جنازے میں سینکڑوں علماء، ائمہ اور ذمہ داران کے علاوہ ہزاروں سوگواران کی شرکت
بھاگلپور(پریس ریلیز)ریشمی شہر بھاگلپور کی عظیم، روحانی اوربافیض شخصیت،استاذ الاساتذہ، جناب حافظ و قاری زین العابدین صاحب کا کل بعد نمازِ عشاء چمپانگر میں طویل علالت کے بعد 86 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ان کے انتقال کی خبر سے کئ اضلاع میں ماحول سوگوار ہو گیا۔آج بعد نمازِ جمعہ انکی نماز جنازہ چمپانگر جامع مسجد کے پاس ادا کی گئ اور محی الدین پور قبرستان میں انکی تدفین ہوئ جنازے میں بھاگلپور،بانکا گڈا،دمکا اور مونگیر کے سینکڑوں علماء ائمہ اور ذمہ داران مدارس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں متعلقین،شاگردان،اور جمعیت کے ارکان نے شرکت کی ان کے انتقال پر مدرسہ عربیہ احیاءالعلوم ناتھ نگر کے مہتمم اور ضلع جمعیت علماء کے جنرل سکریٹری مولانا اسجدناظری نظر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپنے خالہ زاد بھائی جناب حافظ زین العابدین صاحب کے انتقال پر ملال سے کافی صدمہ ہوا وہ کئی سالوں سے بیمار بستر علالت پر تھے اور آج انہوں نے بالآخر جان، جان آفریں کے سپرد کر دی، حافظ زین العابدین صاحب کی بزرگی، سادگی، مہمان نوازی، خلوص و للہیت، ایثار و قربانی اور جمعیت پر جان نثاری، مسلم تھی۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃاللہ علیہ کے سچے مرید تھے حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے بعد انہوں نے حضرت فداۓ ملت رح سے رجوع کیا اور ان کے حکم پر دودھانی، دمکا کے ایک مدرسہ و یتیم خانہ اسلامیہ میں بطور مہتمم دو دہائی تک کام کیا اس کے بعد مدرسہ اصلاح المسلمین ودارالبنات چمپانگر میں بطور مدرس اور بطور مہتمم کئ سال تک خدمت انجام دی، وہاں جب حالات ناسازگار ہو گۓ تو مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ سردار پور چمپانگر میں علالت سے قبل تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، انکی سادگی کا عالم یہ تھا کہ وہ بہت دنوں تک چمپانگر جامع مسجد میں بطور مؤذن خدمت انجام دیتے رہے، حضرت فداۓ ملت کی وفات کے بعد انہوں نے جمعیت علماء ہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم سے پیری مریدی کارشتہ جوڑے رکھا۔ حافظ صاحب حقیقتاً جمعیت کے فدائیوں میں سے تھے ملک کے طول و عرض میں جہاں کہیں بھی جمعیت کا پروگرام ہوتا وہ ضرور شرکت کرتے، جمعیت کے کال پر انہوں نے دوبارملک و ملت بچاؤ تحریک کے موقع پر ہمارے ساتھ دہلی جاکر اپنی گرفتاری دی ہے دہلی میں اس گرفتاری کے موقع پر ان کا جوش و ولولہ قابل دید ہی نہیں بلکہ برسوں تک یاد رکھا جانے والا تھا، جمعیت کی ہر آواز پر وہ لبیک کہتے اور تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے انہوں نے نانا جان مولانا اسحاق صاحب قاسمی سے خصوصی تربیت پائی تھی،حافظ صاحب اپنے خالو یعنی والد محترم مولانا قمرالہدی مفتاحی سے بھی برابر ملتے اور مختلف مشورے لیتے رہتے تھے، حافظ صاحب کا فیض دور دور تک پھیلا ہوا ہے آج ان کے سینکڑوں نامور شاگردان پورے ملک میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں لگے ہوئے ہیں، الحمدللہ ان کی تمام اولاد پڑھی لکھی ہوئی ہے اور دین کی خدمت بھی کررہی ہے۔ اللہ نے حافظ صاحب کو حج کا سنہرا موقع بھی عنایت فرمایا تھااور دل کی یہ آخری حسرت بھی پوری ہوگئ۔ الله انکی بال بال مغفرت فرمائے آمین
