ثناءاللہ ثناؔ دوگھروی
عطا عابدی کی ادبی کائنات میں بہ اعتبار اصناف نثری اور شعری ادب کے متعدد آفتاب و ماہتاب روشن نظر آتے ہیں، جس کی روشنی دور دراز تک پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔جہاں وہ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں وہیں وہ بہترین نثر نگار،تنقید نگار ،عمدہ صحافی بھی ہیں گویا ادب میں ان کی ہمہ جہت شخصیت سے انکار کی کوئی صورت نہیں۔بڑوں کے لئے عطا عابدی کی شاعری جہاں عصری حسیت سے عبارت ہے وہیںبچوں کے لئےبھی ان کی شاعری کواعتبار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو کائنات ادب میں وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی ادبی خدمات پر اب تک کئی طلبا پی ایچ ڈی بھی کرچکے ہیں، جو ادب کی دنیا میں ان کی مقبولیت کی مثال ہے۔عطاؔنے جہاں بڑوں کے لئے ادب کی تخلیق کی وہیں بچوں کی جانب بھی توجہ کی اور بچوں کے ادب کو بھی بہت کچھ عطاکیا ہے۔انہوںنے بچوں کے لئے بچوں کی ذہنی سطح پر جا کر کہانیا ں بھی تخلیق کی ہیں جو بڑی ہی سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کےلئےدلچسپی کا سامان بھی کرتی ہیں، وہیں بچوں کے لئے انہوں نے شاعری بھی کی ہے جن سے جہاں بچے ان کی نظموں پر پڑھ کر تفریح کرتے ہیں، وہیںان کی نظمیں بچوں کی بہتر نہج پردینی، سماجی، تعلیمی اور تہذیبی سطح پرتربیت کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں جوان کی نظموں کا خاصہ ہے۔بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب ’’ خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘‘اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔یہ کتاب۶۴صفحات پر مشتمل ہے، جو ایسا گلشن ہےجس میں مختلف نوعیت کی کل ۲۸ ؍نظموں کے گل بوٹے اپنی اپنی خوشبو بکھیر تے ہوئے ادب اطفال کی دنیا کومشکبار کیے ہوئے ہیں۔
کتاب کے پیش لفظ میں عطا عابدی نے ادب اطفال کے حوالے سےبہت ہی فکری گفتگو کی ہےاور ایسے ادبا و شعرا جن کے نزدیک ادب اطفال کی ذرا اہمیت نہیں ہےاور وہ انہیں دوسرے درجے کا ادب گردانتے ہیںیا ان ادباء اور شعرا ء کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے جن کی شب و روز محنتیں ادب اطفال کی تخلیق میں صرف ہو رہی ہیں،ان کی شعری تخلیقات کو محض تُک بندیو ں سے زیادہ کچھ نہیںسمجھتے ،ایسے لوگوںکو شاعر نے ہدف تنقید بنایا ہے اور اس ذہنیت یا رجحان کو بدلنے کاپیغام دیا ہے،کیونکہ شاعرکوا چھی طرح معلوم ہے کہ آج کے بچےہی کل کے ذمہ دارشہری ہو ںگے اور ان ہی کے کاندھوںپر ملک و قوم کا بار گراں ہوگا،انہیں بہترانداز میں سنبھالنے اور بہترین معاشرے کی تعمیر کرنے میں ان کا اہم کردار ہونا چاہئےاور یہ جبھی ممکن ہوپائے گا جب بچپن سےہی ان کی تعلیم و تربیت اسی اعلیٰ اخلاقی خطوط پر ہوگی اور اس کام کوادب اطفال بہترطو پر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عطا عابدی نے پیش لفظ میں اس حولے سے اپنا موقف یوں ظاہر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’…..لیکن جو لوگ ادب اطفال کو تک بندی یا دوسرے تیسرے درجے کا ادب کہتےہیںان کا یہ رویہ یقیناً ان کے تحفظ وتعصب کی پیداوار ہوتا ہے۔ ورنہ سچ تویہ ہے کہ ادب اطفال بچوںکی تعلیم و تربیت کے لئے لازمی و ناگزیر عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔یعنی بچوں کے ادب کی تخلیق غیر معمولی ذمہ دارانہ عمل ہے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ بچوں کے لئےلکھنا بچو ں کا کھیل نہیں ہے۔‘‘
(صفحہ:۷)
’خوشبو خوشبونظمیں اپنی‘ میں شامل نظمیں خود یہ بیان کررہی ہیں کہ نئی نسل میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے عطا عابدی کافی فکر مند ہیں اور اسی فکر نے عطاعابدی کے ا ندر ادب اطفال کے تعلق سے گہراشغف پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ادب اطفال کی جانب توجہ کی اور جو ادبا ءشعراء نہ تو خود ایسا کرتے ہیںاور جو دوسرےکرتے ہیں انہیں بھی نہیں گردانتے ایسےلوگوںکی انہوں نے سخت مذمت کی ہے اور ان کی کمزوریوں کا اظہاربھی کیا ہے۔ اس حوالے سے کتاب کے پیش لفظ بعنوان ’رودادچمن‘میں بھی انہوں نے اپنے افکارونظریات کا اس انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو اقتباس:
’’ہم اپنے بچوںکی تعلیم و تربیت کے لئے بجا طور پر فکرمند رہتے ہیں اورمطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کے لئےہرممکن کوششیں کرتے رہتے ہیںلیکن اجتماعی و ادبی سطح پر عموماً ہمارا یہ رویہ اس سنجیدگی کا مظہرنہیں ہوتا، جو ہوناچاہئے۔اگر ایسانہیں تو ہمارےسماجی و ادبی وسیلوںمیںبچوںکی اخلاقی تعلیم و تربیت ترجیحی حیثیت رکھتی، لیکن ایسا نہیں ہے۔بعض لوگ ادب میں سماج کےذکر سے ہی ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں تو بعضوں کو سماجی سروکاروں سےدلچسپی کارزیاں معلوم ہوتی ہے۔ دراصل وہ اپنی ذات سے باہر نکلنا نہیں چاہتے کہ وہاں کئی سخت مقام آگے ہیں۔‘‘
(ص:۶)
عطا عابدی بچوں کی نفسیات سےبخوبی واقفیت رکھتے ہیں،جس کی عکاسی ان کی نظموں میں ملتی ہے۔’خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘ میں خصوصیت کے ساتھ ایسی نظمیںشامل کی گئی ہیں، جو مختلف اوقات میں ملک و بیرون ملک کے جرائد و رسائل میں شائع ہوچکی ہیں اور جنہیں کافی پسندکیا گیا، تواس کی وجہ یہی ہے کہ ادب اطفال کے حوالہ سے عطا عابدی کے یہاں بچوں کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کےلیے بہترین تعلیم وتربیت کا پورا پورا اہتمام کیا گیاہے۔
مجموعہ میں شامل نظمیں’’ حمد، مناجات ،نعت،حسرت طیبہ،اے ماں،اودین کے مسافر،وصیت مادر،غرور کا انجام،پڑھ لکھ کر ہم نام کریں گے، محنت زندہ باد ‘‘وغیرہ اس اعتبارسے عطا عابدی کی بچوں کے لیے نمائندہ نظموں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
عطا عابدی نے جہاں بڑوں کے لئے حمد کہی ہے وہیں ادب اطفال کے گلشن کو بھی گلہائےحمد سے مشکبار و معطر کرنےکی کوشش کی ہے۔انہوںنے بچوںکے لئے بڑی عمدہ حمد کہی ہے جس میں خدا ئے تعالیٰ کی وحدانیت ،اس کی قدرت، اس کی انسانوں پر عنایات ، اس کےفضل و احسانات کو بیان کیا ہے، وہیں خدائے وحدہ لاشریک کی دیگر صفات عالیہ کو بھی انتہائی سادہ اور سلیس زبان میں بچوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ نظم میں کہی گئی باتیں بچوں کے فہم و ادراک تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکیںاور بچے کے دل و دماغ پر وہ باتیں نقش کرجائیں،ساتھ ہی بہتر انداز میں ان کی کردارسازی ہوسکے، وہ آگے چل کر صالح اقدار و معاشرت کے علمبردار بنیں اور اپنے دین کے تئیں ان کا عقیدہ پختہ سے پختہ ہر ہوجائے۔کتاب میں شامل حمد پانچ اشعار پرمشتمل ہے لیکن بہت ہی جامع ہے۔ملاحظہ ہوں چند اشعار:
جو ابتدا ہے جو انتہا ہےوہی خدا ہے وہی خدا ہے
نبیؐ نے جس کو خد ا کہا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
جو واحد وبے نیاز ٹھہراجو کافی و کارساز ٹھہرا
جونیت دل بھی جانتا ہے،وہی خدا ہے وہی خدا ہے
حمد کے بعد کتاب میں جو دوسری نظم شامل کی گئی ہے اس کا عنوان ہے ’ ’حمد و مناجات‘‘۔ دراصل اس نظم کا عنوان تو ’’حمد و مناجات‘‘ ضرور ہے لیکن پوری نظم میں حمد کی ہی فضا قائم ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کی کمپوزنگ کراتے وقت مناجاتی پہلو کمپوز ہونے سے رہ گیا ہے اور اگر نظم بعینہ یہی ہے تو اس کا عنوان صرف’ حمد‘یا ’اللہ تعالیٰ کے احسانات ‘ رکھنا میرے خیال سے نظم کی روح کے موافق ہوتا۔ بہر کیف اس نظم کی فطرت کچھ بھی ہو، یہ نظم بذات خود بچوں کے لئے بہت عمدہ اور سودمند ہے۔اس نظم میں بھی شاعر نے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، اس کے احسانات اور اس کے فضل کا تذکرہ کیا ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں اپنی تمام نعمتوں سے نوازا،یہ باتیں بچوںکے ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی گئی ہے، وہیں شاعر نے اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنے اور اس کی حمد و ثنا کرنے کی تلقین کی ہے۔ملاحظہ ہو:
اس نے ہماری خاطر پیارے رسول ؐ بھیجے
بہر ہدایت اس نے قرآں کے تحفے بخشے
تب جا کے ہم نے پائے یہ طور زندگی کے
حمد و ثنامیں اس کی ہم دن گزاریں اپنے
احسان یاد رکھیں ہم سب یہ اپنے رب کا
خالق وہی ہے سب کا رازق وہی ہے سب کا
(ص:۱۱)
’’ شمع یقین‘‘ بھی مختصر لیکن کافی سبق آموز نظم ہے ۔یہ نظم بھی اپنی نوعیت کی منفرد نظم ہے اور ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہےیعنی بچوں کو ہر حال میں ایک اللہ پر یقین اور اسی کی ذات پر بھروسہ رکھنے کی ترغیب و تحریک دی گئی ہے۔شاعر نے اس نظم میں بچوںکویہ پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں، خواہ ہر شخص آنکھیں پھر لے،اپنے بیگانے بن جائیں،اس حال میں بھی ایک اللہ کا سہارا ہی کافی ہے۔اس نظم کے سہارے شاعر نے بچوںکے ذہن میں یہ بات اچھی طرح سے بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ ساری دنیا بھی مخالف ہوجائے تو بھی وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہو۔اس لئے ہمیںاللہ کے سامنے ہی جھکنا چاہئے ، اسی سے لو لگانا چاہئے اور اسی سے مانگنا چاہئے جو کچھ مانگنا ہے،کیونکہ وہی سب سےبہتر ساتھی بھی ہے اور سب سے بڑھ کر عطا کرنے والابھی۔یہ پوری نظم ایمان و یقین کی شمع سے روشن نظر آتی ہے اورشاعر نے اس نظم کے ذریعہ اس روشنی کو بچوںتک پہنچانے کی خوبصورت کوشش کی ہے۔ملاحظہ ہو:
غم نہیں ٹوٹ جائیں سہارے سبھی،اک خدا کا سہاراہے کافی ہمیں
دین و دنیا کی دولت ہو قدموں تلے،کُن کا ادنیٰ اشارہ ہےکافی ہمیں
ناخدا اور پتوار کوئی نہیں اور کشتی ہماری ہے ٹوٹی ہوئی
ایسے عالم میں بھی مطمئن سے ہیں ہم ، صرف تیرا سہارا ہے کافی اہمیں
اردو شاعری کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اکابرین شعرائے کرام میں بہت سارے ،جنہوں نےادب اطفال میں بھی محنت کی خصوصاً شاعری کے حوالے سے ، انہوں نے بچوں کے لئے جہاں دیگر نوعیت کی نظمیں کہی ہیں وہیںدعابھی کہی ہے۔ اس موقع پر علامہ اقبال کو نہیں بھولا جاسکتا ہےکہ جن کی یہ دعائیہ نظم کا حصہ
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
تو اس قدر مشہور ومعروف اور مقبول ہوا کہ پڑھنے لکھنے والا شاید ہی کوئی بچہ ہو جس کی زبان پر ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘نہ ہو۔اسی طرح دیگر شعرائے کرام نے بھی بچوں کے لئے اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق دعائیہ اشعار کہے۔ عطا عابدی نے بھی بچوں کے لئے دعائیہ اشعار کہے ہیں اس نظم کا نام بھی ’ دعا‘ ہے۔یہ نظم بھی پیاری سی نظم ہے جس میں بچوں کو کئی دعائیں اپنی زبان میں یاد کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ نظم کل چھ اشعار پر مشتمل ہےلیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ بڑے بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیںکیونکہ بہتر اور بہتر سے بہتر پانے اور حاصل کرنے کی دعا تو سبھی کرتے ہیںپہلے شعر میں شاعر نے گلشن کا لفظ استعمال کرکے اس شعر کو آفاقی بنانے کی کوشش کی ہے۔اب قاری آزاد اس گلشن سے مراد کچھ بھی لے سکتا ہے۔ اگر قاری کی سوچ محدود دائرے میں سفرکرتی ہے تو وہ اس گلشن سے مراد گھر بھی لے سکتا ہےاور ادنیٰ تصوریہی ہوسکتا ہے لیکن اس سے آگے جس قدربڑھیں گے اس شعر میں وسعت پیدا ہوتی جاتی ہےاور اخیر میں اس گلشن سے مراد پوری دنیا لےسکتے ہیں ۔ عطاعابدی جیسے معتبر شاعرنے اس گلشن سے مراد اس دنیا کو ہی لیا ہوگااور پوری دنیا کے حوالے سے شاعر اللہ سے دعا گو ہے کہ ہمارے گلشن کو ایسا سہانا موسم عطا کرکہ ہر چہار جانب گلشن کی فضا خوشیوں کی خوشبو سے معطر ہواٹھے ۔ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہو اور سب لوگ خوش و خرم زندگی گزاریں ۔ اگلے شعر میں شاعر دعا کرتا ہے کہ اس چمن میں کہیں بھی نفرت کا گردو غبار نظر نہیں آئے یعنی نفرت اور بغض و عناد کا کہیں نام و نشان تک باقی نہیں رہے۔اخلاص کی ایسی بارش ہو کہ جس طرح بارش ہونے کے بعد فضابالکل شفاف ، تروتازہ اور خوشگوار معلوم ہوتی ہے، اسی طرح اس گلشن میں اخلاص کی ایسی بارش ہوکہ نفرت کاگردوغبار دھل جائے اور چمن اس سے بالکل صاف و شفاف ہوجائے ،سب لوگ آپس میں میں مل جل کر رہیں ۔ اس میں شاعر نے گلشن کی مناسبت سے خوشبو کا خزانہ اور خوشیوں کا ترانہ کااستعمال کیا ہے ٹھیک اسی طرح اگلے شعر میں نفرت کے گردو غبار کی مناسبت سے اخلاص کی بارش کی بہترین ترکیب استعمال کرکے اپنے کلام کو آفاقیت بخشنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اسی طرح اس نظم میں بہت سی دعائیں کی گئی ہیںمثلاً اپنے اندرجذبۂ شہادت کا پیدا ہونا،ایک خدا کے آگے سربہ سجودہونے ، راحق پر ہر حال میں چلنے او رآخرت کو سنوارنے جیسی دعائوں کے پھولوں سےیہ پوری نظم معطرہے۔ملاحظہ ہوں چند اشعار:
گلشن کو مرے یارب موسم وہ سہانا دے
خوشبو کا خزانہ دے خوشیوں کا ترانہ دے
نفرت کے تعصب کے ہیں گردو غبار ہرسو
اخلاص کی بارش دے الفت کا زمانہ دے
’دعا ‘ کے بعد جب ہم آگے کا سفر طے کرتے ہیں کہ تو کتاب میں دو نعتیں متواتر ملتی ہیں۔ بلاشبہ ان نعتوں کے لئے ایسی زمین کا انتخاب کیا گیا ہےکہ بچے بالکل آسانی سے انہیں یاد کرلیں گے۔ان نعتوں میں نبیؐآخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے حوالے سے ان کے اوصاف حمیدہ ، ان کی عظمت ، ان کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں،جہل و ضلالت کی تیرگی کس طرح چھٹ گئی اور وحدانیت کی روشنی کس طرح پھیل گئی جیسی اہم باتیں بچوں کو بتائی گئی ہیں۔ پیارے نبیؐ کے پیارے پیارے ساتھی اور ان کا ایمان ان کے اعمال حسنہ،ان کےزور بازو، کفر کی شکست اور توحید کا کلمہ کس طرح روشن ہوا، اللہ نے پیارے نبی ؐ کو دنیا میں بھیج کر انسانوں پر جو احسان کیا ، نبی نے کس خوبصورت انداز میں اپنے مشن کو فقط ۲۳ سالہ زندگی میں پورا کیا اور دنیا کی کایا پلٹ دی۔اللہ تعالی نے حضورﷺ کو کن انعامات سے نوازا ، ان کے ذریعہ معجزات کا ظہور وغیرہ کو شاعر نے بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے۔ان دونوں نعتوں سے بچے اپنے نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ کےمتعلق بہت سی باتیں ذہن نشیں کرسکتے ہیں۔دنوں عمدہ نعتیں ہیں جو اپنے دامن میں بہت کچھ رکھتی ہیں۔ہاں! ایک بات ہے کہ پہلی نعت میں جن لفظیات کا استعمال کیا گیا ہے ،ان لفظیات کو بچے اپنے بڑوں سےسیکھیں گے اور انہیں یاد کریں گے تب انہیں بات سمجھ میں آئے گی۔ اس نعت کو خود سے پڑھ کر بچے نہیں سمجھ سکتے ہیں، انہیں بڑوں کی محتاجی رہے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑوں کے لئے یہ نعت کہی گئی تھی لیکن بچو ں کو مزید کچھ نئے الفاط سکھانے کی غرض سے اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے تاکہ بچے کچھ آگے کاسفر بھی طے کریں اور کچھ نئے نئے الفاظ ان کے خزانے میں جمع ہوں۔ عطاعابدی بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیںاور بچے بھی کئی عمر کے ہوتے ہیں ہر عمر میں بچوں کے سیکھنے کا طریقہ بھی الگ الگ ہوا کرتا ہے۔بچے بہت کچھ دیکھ کر اور بہت کچھ اپنے بڑوں سےپوچھ کر سیکھتے ہیں۔اس نعت میں یہی کیفیت ہے کہ انہیں نئے الفاظ سیکھنے کے لئے بڑوں سے پوچھنا ہوگا اور نئے نئے الفاظ سے ان کی شناسائی ہوگی ۔
ہاں!دوسری نعت بہت ہی آسان لہجے میں ہے اور اسے بچے آسانی سے یاد کرسکتے ہیں۔ اس نعت میں لفظیات کی سطح بھی بچوں کی سطح کے عین موافق ہے۔ اس لیے اس میں بچوں کو ذرا بھی نہ تو یاد کرنے میں اور نہ ہی سمجھنے میں دشواری ہے او رنہ ہی کسی دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے۔دونوں نعتو ں سے ملاحظہ ہو مثال:
جہل وعصیاں کی بدلی تھی چھائی ہوئی ، تیرگی ،تیرگی ، تیرگی ہر طرف
لائے تشریف جس دم نبیؐ ،ہوگئی، روشنی، روشنی، روشنی، ہر طرف
چودہ سو سال پہلے کا ہر واقعہ، پیکرشمع ِدوراں میں یوں ڈھل گیا
زیست کی شاہراہوں پہ ہے ضوفشاں، آج بھی ، آج بھی،آج بھی ہر طرف
__
نبیؐ کا نام ہے عالی شان، نبیؐ کا کام ہے عالی شان
جگمگ جگمگ چندا کرتے جھلمل جھلمل تارے
رم جھم رم جھم رحمت برسے جیون پتھ اجیارے
جدھرجدھر سے وہ گزرے وہ گام ہے عالی شان
نبیؐ کا نام ہے عالی شان،نبیؐ کا کام ہے عالی شان
نغمۂ رمضان بھی بچوں کے حوالے سے بہت ہی عمدہ نظم کہی جائے گی جس میں بچوں کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئےحسین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ماہ رمضان کے فیوض وبرکات ،ہر لمحہ مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بے حساب بارش ،اس کا کرم،لطف و عنایات،مغفرت اور بخشش خاص طور سے اس ماہ میں عبادات میں جو لطف ملتا ہے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے ، ساتھ ہی سرکار دوعالم ﷺکی یادوں کی خوشبو سے یہ نظم معطر معلوم ہوتی ہے۔اس ماہ کو جو اللہ نے عظمت بخشی ہے وہ دوسرے ماہ کو میسر نہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے ماہ قرآن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کیونکہ اس مقدس کتاب کو اسی مبارک ماہ میں اللہ نے نازل کیا۔ اس لیے اس ماہ میں خوب قران کی تلاوت کا بھی لطف اٹھانا چاہئے ۔شاعر نے نظم ’ نغمۂ رمضان کےذریعہ بچوں کو ان اہم امور سے روشنا س کرانے کی کوشش کی ہے، تاکہ بچوں میں بھی رمضان المبارک کی قدر کا جذبہ بیدار ہوسکے ۔ اس طرح یہ عطا عابدی کی یہ نظم بھی بچوں کی بہتر خطوط پر تربیت کرنےمیں اہم کردار ادا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
ملاحظہ ہو:
ہے وقت طہارت کا ، قرآں کی تلاوت کا
ہے کیف عبادت میں جینے کا قرینہ ہے
’ حسرت طبیہ‘ اور ’حج مبارک‘ دونوں تقریباً تقریباً ایک ہی زمرے کی نظمیں ہیں ہاں تھوڑا سا فرق ہے۔ایک میں طیبہ کے زیارت کی حسرت ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اور دوسرے میں حج کے سفر میں اور حج کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی ہر لمحہ بارش اور نورانی و پرکیف فضااور عبادت وریاضت میں جو مخصوص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ان چیزوں کا بیان ہے۔
مکہ اور مدینہ سے ہر مسلمان کا روحانی لگائو ہے ۔ ہر مسلمان کے دل میں ان مقدس مقامات کی زیارت کی حسرت پلتی رہتی ہےاور ایک وقت آتا ہے کہ ان ہی میں سے بہت سےخوش قسمت افراد کی رسائی وہاں وہاں تک ہوجاتی ہے۔’حسرت طیبہ ‘ میں شاعر رب کائنات سے دعا گو ہےہمیں بھی مکہ مدینہ جیسے مقدس مقام و دیار پاک کی زیارت کا شرف حاصل ہو اورہم بھی وہاں کی نورانی فضا سے آنکھوں کو روشن کرسکیں اپنی تقدیر مجلیٰ کرسکیں اور وہاں کی بھینی بھینی خوشبوئوں سے روح کو تازگی بخش سکیں۔ یہ پوری نظم دیار پاک کی زیارت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا پر محیط ہے۔خاص طور سے حج جیسے اہم اور مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے شاعر اس بے سروسامانی کےعالم میں بھی بے چین نظر آتا ہے یہاں تک کہ ایک طرف اپنی بے سروسامانی کو رکھتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کو رکھتا ہے کہ اللہ اگرچاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہےاس بے سروسامانی کے عالم میں بھی حج کے راستے نکل سکتے ہیں ، انسان اس مبارک دیار کی زیارت کرکے اپنی تقدیر روشن کرسکتا ہےاوردنیا اور آخرت کی تمام تر بھلائیاں حاصل کرسکتا ہے۔ملاحظہ ہو:
حج کاہر سال آتا ہے موسم
ابر رحمت برستا ہے پیہم
ہائے افسوس اب تک مگر ہم
دل کے دل میں لیے ہیں ارادے
اب تو سویا نصیبہ جگا دے
ہم کو مکہ مدینہ دکھا دے
دوسری نظم ’’ حج مبارک‘‘بھی اپنی نوعیت کی اہم نظم ہے جس میں حج کے مناظر اور وہاں کی نورانی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ایسا لگتا ہے یہ نظم مذکورہ بالا چند مصرعوں کی تفسیر ہے ۔ یہاں حج کے مبارک موقع پر حجاج کرام کاگھر سے حج کی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے روانہ ہونااور اس روانگی سے حج تک کی منظر کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔خانہ کعبہ کےچہار جانب ہر لمحہ اللہم لبیک کی دلپذیر صدائیں بلند ہونا،پل پل رحمت خداوندی کا نزول ہونا کہ جہاںکی شام پر بھی سحر کو رشک آجائےوغیرہ کوحسین پیرائے میں کی گئی ہے۔شاعر نے اس نظم میں اسی مناسبت سے لفظیات کا بھی استعمال کیا ہے سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔دیکھئے چند اشعار:
نور تطہیر سے بھر گئی ہے فضا
صوت لبیک سے گونجتی ہےفضا
مشک و عنبر میں جیسے بسی ہے فضا
مرحبا مرحبا کہہ رہی ہے فضا
ایسے میں ہے تمہارا گزر حاجیو
ہو مبارک یہ حج کا سفر حاجیو
’’ اودین کے مسافر‘‘ بھی ایک اچھی نظم کہی جائے گی جو پوری طرح سے دینی رنگ میں رنگی ہوئی ہے اور بچوں کی تربیت میں اہم کردارادا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔جیسا کہ نظم کا نام ہی ’ اودین کے مسافر‘ اس لیے اس میں اسی طرح کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور بچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تم دین کے مسافر ہو اور دین کی راہ ہر حال میں خوشی خوشی اور حوصلے کے ساتھ آگے ہی آگے قدم بڑھاتے رہنا ہے ،خواہ اس راہ میں کس قدرمشکلیں کیوں نہ پیش آئیں، راستے پرخار کیوں نہ ملیں لیکن کسی حال میں قدم لغزش نہ آنے پائے ۔ تم خود دین کی راہ پر چلو اور دوسروں کو بھی زندگی کا پیغام دو اور ان لوگوں کو بھی جو اب تک خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں انہیں بیدار کرو ، انہیں حق کی باتیں بتائو، تمہاری زندگی ان کے لئے ایک نمونہ عمل بن جائے، انہیں حق کا پتہ دےاورتم خود اپنی زندگی اس انداز اور ان خطوط پر گزاروکہ تمہاری زندگی ان لوگوں کے مشعل راہ بن جائےاور طرف وحدت کے نغمے گونجنے لگیں اور ہر طرف وحدت کا اجالا ہوجائے اور کفر وشرک کی تیرگی ہر طرف سے ختم ہوجائے۔
ملاحظہ ہو:
جو کچھ تجھے خدا نے حکام ہیں سنائے
دنیا کو وہ بتا دے نقش دوئی مٹادے
سوتوں کو اب جگا دے حق کا پتہ بتا دے
مقصد پہ حرف تیرے ہرگز نہ آنے پائے
دیکھ! آشیان وحدت الحاد میں گیا گھر
اودین کے مسافر اودین کے مسافر
’وصیت مادر ‘بھی ماں کی وصیت کے حوالے سے اچھی نظم ہے۔ ایک مومنہ اور صالحہ ماں وقت آخراپنے بچوں کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لئے انہیں کیا کیا پندو نصائح کرسکتی ہے، وہ تمام باتیں اس نظم میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس نظم میںبھی ہر حال میں خواہ کتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ پیش آئیں،راہ حق پر چلنے ، رب کا شکر ادا کرنے،والدین کے لئے مغفرت کی دعا کرنے اور نماز کا پابند رہنےکی تلقین کی گئی ہے ، ساتھ ہی کتاب اللہ جو علم کا مخزن ہے،کو ہمیشہ پڑھنے،سب سے مل جل کر رہنے اور دنیا وآخرت کی بھلائی اور سرفرازی کے لئے کے لئے تمام تر اچھے اچھے کام کرنے کی تلقین ماں کی زبانی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ نظم بھی ایسی بحر میں ہے کہ بچوں کو آسانی سے یاد ہوجائے گی ، ساتھ ہی اس نظم میں بھی کئی عناصر موجود ہیں ، جو بچوں کی تربیت میں اہم رول ادا کرتے ہیں جو بچوں کے اندر دینی جذبہ پیدا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ملاحظہ ہو:
مرتے دم تک نمازیں نہ چھوٹیں
خیال اس کا رکھا کیجئے گا
علم و دانش کا مخزن یہی ہے
روز قرآں پڑھا کیجئے گا
دین و دنیا کی ہو سرفرازی
کام ایسا کیا کیجئے گا
اس کے بعد ایک نظم بعنوان’ اے ماں‘ جو والدہ مرحومہ کی یاد میں ہے۔یہ نظم بھی اسی نوعیت کی ہے۔ہاں فرق یہ ہے کہ ’وصیت مادر‘ میں ماں کی جانب سے وصیت ہے اور ’اے ماں‘ میں ماں کے انتقال کے بعد ماں کی یاد میں شاعر نے اس نظم کی تخلیق کی ہے اور اس کی سطح میں اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ اس نظم سے بچے فیض حاصل کریں اس لئے یہ نظم بچوں کے لئے عمدہ نظم ہے۔ اس میں بچے کی ماں سےحد درجہ محبت کا اظہار ملتا ہے۔ ماں کے انتقال کےبعد ایک بیٹے کو جب ماں کی یاد آتی ہے تو اس کے دل میں کیا کیا جذبات پیدا ہوتے ہیں، اس کا تذکرہ ہے،ساتھ ہی ماں جو بچوں کی پرورش و پرداخت میں دکھ مصیبتیں خوشی خوشی جھیلتی ہے اور جو اس راہ میں وہ بے مثال قربانیاں پیش کرتی ہے،شاعر ان چیزوں کو بچوں کے ذہن نشیں کرنا چاہتا ہے۔ ماں کی مامتا ، اس کی لطف و عنایات اور اس کی قربانیوں اور ماں کے دم سے گھر آنگن کا گلزار رہنا ، ان تمام باتوں کو اس نظم میں یاد کررہا ہے،ساتھ ہی کوئی بھی اولاد اپنی ماں کا قرض ، اس کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا ہے،اس سے شاعر بھی اپنی عاجزی کا اظہار کررہا ہے۔اس نظم کا اخیر شعرماں کی محبت اور اس کی شدید یادوں کے حوالے سے کافی جذباتی ہوگیا ہے اور اسے پڑھ کرہر اس اولاد کو جس کی ماں دنیا سے رخصت ہوچکی ہے،اپنی ماں کی یاد بے ساختہ آجاتی ہے ۔شاعر اپنی ماں کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔ بے چینی عالم یہ ہے کہ ہر ایک ماں میں شاعر اپنی ماں کو ڈھونڈرہا ہے۔اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’ ماں ‘ کے حوالے سے اردو ادب میں یوںتو بہت ساری نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اپنے اوائل سے لے کر اب تک بہت سے شعرا ئے کرام نے ماں کے حوالے سے نظم کہی ہے لیکن اپنے اوصاف کی بنیاد پر بلا شبہ ان میں چند اچھی نظموں میں عطا عابدی کی اس نظم کا بھی شمار کیا جائے گا۔دیکھئے اخیر شعر:
ڈھونڈتا ہے ہر ایک ماں میں تجھے
تیرا بیٹا تیرا عطاؔؔ اے ماں
’پیام عمل‘ اور ’ چند پند سودمند‘ دونوں تقریباً ایک ہی قبیل کی نظمیں ہیں۔ ہاں عنوان الگ الگ ہے لیکن چونکہ دونوںنظمیں دو وقتوں میں کہی گئی ہیں اور دونوں کی زمین الگ الگ ہےاور خیالات کے اظہار کا پیرایہ بھی الگ استعمال کیا گیا ہے لیکن جہاں روح کے اعتبار سے دونوں نظموں میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ دونوں نظمیں بچوں کو اچھے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب و تحریک دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔’ پیام عمل‘ میں خدا کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی گزارنے اور اجالے کا علمبردار بننےکا جہاں پیغام دیا گیا ہے وہیں منزل کی طلب میں اپنے آپ پر اتنا بھروسہ ہونا چاہئے کہ خود ہی رستہ، خود ہی منزل اور خود ہی رہنما بھی بن جائےاور انتھک محنت کرکے اپنی منزل حاصل کرلینے کا درس دیا گیا ہے وہیں ہر ہر عمل سے قرآن کے احکامات کا صدور ہونے کی بات بھی ملتی ہے۔اس نظم میں قرآن کی صدا اور مجاہد کی ادا جیسی تراکیب کا استعمال کرکے اس نظم کو معنوی اعتبار سے کافی وسعت عطا کی گئی ہے،ان تراکیب نے اس چھوٹی سی نظم کو معانی و مفاہیم کے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ملاحظہ ہو ایک شعر
ضرورت ساری دنیا کو ہے تیری رہنمائی کی
تو قرآں کی صدا ہوجا، مجاہد کی ادا ہوجا
نظم’ چند پند سودمند‘بھی بھلے ہی نام الگ ہو لیکن کام اس سے پہلے والی نظم کا ہی ہے،یعنی اس نظم میں بھی نیک اور صالح اعمال کے پیغامات دیے گئے ہیں،جس کا واحد مقصد ہے بچوں کی تربیت۔ پہلے بھی یہ بات کہی جاچکی ہے کہ بچوں کی نظموں یا دیگر تخلیق کا مقصد صرف اور صرف بچوں کے لئے تفریح کا سامان پیدا کرنا نہیں ہوتابلکہ اس کے ذریعہ بچوں کی تربیت بھی مقصود ہے اور یہی عنصر عطا عابدی کی بیشتر نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں بچوں کی تفریح سے زیادہ ان کی بہتراور صالح اقدار کےمطابق تربیت ملحوظ خاطر ہے۔اس لئے مذکورہ نظم کی بھی وہی فطرت ہے ۔ اس چھوٹی سی نظم میں وہ تمام باتیں بچوں کو بتائی گئی ہیں جن پر عمل کرکے وہ خود بھی اچھے انسان بن سکتے ہیں اور آگے چل کر ایک بہترین معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جیسے برائی سے بچنا، نیک راہوں پر چلنا،اچھی باتیں سننا اور اچھی باتیں کہنا،اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنااور اس پر عمل پیرا ہونا،حسد، کینہ ،تعصب سے بچنا اور ریا سے اپنے دل کو صاف رکھنا،سویرے جگنا ، ورزش کرنا، آج کا کام کل پر نہ ڈالنا،سارے کام کو وقت پر بحسن و خوبی انجام دینا،ایسا وعدہ نہیں کرنا جسے نبھانا مشکل ہو،کسی کو حقارت سے نہ دیکھنا،ہر شخص سے محبت سے ملنااورکبھی کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچاناوغیرہ جیسی اہم باتیں گویا رہنما خطوط بچوں کو بتائے گئے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہو کر دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارا جاسکتا ہے۔
’ علم ‘ بھی اچھی نظم ہے جس کے ذریعہ شاعر نے بچوںکو یہ بتایا ہے کہ علم کیا ہے،اس کی فطرت کیا ہے، یہ دنیامیںکیا کیا کارنامے انجام دیتا ہے، جو آدمی علم حاصل کرتا ہے اسے علم پستی سے نکال کرکس بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے شاعر نے اس نظم میں علم کی عظمت اور اس کی افادیت سے بچوں کوروشناس کرانے کی بہترین کوشش کی ہے، تاکہ بچے علم حاصل کرنے میں رغبت اور دلچسپی کا مظاہرہ کریں اور وہ بھی علم حاصل کرکے اوراسے پھیلا کروہ بلندی حاصل کرسکیں جو اس دولت کے ذریعہ اوروں نے حاصل کی۔
علم کاحصول کئی طرح سے کیا جاتا ہے،جس میں ایک ہے کتاب کے ذریعہ علم حاصل کرنا۔کتاب بھی کئی طرح کی ہوتی ہے،ایک وہ کتاب ہوتی ہے جو کسی کو صالح اقدار کی جانب سیدھے راستے پر لگاتی ہے، وہیں کچھ ایسی کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن کے مطالعے سے بسا اوقات آدمی گمراہ بھی ہوجاتا ہے۔اس لئےاچھی کتابوں کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر شاعر نے اس نظم کا عنوان ’اچھی کتاب‘ رکھا ہے اور اچھی کتاب کے بہت سے فائدہ بچوں کو بتائے ہیں۔اس نظم میں شاعر نے جہاں اچھی کتابوں کی اہمیت و افادیت سے بچوںکو باخبر کیا ہے، وہیں انہیں اچھی کتابوں کےمطالعے کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ملاحظہ ہو دو شعر:
ہر قدم پر نیک و بد کا فرق بتلاتی ہے یہ
ہر قدم کو سیدھی سچی راہ دکھلاتی ہے یہ
دین و دنیا کا ہمیشہ ہم کو دیتی ہے سبق
روشنی ہی روشنی دیتا ہے اس کا ہر ورق
اس نظم کے اندر ایک اور بات پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اس نظم کی ابتدا بالکل بچوں کے انداز اور اس کی سطح کے لحاظ سے ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے نظم آگے بڑھتی ہے اس میں کچھ ایسے الفاظ اور تراکیب سےسامنا ہوتا ہے کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ باتیں بڑوں کے لئے کہیں گئی ہیں اور اخیر میں تو بالکل بڑوں کے لئے لگتی ہیں۔وہ لفظیات بچوں کی سمجھ سے باہر کی باتیں ہیںانہیں سمجھنے کے لئے بڑوں کا سہارا لینا پڑے گا،تب جا کر انہیں باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ملاحظہ ہو:
اس کے جلوے سے ہویدا معرفت کی دولتیں
نور سے اس کے ہوا انسان کا عرفان ہمیں
اس کے دم ہم پہ واضح عقدۂ مرگ و حیات
اس کے دم ہم پہ روشن ہے جہان کائنات
اس نظم میں ، مقام معتبر،جلوے، ہویدا، معرفت،عقدۂ مرگ و حیات،روشن ہے جہان کائنات ،جیسے الفاظ اور تراکیب بچوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔بچے یہاں تک استاد کے ذریعہ ہی پہنچ سکتے ہیں، تب ان پر اس نظم کے اخیر کی باتیں روشن ہوں گی۔اس طرح اس نظم سے بچے اور بڑے دونوں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ معنوی اعتبار سے یہ نظم عطا عابدی کی بہترین نظم کہی جائے گی ،جس میں اچھی کتابوں کی افادیت کواچھے انداز میں شاعر نے کئی مثالیں دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اس نظم سے بچے اچھی کتابوں کے حوالے سے بہت کچھ خود سیکھ سکتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ اگر گھر کے سیانے یا استاد توجہ دیں توانہیں سکھائی جاسکتی ہیں۔
اردو زبان آج پوری دنیا میں بولی اورسمجھی جاتی ہے شاید ہی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں اردو والے نہ ہوں ،دنیا میں اکثر ممالک میں اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں ۔گویا کہ’ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘والی بات آج ہم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اردو کی یہ مقبولیت اردو زبان کی شیرینی اور اس کی فطرت کی وجہ سے ہےکہ آج کہیں کوئی محفل کا انعقاد ہو یا کوئی خطیب یا مقرر تقریر کرے تو اپنی باتوں کو موثر بنانے کے لئے وہ کہیں نہ کہیں اردو زبان کے اشعار استعمال کرتا ہے ، یہ اردو کی خوبی کی وجہ سے ہے۔اردو زبان کے حوالے سے بھی بہت سے شعرا نے نظمیں کہی ہیں، ان میں ایک عطا عابدی بھی ہیں ۔ اس نظم میں شاعر نے اردو زبان کی شیرینی ، اس کی مقبولیت ، اس کی فطرت ، اس کی معنویت اور اس کی گہرائی و گیرائی کے حوالے سے چھوٹی نظم میں بہت سی باتیں کہہ دی ہیں۔بچوں کو اردو زبان کے تعلق سے یہ نظم محض چھ اشعار میں بہت کچھ بتا تی ہے۔اپنی معنویت اور اسلوب کے لحاظ سے یہ نظم بڑی اہمیت کی حامل ہے۔بچے اسے آسانی سے یاد بھی کرلیں گے اور اپنی زبان کے متعلق بہت کچھ معلومات بھی حاصل کرلیں گے۔
اس نظم کی ابتداہی طنز سے ہوتی ہے لیکن یہ طنز یونہی نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ اس شعر کے ذریعہ شاعر نے غیر ت دلانے اور اردو والوں کوشدت کے ساتھ جھنجھوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اردو زبان اپنی زبان ہے اور صرف یہ زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے کہ کیونکہ اردو زبان کےدامن میں تہذیبی جمالیات کے جواہر پارے ٹنکے ہوئے ہیںجس کا حسن لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے اور جو اس کا ہوجاتا ہے اس تہذیبی جواہر پاروں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے اور اس کی زندگی میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیںلیکن شاعر اتنا کچھ ہونے کے باوجود افسوس کا اظہار کررہا ہے کہ اپنے ہی گھر میں آج اردو کہاں ہے ،یعنی اردو نہیں ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
اپنی تہذیب ہے اور اپنی زباں ہے اردو
اپنے گھر میں مگر افسوس کہاں ہے اردو
شاعری میں کبھی شاعر آپ بیتی کو جگ بیتی اور کبھی جگ بیتی کو آپ بیتی بناتا ہے ۔ چونکہ شاعری میں بات پردے میں کہی جاتی ہے اور وہی شاعری اچھی ،موثر اور معتبر کہلاتی ہے۔یعنی کبھی شاعر بظاہر زمانے کی بات کرتا ہوانظر آتا ہے لیکن اس کے پردے میں شاعر اپنے ذاتی کرب کا اظہار کرتا ہے اس میں شاعر کی اپنی شخصیت پوشیدہ ہوتی ہے، وہ شاعرکی ذاتی بات ہوتی ہےٹھیک اسی طرح کبھی شاعر بظاہر اپنی بات کرتا ہوا نظرآتا ہے یعنی ظاہری طورسے وہ شاعر کی ذاتی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے پردے میں شاعر زمانے کی بات کرتا ہے۔یہاں اس نظم کے مذکورہ بالا شعر میں شاعر نے اسی صنعت کا استعمال کرتے ہوئے بظاہر اپنی بات کی ہےلیکن پس پردہ شاعر زمانے کی بات کررہا ہے،یعنی زمانے کی بات پرشاعر نے اپنی ذاتی بات کا پردہ ڈال دیا ہے۔
مذکورہ بالا شعر کی زد میں وہ تمام لوگ آسکتے ہیں جو اردو والے ہیں ، ارد وکی کھاتے پیتے ہیں، اردو کے فروغ کے نام پر بڑے بڑے مشاعرے ، سیمینار اور کانفرنسیں کرواتے ہیں اور اردو کی ترقی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن اس حوالے سے اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں یعنی ان کے گھر میں ہی اردو نہیں ہوتی ہے،ان کے بچے اردو زبان سے نابلد نظر آتےہیں۔ایسے افراد اردو زبان کی تعلیم اپنے بچوں کو دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جبکہ خود وہ اسی اردو کی وجہ سے بلندیوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ایسے تمام لوگوں اور اس طرح کے رحجان پر اس شعر کے ذریعہ کاری ضرب لگانے کی کوشش کی ہےلیکن اس شعر کا مقصد محض طنز نہیں ، بلکہ اس پنپتے ہوئےغلط رجحان کی اصلاح اصل مقصد ہے۔
اسی نظم کے ایک شعر میں شاعر نے پریمؔ اور کرشنؔ جیسے الفاط کا استعمال کرکے صرف اس شعر کو ہی نہیں بلکہ اس پوری نظم کو معنویت کا سمندر عطا کردیا ہے۔دونوں الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے ان دونوں الفاظ کے ذریعہ کھیلنے اور اپنے کلام کو ایک نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یوں تو بظاہر اس شعر میں پریم چند اور کرشن چند کی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن اس کے معانی اور مفاہیم پر اگر غور کریں اور ذرا اور پرت ہٹانے کی کوشش کریں تو نئے نئے معانی ومفاہیم سامنے آتے جائیں گے۔اگر پریمؔ اور کرشنؔ کو لفظی اعتبار سے اپنے اصل معنی میں لے لیا جائے تو شعر کی معنویت اور گہرائی میں اور بھی اضافہ ہوتا چلاجاتا ہےاور شعر کے حسن کو چار چاند لگ جاتا ہےکہ ہندو عقائد کے مطابق پریم اور کرشن کا کیا رشتہ رہا ہے وہ تمام باتیں اس شعر میں پوشیدہ ہیں۔اس طرح یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ شعر کو معنوی گہرائی عطا کرنے کے لئے عطا عابدی لفظوں سے بسا اوقات خوب کھیلتے ہیںاور اس فن میں انہیں کمال حاصل ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
آج بھی پریم ؔ کے اور کرشن ؔ کے افسانے ہیں
آج بھی وقت کی جمہوری زباں ہے اردو
مجموعی طور سے اس نظم میں اردو کی افادیت اور اس کی شا ن و عظمت، اس کی جادو بیانی،اس کی دلکشی،کا شاعر نے حسین پیرایے میں تذکرہ کیا ہے جس سے بچے اردو کے حوالے سے بہت کچھ معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے ہر ہر شعر میں کافی گہرائی اور وسعت پائی جاتی ہے۔ شاعر نے اس چھوٹی سی نظم میں جامع لفظیات کا استعمال کرکے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی بہترین سعی کی ہے۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ آج بھی اگر اردو زندہ ہے تواپنی فطرت، اپنی توانائی، اپنی دلکشی و محبوبیت اور جاذبیت کے سبب اپنے بل بوتے پر زندہ ہے ۔ آج بھی اردو ہر بزم کی رونق نظر آتی ہے اور محفل شعرو شخن کی جان اردو زبان ہی ہے کہ اردو کے الفاظ کا استعمال کیے بغیر باتوں میں جان پیدا نہیں ہوپاتی۔دیکھئے ایک شعر:
آج بھی بزم کی رونق ہے عطا اس کے سبب
محفل شعر کی اس وقت بھی جاں ہے اردو
نظم ’ہم کو آگے جانا ہے‘عزم اور جواں حوصلےسے عبارت ہے۔اس نظم میں ہر بند کے اخیر میں جو ٹیپ کاشعر ہے جس میں اپنی منزل کے حصول کے لئے آگے ہی آگے قدم بڑھاتے رہنا ہے یعنی مسلسل سرگرم سفر رہنے کا پیغام دیا گیا ہے، کہ اس کے بعد ہی منزل کا حصول ممکن ہے۔یہ نظم چار بند پر مشتمل ہے۔اس میں شاعر نے بچوں کے حوصلے کو بڑھانے کی ہر اور اس کے عزائم بلند رکھنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ہر حال میں خواہ راستے کس قدر دشوار گزار کیوں نہ ہوں، منزل کے حصول کے راستے میں بڑی بڑی پریشانیاں حائل کیوں نہ ہوںلیکن ان تمام پریشانیوں کو جھیلتے او رپار کرتے ہوئےاگر کوئی دیوار بھی اس راہ میں آئے تو اسے ڈھاتے ہوئے آگے بڑھ جانا ہے تب منزل حاصل ہوگی۔نظم میں منزل کے حصول کے لئے مزید راستے بتائے ہیں مثلاً علم حاصل کرنا اور علم حاصل کرکے دنیا اور آخرت کو سنوارنا کہ اصل منزل تو آخرت کی ہی ہے اور سب سے بڑی کامیابی بھی آخرت کی ہے اس لیے شاعر نے بچوں کوعلم کی اہمیت و افادیت بھی بتائی ہے ، ساتھ ہی علم حاصل کرکے اور اعمال صالحہ کے ذریعہ امن وآشتی کا پیامبر بن کراور اپنے روشن ماضی سےسبق لیتے ہوئے آگے کا سفر طے کرنا ہے اور ہرحال میں اپنی منزل کو حاصل کرنا ہے ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظم بھی چھوٹی بحر میں بچوں کے لئے بڑی عمدہ نظم ہے جس میں بچوں کے اندرمنزل حاصل کرنے کے لئے بلند مقاصد اور عزائم کےجذبات کو ابھارنے اور ان عناصر کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ جب یہ بچے بڑے ہوجائیں تو کبھی وہ مشکل راہوں سے گھبرا کر قدم روک نہ لیں بلکہ ان کا سفر حصول منزل تک جاری رہے۔ملاحظہ ہو:
رستہ ہے پرخار تو کیا
چلنا ہے دشوار تو کیا
آگے ہے دیوار تو کیا
دیواروں کو ڈھانا ہے
ہم کو آگے جانا ہے
اپنی منزل پانا ہے
’ننھے مکرم کے لئے دعائیں‘ بھی بچوںاپنی نوعیت کی منفرد نظم ہے جس میں مکرمؔ کے لئے ڈھیر ساری دعائیں کی گئی ہیں۔اس نظم میں دراصل مکرمؔ کو علامتی طو رپر استعمال کرتے ہو ئےہر بچے کے لئے دعائیں کی گئی ہیںیا بہ الفاظ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر ماں باپ کے دل سے اپنے بچوں کی ترقی ، خیر اور تمام تر بھلائی کے لئے یہی دعائیں نکلتی ہیںکہ ان کا بچہ بھی خوب ترقی کرے، نیک اور صالح بنے اور زمانے میں نام روشن کرے۔ اس نظم میں بھی وہی انداز اختیار کیا گیا ہےجہاںجز سے کل مراد لیا جاتا ہےیا آپ بیتی کو جگ بیتی بنادیا جاتا ہے۔اس فن میں عطا عابدی مہارت رکھتے ہیں ۔ گزشتہ کئی نظموں میں بھی یہ انداز اختیار کیاگیا ہے۔اس نظم میں شاعرنے مکرمؔ کو ردیف کے طو رپر استعمال کیا ہے جس سے لگتا ہے کہ تمام دعائیں مکرمؔ کے لئے ہیںلیکن پس پردہ قوم کے ہر بچے کو مکرم ؔ مان کر اس کے لئے دعائیں کی گئی ہیں۔نظم کی ابتد ہےاللہ کے نام سے ۔ سب سے پہلے بچے کو اللہ اللہ پڑھنے کی، اللہ کا نام لینے اور اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی دعادی گئی ہے ۔ اللہ اللہ پڑھنے سے مراد بہت کچھ ہے۔بقیہ اس کے بعد والے تمام اشعار کوایک طرح سے ا سی مصرعے کی شرح سمجھ سکتے ہیںجیسے، رب کے آگےجھکنا،اسی سے ڈرنا،حق کی باتیں کہنا،حق کی راہ پر چلنا،صبح سویرے اٹھنا،اللہ کا شکر ادا کرنا،خیر کا پیکربنے رہنا، شر اور اہل شر سے بچے رہنے کی جہاں دعائیں کی گئی ہیںوہیں ہر قدم پر منزل کا لطف حاصل کرتے ہوئے ترقی کی تمام تر منزلیں طے کر نے، خود خوش رہنے دوسروں کو خوش رکھنے اور اس طرح دوسرے کےدل کی دنیا پر جہانگیری کرنے،انسان اور انسانیت کا علمبردار بننے ، دکھے دلوں کا سہارا بننے ، کسی کے زخم پر مرہم رکھنے ، اپنے اعمال اور کردار کے لحاظ سے پھول کی مانند جہاں میں خوشبو میں بکھیرنے کی دعائیں کی گئی ہیںاور اخیر شعر میں تمام اشعار کا نچوڑپیش کردیا گیا ہے یعنی بچے کے اندر تمام اچھی اچھی عادتیںپیدا ہوجائیں ، جس سے وہ سب کے دلوں پر راج کرے۔یہ تمام دعائیں کسی کے لئے بھی بہترین عطیہ ہیںکہ یہ تمام باتیں جس کے اندر پیدا ہوجائیں وہ سچا پکا انسان اور مسلمان بنے گا اور انسانیت کی شمع اس کے دم سے روشن رہے گی۔
نظم ’لوری نما ‘بھی چھوٹی سی لیکن اچھی نظم ہےلیکن یہ نظم بچوں سے زیادہ بچوں کی ماں بہنوں کے لئے ہے۔ نظم گھر کی خواتین میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کا مادہ رکھتی ہے، کیونکہ جب بچہ چھوٹا اور گود میں ہوتا ہے یاگود کی دنیا سے باہر بھی آتا ہے یعنی چلنے پھرنے کے لائق بنتا ہے تب بھی ماں ، بہنیں ، دادی ، پھوپھی، چچی وغیرہ اسے سوتے وقت لوریاں سناکر سلاتی ہیں اور بچہ ان لوریوں کو سنتے سنتے سو جاتا ہے۔یہ روز کا ہی معمول ہوتا ہے۔ان میں کچھ لوریاں تو یونہی بکواس بھی ہوتی ہیں لیکن کچھ لوریاں بڑی معنی خیز ہوتی ہیں، ان سے بچے بولنا اور چلنا بھی سیکھتے ہیں یعنی بچے پر ان کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ایسے ہی لوریوںمیں اس نظم کا شمار کیا جائے گا۔ملاحظہ ہو:
تاتا تھیا چلنا سیکھے، سیکھے تاتا تھیا
تا تا تھیا تاتا تھیا، خوش ہیں آپی بھیا!
خوش ہیں آپی ،بھیا، بابو! سولے اب تو سولے
سولے اب تو سولے
دادا دادا بولے بابو دادا دادا بولے
نظم’ غرور کا انجام‘ بھی بچوںکی تربیت اور بچوں میں صالح اقدار پیدا کرنے اور اس کی تربیت کے حوالے سے بھی اہمیت و افادیت سےعبارت ہے۔یہ نظم اصل میں منظوم کہانی ہے جس میں بچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ تکبر اور غرور بہت ہی بری چیز ہےکہ جب کسی انسان میں تکبر اور غرورکی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں ،اس کا کیا ہی برا انجام ہوتا ہے۔غرور کے سبب ایک بھلا اور اچھا خاصا انسان بھی اپنی تمام تربھلائیاں کھو دیتا ہے اور اس کا شمار آخر کار برے لوگوں میں ہوجاتا ہے اور وہی شخص جواپنے بہتراعمال ، صالح اقدار ،تواضع اور انکساری کے سبب کے جو سب کے دلوں پر راج کرتا ہے ، تکبر آتے ہی وہ ساری چیزیں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ بلندیوں سے پستی میں آجاتا ہے، جہاں اس کی کل تک سب لوگ عزت کرتے تھے تکبر آجانے کے بعد اب وہ سب کی نگاہوں میں ذلیل ہوجاتا ہے۔ اسی بات کو حامدؔ نام کے ایک بچہ کو علامت کے طو پر استعمال کرتے ہوئے اس کہانی کا تانابانا تیار کیا گیا ہےاور اس کی پوری کہانی بیان کی گئی ہےکہ وہی حامد جو ہونہار اورمحنتی بچہ تھاوہ سب کی عزت کرتا تھا اور سب اس کی عزت کرتے تھے اس وقت تک جب تک وہ خلوص کا پیکر بنا ہوا تھا لیکن جب اس کے اندر غرور پیدا ہوا تو اس کا کیا انجام ہوا اور وہی ساتھی اس سے کس قدر نفرت کرنے لگے ، اس بات کو شاعر نے بہترانداز میں بچوں کو ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی ہے اور نظم کے اخیر میں تربیت کے پیش نظر بچوں کو شدت کے ساتھ تاکید کی ہے کہ خبردار تم ایسی برائی میں مبتلا نہ ہونااور حامد جیسا پہلے نیک بچہ بن کر رہتا تھا ،اسی طرح تم بھی نیک بن کرزندگی گزارنا اور اچھے انسان بننا،متکبر حامد بننے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر ایسا کرو گے تو تمہارا انجام بھی متکبر حامد جیسا ہی ہوگا اور یہ اچھی چیز نہیں ہے۔اخیر شعر میں شاعر نے غرور کو اس آگ سے تشبیہ دی ہے جو جسم و جان کو جلا کر خاک کردیتا ہے جیسے آگ سوکھے درختوں کو جلا کر خاک کردیتی ہے۔
ملاحظہ ہو:
بچو! فقط کہانی ہرگز اسے نہ جانو
یہ بات قیمتی ہے دل سے تم اس کو مانو
بھولے سے بھی نہ ہرگزدل میں غرور آئے
کردار بھی ہوایسا سب کو سرور آئے
کرتا ہے خاک جسم و جاں کو غرور ایسے
سوکھےہوئے شجرکو کھاجائے آگ جیسے
نظم ’بولو کون بہادر ہے؟‘ہے بھی بچوں کے لئے بہت عمدہ نظم ہے جس کا بچوں کی تربیت میں اہم رول نظرآتا ہے۔اس نظم میں شاعر نےراست طور سےبچوں سے مخاطب ہو کرسوالیہ انداز اختیار کیا ہے اور بہادری کے حوالےسے بچوں کے ذہن میں اپنی باتیں اچھی طرح اتارنے کی کوشش کی ہے۔یہ مسلم امر ہے کہ جب کوئی بات اپنے مخاطب کو اچھی طرح سمجھانی ہوتی ہے ا ور اس کے ذہن میں اس بات کو بہتر طور پر نقش کرانا مقصود ہوتا ہے تو اس حوالے سے پہلے اس سے سوال کیا جاتا ہے تاکہ اس کا ذہن اس بات کو سننے کے لئے پوری طرح یکسوئی کے ساتھ آمادہ ہوجائے اس کے بعد جو کوئی بات کہی جاتی ہےتو وہ بات اس کے لئے زیادہ موثر ہوتی ہے اور اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔شاعر نےاس نظم میں یہی انداز اختیار کیا ہے۔شاعر نے بچوں سے بار بار سوال کیا اور سوال ہی سوال میں ان تمام سوالوں کا جواب بھی دیا ہے۔بچے جب اپنےذہن پر ذرا سا زور دیں گے تو انہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آخر بہادر کون ہے۔شاعرنے باتوں باتوں میں بچوں کو یہ بات بتائی ہے کہ جو غصہ کو پی جائے، جو اپنی خطائوں پر نادم ہو،جو مظلوموں کی مدد کرے ، اسے ظلم سے بچائے،جن کے اخلاق اچھے ہوں اورہمیشہ سچ کہنا اور سچ سننا پسند کرےاور جو گرتوں کو سنبھالا دے دراصل وہی لوگ بہادر ہوتے ہیں۔ملاحظہ ہو:
شیروں کو جو مار گرائے
بڑے بڑوں سے جو ٹکرائے
یا وہ جو ہر اک عالم میں
غصہ آئے تو پی جائے
بولو! کون بہادر ہے
بولو! کون بہادر ہے
بچے سیکھنے سے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں اور زندگی کے ہر معاملے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں،خواہ کتابوں کے ذریعہ ہو ،اپنے سے بڑوں کو دیکھ کر ، ان سے پوچھ کر یاکھیل کھیل میں تفریحی طور پر ہو ، ان کا سیکھنے کے مرحلے سے گزرنا مسلسل لگا رہتا ہے۔بچوں کی طبیعت فطرتاً متجسس ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ہرچیز کا گہرائی سے مطالعہ کرتےہیں بھلے اس کی حقیقت تک وہ نہ پہنچ پائیں لیکن اپنے ذہن پر زور ضرور ڈالتے ہیں۔ان ہی چیزوں میں سےایک پہیلی بھی ہے جس میں بچے کافی دلچسپی لیتے ہیں اور بسا اوقات کو گھر میں اپنے بڑوں سےضد کرکے پہیلی سنتے اوراس کے جواب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ۔ اس جواب کی تلاش میں حتی الامکان وہ اپنے دماغ پر زور ڈالتے ہیں اور اگر جواب نہیں تلاش کرپاتے ہیں تو پھر بڑوں سے اس کا جواب پوچھتے ہیں اور جواب معلوم ہونے پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ہے۔اس سے بچوں کا ذہنی ورزش ہوجاتا ہے اور اس کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بچوں کی اس نفسیات سے عطا عابدی بخوبی واقف ہیں اس لیے انہو ںنے پہیلیوں میں ذرا اور محنت کی اوراسے نظم کی شکل میں ’ پہیلیوں کی محفل‘ کے عنوان سے بچوں کے لئے پیش کیا ہے، اس سے جہاں بچے پہیلی کا لطف حاصل کرتے ہیں وہیں نظم کا بھی مزہ لیتے ہیں۔
نظم’پہیلیوں کی محفل‘ میں کل دس پہیلیاں شامل کی گئی ہیں۔ ساری کی ساری بڑی عمدہ اور دلچسپ پہیلیاں شامل ہیں، جس میں بچوں کی سطح کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور اندازبھی ایسا اختیار کیا گیا ہےکہ بچے کی دلچسپی برقرار رہے، ساتھ ہی بچے کاذہنی ورزش بھی ہوجائےاور بچے کچھ سیکھ بھی سکیں۔اس پہلی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بچوں کواپنی جانب مائل کرنے کے لئے ڈرامائی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسےنانی اماں گھر کے تمام بچوں کو بلا کر انہیں پہیلیاں سنا رہی ہیں اور پہیلیوں کی محفل ختم ہونے کے بعد پھرسب کو پڑھنے کے لئے بھیج دیتی ہیں۔یہ انداز نظم کو آفاقیت بخشتا ہے۔ان پہیلیوں میں جہاں بچوں کی تفریح کرائی گئی ہے،وہیں باتوں باتوں میں بڑی کارآمد، علمی اور تاریخی باتیں بتائی گئی ہیں،جن سے بچے علم خاص طور سے دینی تعلیم سے بھی آگاہ ہو ں گےاور تاریخی واقعات سے کھیل کھیل میں واقفیت حاصل کریں گے۔ملاحظہ ہو:
وہ کیا؟جس کا ایک محافظ ہو تو اچھا رہتا ہے
کئی محافظ ہوجائیں تو ہر دم خطرہ رہتا ہے
پانی ، شربت ، جوس وغیرہ ہم سب پیتےرہتے ہیں
لیکن کیا ہے جس کو صرف بہادر ہی پی سکتے ہیں
نعمتیں وہ کون سی ہی ہیں جو ہم کو تم کو رب نے دیں
لیکن ان سے بابا ا ٓدم، ماں حوا محروم رہیں
نظم کے اخیر میں تمام پہیلیوں کا نظم میں ہی جواب بھی بتا دیا گیا ہے اور اختتامیہ بھی بہت ہی عمدہ انداز میں کیاگیا ہے جس سے اس نظم کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔ بچے ان پہیلیوں سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
’پیارے بچوں کی پیاری تمنائیں‘ بھی بچوں کے شوق کے مطابق کہی گئی چھوٹی سی نظم ہے لیکن غزل کے فارمیٹ میں ہے اور جس میں ردیف کے طور پرلفظ ’ ہم‘کا استعمال کیا گیا ہے جس کے سبب نظم عنوان کے عین مطابق ہوگئی ہے اور تمام تمنائیں شاعر بچوں کی زبانی کہہ گیا ہے۔ اگر لفظ ’ ہم ‘ کی جگہ پر کسی اور ردیف کا استعمال کیا جاتا تو شاید یہ باتیں پیدا نہیں ہو پاتیں۔اس نظم کی ابتدا ہی ایسے شعر سے ہوتی ہے جس میں تمنائوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہےجسے شاعر نے ایک شعر میں گویا کوزے میں بند کردیا ہے۔شعر دیکھئے:
گو اڑاتے ہیں ابھی دھولیں ہم
چاہتے ہیں کہ فلک چھولیں ہم
اس شعر میں دھول اڑانا جو بچے کی فطرت ہوتی ہے وہ کھیل کھیل میں خوب دھول اڑاتے ہیں، مٹی میں اٹے رہتے ہیں لیکن ان کی آرزوئیں اور تمنائیں بہت ہی زیادہ ہوتی ہیں،ان کے اندرآسمان چھونے کی خواہش موجزن ہوتی ہے کبھی ان کی خواہش ہوتی ہے کہ چاند پر چلے جائیں ،کبھی وہ آسمان پر ٹمٹماتے ہوئےستاروں کو دیکھ کر ستاروں کی دنیا میں سفر کرنے کےآرزومند ہوجاتے ہیں۔گویا کہ بچوں کے خواہشات کی دنیا بہت ہی وسیع ہوتی ہے،شاعر نے بچوں کی اس نفسیات اور خواہش کو اس شعر میں پیش کیا ہے۔ آگے پوری نظم اسی طرح کی خواہشات سے عبارت ہے جس میں پھولوںکی طرح خوشبو بکھیرنے ،بزرگوں کی دعائیں لینے،پڑھ لکھ کر اچھابننے ،ہمیشہ سبق یاد رکھنےاور سب سے بڑھ کر بچوں کو بچپن سے اس قدر پیار ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ اسی طرح بچّے رہیں اور جھولے جھولتےہوئے زندگی کا لطف لیتے رہیں۔ یہ بچوں کی نفسیات ہے ہربچے کو جھولا جھولنے سے بہت شوق ہوتا ہے، جسے اس نظم میں بچوں کی دلچسپی کے لئے پیش کیا گیا ہے ، ساتھ ہی بچوںکی اونچی خواہشیں اور اونچی اڑان کے جذبہ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ دراصل اس نظم کا پہلا اور اخیر شعرہی اس نظم کی مقبولیت اوراسے زندگی عطاکرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ ان دونوں اشعارمیں تو عزائم ، حوصلے اور تمنائوں کی کافی اونچی اڑان دیکھنےکو ملتی ہے۔بقیہ تمام اشعار بھی اچھے ہیں لیکن ان ہی دو اشعار کی توضیح معلوم ہوتے ہیں۔پہلے شعر میں آسمان چھونے کی بات کی جارہی ہےتو اخیر والے شعر میں تقدیر کی تعمیر کے منصب کی بات دیکھنے کو ملتی ہے۔اقبال نے اس خیال کو دوسرے انداز میں پیش کیا ہے، ان کے مطابق انسان فطرتاً نہ تو نوری ہے اور نہ ہی ناری ، جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج سامنے آئیں گے، ان کے یہاں نوری یا ناری کا دارومدار ہی عمل پر ہے ۔ علامہ کی یہ بات قرآن کے پیغام کے بالکل قریب تر ہے۔ ملاحظہ ہو:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہی وجہ ہے کہ عطا عابدی نے بھی اس نظم کے ذریعہ بچوں کو اپنا وہ انتہائی اہم یاد دلایا ہےکہ اپنی تقدیر کو بنانا اور سنوارنا ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس پیاری سی نظم کے ذریعہ عطا عابدی نے بچوں کے اندر اعمال صالحہ کے جذبہ کو بیدار کیاہے کہ تاکہ بچے اپنے کردار کو بہتر بنا کر دونوں جہان کی زندگی کو سنوار کر اپنا بلند منصب حاصل کرلیں۔ملاحظہ ہو:
گو اڑاتے ہیں ابھی دھولیں ہم
چاہتے ہیں کہ فلک چھولیں ہم
اپنی تقدیر کے ہم ہیں معمار
اپنا منصب کبھی نہ بھولیں ہم
عطا عابدی کا ادب اطفال محض ادب برائے ادب یا ادب برائے تفریح نہیں ہے۔ جیسے عطا عابدی کےیہاں بڑوں کا ادب ، ادب برائے زندگی ہے ۔ خاص کر ان کی غزلوں اور نظموں میں زندگی بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ زندگی اور صالح اقدار کا شاعر ہے،ان کے یہاں زندگی کو بہتر اور مثبت انداز میں برتنے کا فن دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان کی پوری شاعری عصری حسیت سے عبارت ہے۔ ٹھیک اسی طرح بچوں کا ادب بھی ہے۔ انہوں نے بڑوں سے کہیں زیادہ بچوں کے ادب پر اس جانب توجہ دی ہےاور بچوں کے اندر صالح اقدار اوربہترین عادات واطوار پیدا کرنے، انہیں ہر اچھے اچھے کاموں کا خوگر بنانے ، علم حاصل کرنے وغیرہ پر کافی زور دیا ہے۔چونکہ آج کے بچے ہی قوم کا مستقبل ہیںانہی کے کاندھوں پر قوم کا بار گراں آنے والا ہے اس لئے بہتر خطوط پر ان کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ آگے چل کر صالح اقدار کے پاسدار اور اچھے شہری بن کر خود کو سنواریں اور ملک و قوم کی بہتر خدمات انجام دے سکیں۔اس لئے عطا عابدی نے بچوں کے ادب کے حوالے سے کافی حساسیت اور سنجیدگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں میں بہتر سے بہترکر گزرنے کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔
نظم ’ ایک اولوالعزم بچے کا احساس‘ بھی اسی طرح کے احساسات و جذبات سے عبارت ہےجیسی کہ ’پیارے بچوں کی پیاری تمنائیں ‘ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس نظم کے ہر بند کے اخیر میں ’’میں حال کا مژدہ ہوں۔میں رونق فردا ہوں‘‘شعر کو دہرایا گیا ہے۔ پوری نظم ایسا معلوم ہوتا ہے اسی ایک شعر کی تفصیل ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنی تمام باتیں ایک اولو العزم بچے کی زبانی کہلوائی ہیں۔شاعر نے ایک بچے کو علامت کے طو رپر استعمال کرتے ہوئے پس پردہ پوری قوم کے بچوں کی بات کی ہے۔ دراصل بچوں کے اندر کسی کام میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کام کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں بچہ چاہتا ہے کہ ہم دوسرے لڑکے سے اچھا کریں ،اسی لئے شاعر نے اس نظم میں یہ انداز بیان اختیار کیا ہے،کیونکہ یہ انداز کافی موثر ہے۔بچوں پر اس کے جلد اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نظم میں بھی دیگر نظموں کی طرح علم حاصل کرنےاورہر اچھے اچھے کام کرنے کے جذبے کو بچے کے اندر ابھارا گیا ہے۔ملاحظہ ہو:
پڑھ لکھ کے بڑا بننا
مقصد بھی ہے کاوش بھی
انسان کی خدمت کا
جذبہ بھی ہے خواہش بھی
میں نیک عزائم سے
دل اپنا سجاتا ہوں
میں حال کا مژدہ ہوں
میں رونق فردا ہوں
اس کے بعد ایک نظم ہے ’ ’ پڑھ لکھ کر ہم نام کریں گے‘ ‘ وہ بھی بچوں کے حوالے سے کافی معیاری اور اصلاحی نظم کہی جائے گی ۔ جیسا عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس نظم میں شاعر نے کس طرح کی باتیں کی ہوں گی۔ اس نظم میں بھی گزشتہ دو تین نظموں کی طرح ہی بچوں کو حصول علم کا خوگر بنانے اور ان کے اندربہترین عادات واطوار او راخلاق پیدا کرنے پر کافی زور دیا گیا ہے۔شاعر نے قوم کے بچوںکو اچھے اعمال کی ہر طرح ترغیب دی ہے۔اسی قبیل کی نظمیں ’ ایک طالب علم کے معمولات و عزائم‘ اور ’محنت زندہ باد‘بھی ہیں ۔ ان نظموں میں بھی شاعر نے بچوں کے اندرعلم حاصل کرنے پر زور دیا ہے او ریہاں بھی وہی موثرانداز اختیار کیاگیا ہے ۔یہ نظم بھی بچے کی زبان سے ادا کی گئی ہے اور ان کے اندر علم حاصل کرنے ، علم سے محبت کرنے اور علم حاصل کرکے بہتر انسان بننے کا درس دیا گیا ہے اور ہر بند کے اخیر میں ’’ میں علم کا شیدا ہوں۔ میں علم کا جویاہوں‘ شعر کو بند کے شعر طور پر دہرایاگیا ہے ۔ گویا اس نظم میں بھی شاعر کی تمام تر توجہ بچوں میں علم حاصل کرنے کا خالص جذبہ پیدا کرنے پر دی گئی ہے۔
’ محنت زندہ باد‘کتاب میں شامل اخیر نظم ہے ۔ یہ بھی اپنی نوعیت کی بہترین نظم کہی جائے گی ۔ اس نظم میں شاعر نے بچوں کے اندر محنت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے انہیں محنت کا عادی بنانےکی کوشش کی ہے۔اس لیے کہ بغیر محنت کے کچھ بھی نہیں ہے کسی بھی شعبے میں بہتر نتائج کے لئے محنت لازمی چیز ہے ۔اس لیے بچوں کو محنتی بنانے کی غرض سے شاعر نےیہ نظم کہی ہے تاکہ بچےشروع سے ہی محنت کے عادی بن جائیں اور محنت کے ذریعہ اپنی منزل اور اپنا مقام و مرتبہ حاصل کرلیں۔اس نظم میں ہر تین مصرعے کے بعد ’’ محنت زندہ باد محنت زندہ باد‘‘ کو ٹیپ کے مصرعے کے طو ر پر دہرایا ہےاور بقیہ تین تین مصرعوں میں محنت کی بہترین نتائج اور ثمرات سے بچوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔’محنت زندہ باد محنت زندہ باد‘ کے بعد جو پہلا مصرع ہے اس میں شاعر نے ’ ہم‘ کا لفظ استعمال کیا ہےیعنی بچے کی زبانی ہی یہ نظم بھی کہی جارہی ہے تاکہ اس کے بار بار تکرار سے بچوں کے دل و دماغ پر محنت کے بہترنتائج نقش ہوسکیں۔جب انسان مسلسل محنت کرتا ہےتو اس کے لئے آگے لئے آگے کی راہیں کھلتی جاتی ہیں اور ایک دن اسے اس کی منزل مل جاتی ہے۔شاعر نے آگے محنت کو وجہ خوشی اور اطمینان قرار دیا ہے ساتھ ہی محنت کو دنیا کی شان بتایا ہےکہ آج جو دنیا اس قدر ترقی کرچکی ہے اور دنیا میںآسائشیں نظر آرہی ہیں ہمیں آج کی دنیا میں جوسہولیات میسر ہیں وہ محنت کے سبب ہی تو ہیں،آج کاانسان چاندستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اس کے پیچھے محنت ہی تو ہے ، محنت کے سبب ہی یہ سب کچھ ممکن ہوسکا۔اگر انسان محنت نہیں کرتا تو یہ سب کچھ کہاں ممکن ہوپاتا۔ محنت سے انسان ویران زمین کو بھی گلشن میں تبدیل کردیتا ہے،محنت سے ہی انسان دھن دولت بھی حاصل کرتا ہے۔غرض یہ کہ ہرترقی کےپیچھے محنت کا کارنامہ نظر آتا ہے۔اس لئے شاعر نے اس نظم میںبچوں کو بار بار محنت کی یاد دہانی کرائی ہےتاکہ آج کے بچے ابھی سے محنت کرنے کے عادی ہوجائیںاور دنیا کو اپنی محنت سے جنت نشاں بناڈالیں۔
ملاحظہ ہو:
محنت ہم اپنائیں گے
آگے بڑھتے جائیں گے
اک دن منزل پائیں گے
محنت زندہ باد، محنت زندہ باد
اس طرح اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ‘ خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘ کی نظمیں جہاں بچوں کو تفریح کراتی ہیں وہیں بچوں میں محبت پیدا کرنے ، ان میں اعلیٰ اخلاق کےجذبہ کو ابھارنے ، بچوں کے اندر اعلیٰ درجے کا عزم و حوصلہ پیدا کرنے کے افکار و نظریات پر مبنی ہیں، جہاں نظموں کے ذریعہ بچوںکو پختہ یقین ، مسلسل عمل اورمحبت جو فاتح عالم کہلاتی ہے،کے فائدے بتائے گئے ہیں اور ان چیزوں کو ہتھیار بنا کر زندگی میں آگے کا سفر طے کرنے اور منزل حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
چونکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے شاعر و ادیب کو خود کو بچوں کی سطح پر لے جانا ہوتا ہے اور بچوں کی سوچ اور ان کی نفسیات کے مطابق ادب کی تخلیق کرنی ہوتی ہے ،اس نکتہ سے عطا عابدی بخوبی واقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر نظم میں یہ چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔انہوں نے بچوں کا لحاظ رکھتے ہوئے آسان اور سہل زبان کا استعمال کیا ہے، تاکہ مطالعے کے دوران بچے بندھے رہیں اور ان کی دلچسپی برقرار رہے۔ ان کے اندر اکتاہٹ نہ محسوس ہو ۔ہاں! کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جو چھوٹے بچے خود پڑھ کر نہیں سمجھ سکتے، انہیں بڑوں کی ضرورت محسوس ہوگی جس کا ذکر میں اسی مضمون میں اس سے پیشتر کیا ہے۔شاعر نے کہیں کہیں ہندی کے الفاظ کا بھی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے جس اس شعر میں حسن پیدا ہوگی ہے۔زبان و بیان پر عطا عابدی کو قدرت حاصل ہے، جس کا استعمال وہ موقع کی مناسبت سے کرتے ہیں۔ کہیں کمپوزنگ کی غلطی رہ گئی ہے جسے آئندہ دور کیا جانا چاہئےکیونکہ لفظ الٹ پلٹ ہوجانے سے صحیح پڑھنے میں نہیں بن رہا ہے۔
بچوں کے لئے کہی گئی کوئی بھی نظم عطا عابدی کی طویل نظم نہیں ہے تمام نظمیں چھوٹی اور کئی تو بہت ہی چھوٹی ہیں جس سے بچے ایک بار کتاب ہاتھ میں لیتے ہیں اورآسانی سے اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں ۔ عطا ؔ نے اس بات کا بھی کما حقہ لحاظ رکھا ہے کہ کوئی نظم بڑی نہ ہو کہ بچے پڑھتے پڑھتے اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔چند نظموں کو چھوڑ کر بیشتر نظمیں چھوٹی بحروں میں ہی کہی گئی ہیں تاکہ بچے کو یاد کرنےمیں آسانی ہو اور بچے اسے جلد زبانی یاد کرلیں۔بہت ہی نظمیں ایسی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے ہی کئی اشعار بچے کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔یہ عطا کی نظموں کی بڑی خوبی ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے بھی اگر عطا عابدی کی ان نظموں کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے بچوں کےاندربہترتہذیب کی پرورش و پرداخت کرنے کے مقصد سے بہترین موضوعات انتخاب کیا ہے۔تمام کی تمام نظمیں اپنے موضوع کے اعتبار سے بہتر ہیں ۔ شاعر نے ان موضوعات کا انتخاب خاص طور سے کیا ہے جن سے بچے کا بہتر مستقبل تعمیر ہو۔’ نغمہ رمضان،حسرت طیبہ،حج مبارک،اودین کے مسافر، اے ماں،پیام عمل ،بولو کون بہادرہے،پیارے بچوں کی پیاری تمنائیں،ایک اولوالعزم بچے کا احساس،پڑھ لکھ کر ہم نام کریں گے،ایک طالب علم کے معمولات وعزائم،وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو بچے کے اندر اپنے دین سے پیار کرنے، دینی باتوں پر عمل کرنے،نیز بہترین عادات واطوار پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، ساتھ ہی بچے کو اعلیٰ اخلاق و کردار کا پیکر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
’’خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘‘کا سرورق بھی بہت دیدہ زیب ہے جس پر حد نگاہ تک پھول کھلے ہوئے ہیںجوکتاب کی خوبصورتی میں جہاں چار چاند لگاتے ہیںوہیں بچوں کے لئے عجیب کشش رکھتے ہیں۔یہ بھی ایک نفسیات ہے کہ بچوں کو عام طور سے ویسی کتابیں زیادہ پسندآتی ہیں جن کےسرورق پر اچھی تصویرہواور وہ دیدہ زیب ہو ۔ہم لوگوں کو بھی اپنے بچپن میں ایسا ہی محسوس ہوتا تھا، کہ جو کتاب خوبصورت ہوتی تھی اسےعزیزرکھتے تھےاو ریہی تمام بچوں کی نفسیات ہے اس لیےاس کتاب میں اس بات کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔کتاب کو ’’اردو کے مرحوم رسائل ماہنامہ مسرت،پٹنہ، ماہنامہ کلیاں، لکھنؤ،ماہنامہ ٹافی،لکھنؤ، اور ماہنامہ کھلونا ،نئی دہلی، کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ اس انتساب میں بھی انوکھا پن پایا جاتا ہے۔ چونکہ بچوں کے یہ رسائل اپنے عہد میں بڑے مقبول تھے اور بچے بہت ہی چائو سے ان رسائل کا مطالعہ کرتے تھے،خود اس کتاب کے شاعر عطا عابدی کے یہ تمام کے تمام بیحد پسندیہ رسائل تھے کہ وہ جیب خرچ سے پیسے بچا کر ان رسائل کو خریدتے تھے لیکن وقت اور حالات کی ستم ظریفی اور دیگر کئی اسباب سے ان مقبول اور بچوں کے پسندیدہ رسائل کا سورج غروب ہوگیااور یہ شائع ہونا بند ہوگئے اس لیے انہیں اس کتاب میں ’مرحوم رسائل‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔کتاب کی پشت پر خود عطا عابدی کی تحریر ہے جو بچوںکی بہتر نہج پر تعلیم و تربیت اوراس عہد میں جب کہ ہر طرف اپنے اپنے بچوکو صرف پیشہ ورانہ تعلیم دلوانے یا ڈاکٹراور انجینئر بنانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہو،اس عہد میں نصاب سازوںپر خاص طور پر کیا کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح کا نصاب تیار کریں کہ جہاں بچے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کریں وہیںان کی بہتر تربیت بھی ہو ہے اوربچوںمیںا علیٰ اخلاق پیدا کرنے کی فکر سےعبارت ہو۔
امید کی جاتی ہے کہ سرپرست حضرات اپنے بچوں کو اردو زبان سے جوڑنے کے لیے اس کتاب سے ضرور استفادہ کریں گے،تاکہ’ خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘دور تک اپنی خوشبو بکھیرے۔