستھان حکومت سے وضاحت طلب کرے۔
بی جے پی کے رام چندر بوہرا نے بھی راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت پر وقفہ صفر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ اخبارات پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ صرف ان لوگوں کو اشتہار دیں جو ان کی خبریں شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس نے ان رپورٹس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کی وزارت اطلاعات و نشریات پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر غور کرے۔
