پٹنہ :(اے بی این ) قانون ساز کونسل میں منگل کو محکمہ تعلیم کے بجٹ بر سرکار کے جواب کے دوران وزیر تعلیم پروفیسر چندر شیکھر و حزب اقتدار کے مابین مذہبی کتابوں کو لیکر نوک جھونک ہوئی۔ صدر نشیں دیویش چندر ٹھاکر نے حالات خراب ہوتا دیکھ کر وزیر تعلیم سمیت سرکار کے دیگر محکمہ کے جواب کو سدن کے میز پر رکھنے کا حکم صادر کردیا اور ساتھ ہی سدن کی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کردی۔
اطلاع کے مطابق کھانے کے وقفہ کے بعد تعلیمی بجٹ پر وزیر کے جواب کے پہلے سے ہی جے ڈی یو کے نیرج کمار گیتا ‘ قرآن ‘ وبائبل لے کر ہاؤس میں موجود تھے اور اپنے خطاب کے دوران انہوں نے مذہبی کتابوں میں درج دلائل پر بحث کرکے سب کے لئے تعلیم کی اہمیت اور ریاستی سرکار کی تعلیم کے شعبے میں کئے گئے کاموں اور کوشش پر زور دیا گفتگو کی۔ وہیں وزیر تعلیم نے بد عنوانی سے پاک تقرری پالیسی لانے کی بات کی اور پھر سماج وادی لیڈروں کے تعلیم و سماج سدھار کو لیکر کئے گئے کوششوں کی چرچا کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ تعلیم کو کہاں لے جانا ہے آپ کہیں تو نیتی اور ہم کہیں تو سیاست۔
اس پر نیرج کمار نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین کی چرچا کریں کہ رامائن ‘ مہابھارت اور قرآن میں پھنسے رہے۔ ہم مذہبی کتابوں کی لڑائی نہیں لڑ رہے ہیں ۔پڑھائی و مواقع کو لیکر لڑ رہے ہیں۔
وہیں آر جے ڈی کے سنیل کمار سنگھ نے کہا کہ آپس میں جھگڑا ہو یہ ٹھیک نہیں ہے موضوع پر ہی وزیر تعلیم بولیں۔ ہم لوگ وزیر تعلیم کو سننے کے لئے بیٹھے ہیں۔ ان کا جو اتنا گیا ہے وہ بہار کو کیسے آگے لے جانا چاہتے ہیں ۔
صدر نشیں دیویش چندر ٹھاکر نے وزیر تعلیم کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ کی خیالات کی عزت کرتا ہوں۔ آج جس موضوع پر ایوان میں موجودگی ہے بات اسی پر رہنی چاہیے لیکن وزیر موصوف نے بولنے دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے راجندر گپتا کی باتیں کارروائی کا حصہ بنے گی ۔ اس پر صدر نشیں نے کہا کہ حزب مخالف کے کسی بھی رکن نے اس موضوع بر بات نہیں کی ہے۔ بہار کے تعلیم پر گفتگو کیا ہے آپ اس پر جواب دیجئے ۔ وزیر نے کہا کہ یہ تعلیم سے ہی جڑی ہوئی باتیں ہیں ۔ ہم بچوں کو کیسے سمجھائیں گے۔اس کے بعد آزاد رکن مہیشور سنگھ نے کہا کہ 1810ء کا رام چرت مانس کا پورا حصہ ہے اسے بھی پڑھنا چاہیے۔
تبھی وزیر تعلیم نے گیتا پریس کی جانب سے چھاپی ہوئی رام چرت مانس کے جملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں ردو بدل ہوگیا ہے ۔ اس کے بعد حزب اقتدار کی جانب سے مہشور سنگھ نے دوبارہ وزیر تعلیم کو ٹوکا اور کہا کہ ہم لوگوں کے زمانے میں برہمن اور دیگر ذاتیاں استاد کے پیر چھوتے تھے یہ کون سی کتاب دکھا رہے ہیں 1810 والی کتاب کیوں نہیں لے کر آئے ۔ پوری کتاب تو لے کر آتے ہی نہیں۔ان سب باتوں کو لیکر کونسل میں افرا تفری کا ماحول رہا۔
