ڈاکٹر خان شہناز بانو
ایسوسی ایٹ پروفیسر و پرنسپل ، مانو کالج آ ف ٹیچر ایجوکیشن اورنگ آباد
بھارت اپنے تعلیمی نظام کے لیے عہد وسطی میں اپنا مقام رکھتا تھا۔ چاہے وہ ٹکسیلا ہو یا نالندہ ، ولبھی یونیورسٹی ہو یا وکرم شیلا ہر دور میں جدید تعلیمی طریقوں کو اپنانے اور اس میں ندرت پیدا کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔نالج سوسائٹی نے دنیا میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہےجہاں کسی بھی ملک کا موجودہ تدریسی نظام جو روایتی ستونوں پر قائم ہے وہ اس وقت تک کامیاب اور قابل تعمیم نہیں ہو سکتا جب تک وہ بین ا لقوامی سطح کے طئے شدہ معیارات پر پورا نہ اترتا ہو۔ اسی ضمن میں ہمارے ملک نے بھی کئی اقدامات کیے لیکن سب سے ٹھوس قدم این ای پی 2020 کے دائرے میں یو-جی-سی نے لیا ہےجس کے تحت غیر ملکی یونیورسٹیاں یا غیر ملکی اداروں کے ذریعے بین القوامی برانچ کیمپس (آئی بی سی) اور بین الاقوامی تعلیمی مراکز (آئی ای سی) کے قیام کے لئے ایک جامع اور مستقل ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے میں درکار مسودہ کو تیار کیا ہے۔ اس مسودے کو بہترین عالمی اطوار پر مبنی ضوابط کے تحت تیار کیا گیا ہےجس کے لئے عام لوگوں کی رائے طلب کی گئی ہیں۔ ہمیں بطور صارف و اسٹیک ہولڈر اپنی رائے 3فروری 2023 تک یو جی سی کو دینی ہے۔ اس عمل کے بعد ہی مکمل ہدایات کو منظر عام پر لایا جائے گا-اعلی تعلیم میں بین القوامی یونیورسٹی یا اداروں کو بھارت میں زمین فراہم کرنے کا عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی شروعات تو گلوبلائزیشن کے ساتھ ہو گئی تھی۔تعلیم کو بھی بطورٹریڈیبل کموڈیتی تجارتی مال /اشیاءکے طور پر سمجھا گیااور اس طرح ہر ملک نے اپنی سرحدوں کواس تجارت کے لئے کھولنا شروع کر دیا ۔یہ عمل صرف برآمد کا نہیں بلکی درآمد کا بھی ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے بین الاقو امی یونیورسٹی کو کل وقتی آف لائن موڈپر مبنی کورسیس کو منعقد کرنے کی شرط رکھی۔ اس کا ذکر ہمیں یو-جی -سی کے جاری کردہ ریگولیشن سیٹینگ اپ اینڈ آپریشن آف کیمپسیس آف فورین ہا ئیر ایجوکیشنل انسٹی ٹیو شن ان انڈیا 2023میں دستیاب ہے۔یو -جی -سی کے چیر پرسن ایم جگدیش کمار کے مطابق اس ریگولیشن کی مدد سے ہمارے بھارتی طلباءکی رسائی بین الاقو امی اعلی معیاری تعلیم سے اپنے ہی ملک میں ہو سکے گی۔اگر ہم 2020کے شماریات کا جائزہ لے تو کم ازکم 450000 بھارتی طلباء اعلی تعلیم کے لئےبین الا قوامی ممالک کا رخ کیے ہیں۔ اس طرح 28-30 بلین یو ایس ڈالر کے فند بین الاقوامی ممالک میں ترسیل ہوئے ہیں ۔سٍکہ کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بین الا قوامی اسٹو ڈینٹس بھی اس نظام کی طرف راغب ہونگے اگر بین الا قوامی یونیورسٹیاں بھارت میں قائم ہوتی ہیں۔اس صورت حال کو ایم جگدیش کمار نے وٍن -وٍن سچویشن کہا ہے۔مقبولیت اور ڈیمانڈ کے مطابق یونیورسٹیوں اور ان کے پروگرام بھارت میں اپنے قیام کی شروعات کر سکتے ہیں۔درجہ ذیل کورسیس چلانے والی یونیورسٹیوں کے قائم ہونے کے امکانات قوی ہے۔مالیاتی انصرام – Financial Management. فنٹیک Fintech .2 میڈیا Media .3 ڈیجیٹل مارکیٹینگ Digital Marketing .4 بز نس اینالیٹیکس Business Analytics.5 سائنس Science .6 انجنیرنگ Engineering .7 میتھیمیٹیکس Mathematics اس کے علاوہ ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے شعبے کو اہمیت حاصل ہوگی۔چند یورپین یونیورسٹیوں نے بھارت سے پہلے ہی ربط بنانا شروع کردیا ہے۔ گورنٹمنٹ آف انڈیا نے 55 ممالک کے ایمبیسیڈرس کو ڈرافٹ کے تعلق سے باز رسائی کے لئے خط و کتابت کی ہے۔بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کو خودمختاریت حا صل ہوگی کہ وہ داخلے کے شرائط اپنے مرکزی کیمپس کے مساوی ہوں۔چونکہ فیکلٹی کی تنخواہ کی ادائگی یونیورسٹی کے ذمہ ہے اس لحاط سے انہیں فیکلٹی کے انتخاب کا حق حاصل ہوگا۔ معیاری اور موضوع افراد کا انتخاب وہ دنیا کے کسی بھی خطہ سےکر سکتی ہے۔ جہاں تک ٹیوشن فیس کا تعلق ہے اسے شفاف اور معقول رکھنے کی شرط ریگولیشن میں موجود ہے۔بھارت کے قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لئے یو-جی-سی بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹیوٹ سے سالانہ رپورٹ طلب کرینگی جس میں پروگرام کی مکمل تفصیل ہونگی۔یہ تفصیلی رپورٹ ان کے ویب سائٹ پر بھی موجود رہیگی جس کے تحت ریگولیٹری فورم کے خلاف ورزی کی شنا خت آسانی سے ہوسکے گی۔اگر کسی طرح کا کوئی منفی نتائج ، غلط استعمال یا حقیقت کو دبانے جیسے حالات ہونے پر یو-جی-سی کو اختیار ہے کی وہ جرمانہ عائد کر سکتئ ہےیا ان کی اجازت /منظوری کو واپس یا رد کر سکتی ہے۔ یو-جی-سی کے اس قدم کے بارے میں اعلی تعلیم کے ایک شعبے نے تابوت میں آخری کیل سے تشبیہ دی ہے۔ ان کے مطابق یہ ملکی اعلی تعلیمی نظام خاص کر عوامی طور پر فنڈیٹ یونیورسٹیاں و کالجز کے تباہی کا باعث ثابت ہوگی۔وجہہ صاف ظاہر ہے-فارین یونیورسٹی کی چمک دمک، معیار ، پر کشش تنخواہ اور بہترین کریئر کے فراق میں اچھے فیکلٹی اور اسٹوڈینٹس سے ہاتھ دھو ناہے۔دوسرا خوف جو وہ ظاہر کرتے ہے وہ بھارت کے خالص تہذیب و ثقافت ،اقدار و عقائد پر منفی اثر۔ چند تعلیمی ماہرین مسودہ کی ٹاپ 500 میں شامل ہونے پر تنقید کرتے ہے کیونکہ یہاں کوئی مختص رینکینگ سسٹم کاذکر نہیں ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ کونسی بہترین و اعلی1- 500 رینک والی متعدد ڈسپلن کی یونیورسٹی بھارت آئےگی۔ان شبہات کے جواب میں مثبت ذہن والے تعلیمی ماہرین نے چند تجویزات پیش کی ہےجو مندرجہ ذیل ہیں ۔
1 ۔عوامی یونیور سٹی کے معیار ، سہولیات و تنخواہ کو خاطر خواہ اہمیت دی جائے۔اور انہیں بہتر کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جائے۔
2۔ عوامی یونیورسٹی کے طلباء کو بہترین کئیریر کے مواقع فراہم کیے جائے۔ 3۔نصاب اور درسیات کی تشکیل میں ملکی اہداف و مقاصد کی پاس رکھی جائے۔4۔یو-جی -سی کے ذریعے تشکیل ہونے والی اسٹانڈینگ کمیٹی پر بہت سی چیزیں انحصار کرتی ہے۔اس لیے ان میں زرخیز دماغ کی شمولیت ضروری ہیں۔5۔اعلی تعلیمی یونیورسٹی کی اسکرینیگ اور شنا خت کا عمل انتہائی شفاف اور معیاری ہونا چاہیے۔6۔ دو دہائی سےبیک برنرپر رکھے ہوئے اس عمل کو حقیقی شکل دینے کی ذمہ داری ملک کے ہر فرد پر عائد ہے جو تعلیم سے کسی بھی ذریعے سے جٹرا ہے۔ اس لیئے ضروری ہیکہ ہم اپنے سجھائو یو-جی-سی کو جلد ازجلد دے۔بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹییوٹ کے آمد سے نہ صرف اعلی تعلیمی معیار کو نئی وسعت عطا ہو گی بلکہ فیکلٹی اور اسٹوڈنٹس کو بھی نئے مواقع فراہم ہونگے۔ تبدیلی اور ٹرانسفورمیشن میں واضع فرق ہے۔ اس لیے اب تبدیلی نہیں بلکہ ٹرانسفورمیشن کی ضرورت ہے۔ اسطرح بہترین ذہن جو اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں یا انہیں بیرون ملک کی کشش ،تابنا ک مستقبل راغب کرتا ہےوہ طلبا ء اپنے ملک میں ہی اپنی تعلیمی پیاس کو بجھا سکتے ہیں اور بہتر مستقبل کے جانب گامزن ہوسکتے ہیں ۔ والدین کے لیے بھی راحت کی بات ہے۔ جو اخراجات اور جدائی دونوں کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔ بھارت کو مضبوط اور خودکفیل بنانے میں ایک قدم آگے لے جا سکتا ہےبشرط اس عمل کو صحیح سمت درکار ہو سکے۔