اذان:توحید و رسالت کی گواہی اور عملی اطاعت

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
9849099228
اللہ تعالیٰ سورہ طہ میں ارشاد فرمایا : ’’اقم الصلوٰۃ لذکری ‘‘(میری یاد کیلئے نماز قائم کرو) اسلام اجتماعیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے،لہذا مسجدیں ملت اسلامیہ کیلئے اجتماعی مراکز کی حیثیت اپنے اندر رکھتی ہیں،آنحضور ﷺ نے بھی اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے، چنانچہ ہجرت کے بعد مدینے طیبہ میں آپ نے سب سے پہلے مسجد کا قیام عمل میں لایا تا کہ مسلمان اپنے مرکز سے چمٹے رہیں۔ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں نماز با جماعت کے لئے لوگوں کو بلانے کا کوئی معقول انتظام نہیںتھا، اہل ایمان وقت کا اندازہ کر کے مسجد میں آتے اور نماز ادا کرتے لیکن حضرت محمد ﷺ کو یہ چیز پسند نہیں تھی، آپ نے ارادہ فرمایا کہ کچھ لوگوں کو اس کام پر لگادیا جائے کہ ہر نماز کے موقع پر وہ مسلمانوں کے گھروں تک جائیںاور نماز کیلئے اطلاع کردیں لیکن اس میں آپ ﷺ نے زحمت کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر عمل نہیں کروایا چنانچہ آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر مشورہ فرمایا تو مختلف مشورے آپ کی خدمت میں پیش فرمائے گئے،کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں علامت کے طور پر علم استادہ کردیا جائے تا کہ لوگ اسے دیکھ کر نماز کیلئے حاضر ہوتے رہیں۔ آقائے نامدار ﷺ کو یہ تجویز نا پسند ہوئی۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں عبادت کیلئے بلائے جانے کا جو طریقہ رائج تھا اسے بھی آنحضور کی خدمت اقدس میں پیش کیاگیا لیکن رسالت مآب ﷺ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔ آخر کار حضرت عمرؓ کی رائے آپ کو پسند آئی اور حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ اذاں دیں کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی۔ روایات میں اور کتب سیرت میں اذان کی ابتداء کب سے ہوئی اس سلسلہ میں ۱ ہجری یا ۲ ہجری کا ذکرہمیں ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ۱ ہجری کے اختتام یا ۲ ہجری کے آغاز میں اذان کا موجودہ طریقہ ایجاد ہوا ہو یا پھر شروع شروع میں حضرت بلالؓ گلیوں میں پکارتے تھے کہ ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ یہ ۱ ہجری میں ہوتا تھا ہوگا پھر بعد میں نبی ﷺ کے حکم پر ہی ۲ ہجری سے مروجہ اذان دی جانے لگی۔ واللہ اعلم
اذان کیسے شروع ہوئی اس سلسلہ میں علامہ مفتی شریف الحق امجدی دامت برکاتہم یوں تحریر فرماتے ہیںکہ:
اس خصوص میں سب سے صحیح وہ روایت ہے جسے ابوداود اور ترمذی و ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ? نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا۔ تا کہ لوگوں کو نماز کیلئے اکٹھا کرنے کیلئے بجایا جائے۔ تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے پاس گھوم رہا ہے۔ انہوں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے اسے بیچوگے؟اس نے پوچھا تم اسے کیا کرو گے، انہوں نے کہا ہم اس سے لوگوں کو نمازکیلئے بلائیں گے،اس نے کہا۔ کیا میں اس سے عمدہ بات نہ بتادوں، انہوںنے کہا ضرور بتائو۔ تو اس نے کہا یوں کہو (اور اس نے پوری اذان بتائی)۔
حضرت زید کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے جو خواب میں دیکھا تھا عرض کردیا۔ ارشاد فرمایا : یہ خواب حق ہے،بلال کے ساتھ کھڑے ہوجائو اور جو خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائو۔ وہ اذان دیں اس لئے کہ ان کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے اب میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوگیا، میں انہیں بتاتا وہ اذاں دیتے۔ اسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر سنا تو اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نکلے یا رسول اللہ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی وہی دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’فللہ الحمد ‘‘(حوالہ نزھۃ القاری جلد سوم کتاب لاذان صفحہ نمبر ۹۴ تا۹۵)
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ غیر نبی کے خواب کو حجت شرعی کی حیثیت میں کیسے قبول کیاجائے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جب حضرت عبداللہ? بن زید نے اپنا خواب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے اسی وقت اپنی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا فرمائے کہ ’’انہ لرویاحق ‘‘یہ خواب حق ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنا خواب نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں بیان فرمایا تو محمد ﷺ کی برسر حق زبان مبارک و مطہر سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ ’’فللّٰہ الحمد‘‘ علاوہ ازیں علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی دامت برکاتہم نے نزھ? القادری (شرح صحیح بخاری ) میں بحوالہ ’’عمدۃ القاری صفحہ نمبر ۱۰۷ یوں رقمطراز ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا :’’ سبقک بذالک الوحی ‘‘ تمہارے کہنے سے پہلے وحی آچکی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد،یہ خواب حق ہے،وحی تھا اور وحی حجت ہے۔ (نزہ? القاری جلد سوم صفحہ ۹۶)۔ اس کے علاوہ ایک اور بات اس سلسلہ کی ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب آپ نے اذان کے کلمات خواب دیکھنے والوں سے سنے تو اسے پسند فرماتے ہوئے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ فامر بلال یعنی بلال? کو حکم دیاگیا۔ ظاہر بات ہے کہ شرعی حجت کیلئے نبی ﷺ کا حکم ہی کافی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس بات کا حکم دیاہے کہ آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اذان کے کلمات
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں
’’اشہدان محمداً رسول اللہ‘‘میںشہادت دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہے
’’اشہدان محمداً رسول اللہ‘‘ میںشہادت دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہے
’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ آئو نماز کی طرف۔’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ آئو نماز کی طرف
’’حی علی الفلاح‘‘ آئو کامیابی کی طرف۔ ’’حی علی الفلاح‘‘ آئو کامیابی کی طرف
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
البتہ صبح(فجر) کی اذاں میں ایک جملے کا اضافہ ہے جسے دوبار کہنا ہے۔ صبح کی اذاں میں حی علی الفلاح،حی علی الفلاح کے بعد اور اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الٰہ الا اللہ سے پہلے دو مرتبہ الصلوۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے ) کہنا چاہئے۔ حضرت ابو مخدودرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہو ںنے نبی ﷺ کی خدمت میں غرص کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اذان کی سنت سکھایئے‘‘ تو آپ نے انہیں اذان سکھائی اور فرمایا اگر صبح کی اذان ہو تو کہو ’’الصلوۃ خیر من النوم،الصلوۃ خیر من النوم،اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الٰہ الا اللہ (احمد،ابو دائود )
نوٹ : امام ابو حنیفہ امام سفیان ثوریؒ ابن المبارک اور کوفہ کے فقہاء کا اسی پر عمل ہے (سبل اسلام ج ا ص ۸۵،اقتباس فقہ السنہ )
اسی طرح اقامت کیلئے بھی طریقہ متعین کردیا گیا،البتہ اس میں دو باتیں آتی ہیں۔ مولانا محترم محمد عاصم الحدادؒ نے اپنی مشہور کتاب فقہ السنہ میں یوں تحریر فرمایا :
اقامت کے کلمات کا ذکر حدیث میں دو طریقوں سے آیا ہے۔
(۱) اللہ اکبر کو چار مرتبہ اور آخری لا الٰہ الا اللہ کے سوا باقی تمام کلمات کو دو مرتبہ کہنا۔ حضرت ابو مخدورہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں اقامت کے سترہ کلمات سکھائے،اللہ اکبر چار مرتبہ،اشھد ان لا الٰہ الا اللہ دو مرتبہ،اشھدان محمد ا رسول اللہ دو ۲ مرتبہ،حی علی الصلو? دو ۲ مرتبہ، حی علی الفلاح دو ۲ مرتبہ،قد قامت الصلوٰۃ دو ۲ مرتبہ،اللہ اکبر دو مرتبہ،لا الٰہ الا اللہ ایک مرتبہ ‘‘۔
(۲) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلالؓ کو حکم دیاگیا کہ اذاں دوہری اور اقامت اکہری کہیں سوائے قد قامت الصلوۃ کے۔ (بخاری،مسلم،احمد،ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ) حوالہ فقہ السنہ،کتاب الصلوۃ صفحہ نمبر ۷۹تا۸۱۔
قارئین محترم !اب یہاں تک ہم نے اذان کی شروعات اور اس کے کلمات اور اسی طرح اقامت کا طریقہ وغیرہ مختلف روایات سے معلوم کرلئے ہیں اب آگے اذان کا فلسفہ اور اس کے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں اس کے مفہوم کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں کیونکہ ہم اس کے معنی و مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کی جو اہمیت اور جو عظمت و فضیلت ہے وہ ہمارے دلوں میں جیسا کچھ بیٹھنا چاہئے نہیں بیٹھی جس کا ثبوت ہماری مساجد پیش کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہیں اس کے عین مطابق مسجد میں آنے والوں کی تعداد میں زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ آقائے نامدار ﷺ نے مسجد کی حاضری کو ایمان کی نشانی بتلایا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد سے لگائو رکھتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے ایمان کی شہادت دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزقیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ترمذی،ابن ماجہ)
اذان کی اہمیت و فضیلت پر مولانا امیر الدین مہر نے اپنی کتاب ’’تعمیر معاشرہ اور مساجد‘‘ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
مساجدکو آباد کرنے میں اذاں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نماز با جماعت کا اعلان ہے۔ اذان کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی،جلال،وحدانیت،رسول اللہ ﷺ کی رسالت،فوز و فلاح کی طرف بلاو اور نماز با جماعت کیلئے پکار سب کچھ ہے۔ (صفحہ نمبر ۱۳۴)
ہمارے ایک عظیم بزرگ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مختصر کلمات میں پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ وہ اذان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا کہ :’’یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ احکام شرعیہ کا مواد حکمتوں اور مصلحتوں سے پر۔ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہوا ہے کہ اذان صرف اعلان و آگہی ہی نہ ہو،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ شعارِ دین میں سے ایک مستقل شعار بھی ہو،اسی طرح جو لوگ غافل ہوں یا خبردار،لیکن مسجد سے دور رہتے ہوں ان کے سروں پر پکاردی جائے اور اس شعار دین کی عزت و توقیر کی جائے اور جو جماعت اسے قبول کرے اس کے متعلق علامت قرار پائے کہ یہ دین الٰہی کے تابع ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلمات اذان ذکر اللہ اور شہادتیں سے مرتب ہیں۔ ان میں ایسے کلمات بھی ہیں جن میں صراحتاً نماز کی طرف دعوت پائی جاتی ہے۔
مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ اذاں کیلئے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں یہ کوئی معمولی الفاظ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق دین الٰہی سے انسان کے لگائو اور اس سے گہری وابستگی سے ہے۔ اب وہ کلمات کیا ہیں اس کے مفہوم پر غور کریں۔ سب سے پہلی چیز اللہ کی بڑائی کہ ’’اللہ سب سے بڑا ہے ‘‘یعنی موذن یہ اعلان کرتا ہے کہ دیکھو اب نہ تمہارے کاروبار بڑے نہ تمہاری دیگر مشغولیات و دلچسپیاں بڑی بلکہ اب تم اپنی ساری سرگرمیاں چھوڑ کر اس مالک حقیقی کی کبریائی کی طرف متوجہ ہوجاو? جو ساری کائنات میں سب سے بڑا ہے اور جس کی بڑائی کے سامنے ہر چیز بے بس ہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کی کبریائی و بڑائی بیان کرنے کے فوری بعد ایک اہم بات کی تذکیر ان الفاظ میں شروع ہوجاتی ہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،یعنی جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑائی تسلیم کرلی گئی تو پھر اسی کی بندگی بجالائی جائے،اللہ تعالیٰ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہم سب انسانوں کا معبود برحق اورحاکم تشریعی ہے جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق،پروردگار مدبر،مالک اور حاکم تکوینی ہے،پرستش (عبادت) کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ دن رات کے ۲۴ گھنٹوں میں توحید باری تعالیٰ کے تصور کو تازہ رکھنے کیلئے یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ دیکھو اللہ کے سوا کوئی تمہارا کار ساز نہیں،حاجت روا اور مسائل کو حل کرنے والا تمہاری فریاد کو سننے والا اور تمہارا حامی و مددگار،صرف اور صرف اللہ ہی ہے کیونکہ حقیقتاً کوئی دوسرا اس کائنات کا مقتدر نہیں ہے۔
اور اس الٰہ واحد کے سوانہ کوئی نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہے لہٰذ صرف اسی سے تقوی کرو اور اسی پرتوکل کرتے ہوئے اسی سے امیدیں وابستہ رکھواور یہ بات بھی خوب یاد رکھنے کی ہے کہ تمام مراسم عبودیت صرف اسی ہستی کیلئے ادا کئے جائیں،کھانا کھلائو بھی تو اس کی خوشنودی کیلئے اور اپنا سر بھی صرف اسی کے سامنے جھکائے رکھو،اور یہ بات بھی اپنے ذہن میں تازہ رکھو کہ دعائوں کا سننے والا اور حاجتوں کو پورا کرنے والا اور تم کو تمام شرور سے بچاتے ہوئے اپنی پناہ دینے والی صرف اور صرف وہی ایک ذات باری تعالیٰ عزوجل ہے اور ساری کی ساری سلطنت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ملک کا مالک نہیں،مقتدر اعلی بھی وہی ہے اور احکام دینے والا بھی وہی ہے،عطا و منع کے فیصلے بھی وہی کرتا ہے کیونکہ ساری دنیا کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہی ہے،کسی اور کو اس کے سوا حق نہیں پہنچتا کہ وہ مالکیت و حاکمیت کا دعوی کریلہٰذ اپنی خود مختاری اپنے نفس کی خواہشات کو اسی الٰہ واحد کے حکم کے تابع کرلو اس لئے کہ نہ تم اپنی جسمانی طاقت کے مالک ہو اور نہ تمہاری صلاحیتیں تمہاری اپنی ہیں بلکہ یہ سب کے سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملک اور اسی کی طرف سے امانت ہیں۔
اس طرح توحید باری تعالیٰ کے عقیدے کو تازہ کرتے ہوئے اب آگے محمد رسول ﷺ رسالت کی گواہی ان الفاظ میں دی جاتی ہے کہ ’’اشھد ان محمد رسول اللہ‘‘( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں) اذان کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے ہوا،پھر اس کے ساتھ توحید باری تعالیٰ کے عقیدے کو مضبوط کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ کی رسالت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کیونکہ توحید کے بعد رسالت پر ایمان لانا اسلامی عقائد کی بنیاد ہے جس کے بغیر انسان کی فلاح و کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدے توحید کا دوسرا جز اقا ئے نامدار ﷺ کے رسول اللہ ہونے کا یقین کامل ہونا ایمان کی شرط اول ہے،اس لئے کہ آپ? کی ذات گرامی با برکت سارے انسانوں کیلئے بندگی رب کا آخری نمونہ ہے جس کے بغیر یا آپ کی پیروی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یا خود ساختہ طریقہ پر چل کر جتنی چاہے عبادتیں اور ریاضتیں کرلیںیا تطیر نفس و تزکیہ نفس کے نئے نئے طریقہ ایجاد کر کے اپنی جان کو بھی گھلا لیں تو بھی وہ عند اللہ نا مقبول ہی ٹھہرے گا۔ وہی عمل اللہ کے دربار میں مقبولیت حاصل کرسکے گا جو اللہ کی ر ضا کے جذبے کے تحت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے اور آپ کے ارشاد کے عین مطابق ہو،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خود نبی ﷺ کے متعلق اپنے بندوں کو حکم دے دیا کہ میرے رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمادیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جاو?،ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
لہذا سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ قیامت تک کیلئے مستند ہدایت نامہ اورمکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا اور جسے اس ہدایت و ضابطے کے مطابق عمل کر کے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا،وہ حضرت سیدنا محمد ﷺ کی ذات گرامی بابرکت ہے۔ اس حقیقت کو جاننے اور اسے ماننے کے بعد ہر انسان کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ہر اس بات کو اور ہر اس تربیت و تعلیم کو بلا کسی تحفظ ذہنی و نفسانی خواہش کے بے چوں چراں قبول کرلے اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے،اس کیلئے صرف یہ کافی ہے کہ یہ طریقہ محمد ﷺ کی سنت اور آپ کی حیات طیبہ کے عملی نمونہ اور آپ کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے جو تقاضے تھے یہی تھے کہ عملی زندگی میں کسی بات پر آمادہ کردینے اور کسی چیز سے رک جانے کیلئے صرف اتنی بات کافی تھی کہ اس بات کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسول سے ثابت ہے۔ محمد ﷺ کی اللہ کے رسول کی حیثیت سے شہادت دینے کیلئے بھی لازم ہے کہ رسول خدا ﷺ کے سوا کسی کو مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے البتہ غیر نبی کی پیروی کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد ہو کر۔ رسالت پر یقین کامل کی ہی برکت تھی کہ صحابہ کرام کو اللہ نے یہ سند عطا فرمادی کہ رضی اللہ عنہ و رضوعنہ یعنی وہ محمد ﷺ کو رسول اللہ کی حیثیت سے دل و جان سے مان لئے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کا عملی ثبوت پیش کردیاتو اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
یہی وہ رسالت کی گواہی و شہادت ہے جو اذان کے ذریعہ سے روزانہ پانچ مرتبہ دہرا دہرا کر دی جاتی ہے کیونکہ عقیدے رسالت بھی ایمان کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
اللہ کی کبریائی،توحید کی شہادت اور محمد ﷺ کو رسول کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی بات بتاکر آگے نماز کی دعوت دی جارہی ہے،اذان کی ترتیب سے یہ بات خود بخود ہمارے سامنے آرہی ہے کہ پہلے عقیدے توحید کی تعلیم پھر رسالت نبی کا ذکر یعنی توحید و رسالت اول نمبر پر رکھی گئی ہے پھر بندگی رب کے عملی اظہار ’’نماز‘‘ کی طرف بلایا جارہا ہے، ان الفاظ میں کہ ’حی الصلوۃ‘‘ (آئو نماز کیلئے ) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے توحید پر ایمان اور رسالت پر یقین کے بغیر عباد ت نہیں۔ نماز اصل میں بندگی رب کا اظہار ہے اور ہر مسلمان پر وقت کے تعین کے ساتھ فرض ہے،اس کی بے حساب خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکام و فرائض عائد کئے گئے ہیں اس کی یاد دہانی کرواتی ہے۔ مضمون کے آغاز میں جو آیت کریمہ تحریر کی گئی اس میں یہی ذکر ہوا کہ میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔
یہاں پر یہ تحریر بے محل نہ ہوگی کہ امت مسلمہ کی اکثریت اللہ کی یاد سے غفلت برت رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور فرامین ان کے پیش نظرنہیں رہتے۔ جبکہ سورۃ العنکبوت آیت ۴۵ میں فرمایا’’بے شک نماز بے حیائیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ نے جو حکم صادر فرمایا کہ ’’میری یاد کیلئے نماز قائم کرو‘‘۔اور جو لوگ اس کا اہتمام نہیں کرتے اور تارک صلوۃ بن جاتے ہیں تو ان کے دل خدا تعالیٰ کی یاد سے خالی ہوجاتے ہیں اور جو دل یاد الٰہی سے خالی ہوجاتا ہے وہ شیطان کا گھر بن جاتا ہے پھر اس کے بعد اس شخص سے ایسے ایسے اعمال کا صدور ہونے لگتا ہے جو اسے اللہ کا باغی بناکر رکھ دیتا ہے لہٰذ اذان میں پانچ وقت یہ آواز لگائی جاتی ہے کہ ’’آئو نماز کیلئے ‘‘ تا کہ تمہارے قلوب یاد الٰہی کا مسکن بنے رہے اور مسجد کے باہر والی تمہاری زندگی بھی ’’فی السلم کافۃ‘‘ پورے کے پورے اسلام کی آئینہ دار بن جائے اور جب اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں تمہیں مدد کی ضرورت پڑ جائے تو اسی نماز کے ذریعہ استعانت طلب کرو مدد حاصل کرو،حی الصلوۃ کی آواز میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ اے لوگو آئو ایک ایسی اجتماعیت کی طرف جو تمہیں زندگی کا نظم سکھاتی ہے،امیر کی اطاعت کی مشق کرواتی ہے اور تمہیں اس بات کی یاددہانی کرواتی ہے کہ تم خیر امت ہو جس طرح تم مسجد میںخیر ہی خیر کے طالب ہوتے ہو مسجد کے باہر بھی یہ نماز کی برکت تمہیں خیر کی طرف مائل کرے گی،لہذا پورے شعور کے ساتھ اور اخلاص و للہیت کے ساتھ اگر نماز یں ادا ہونے لگیں تو یقینا مذکورہ اوصاف حمیدہ کا ظہور ہوگا اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم سے ہدایت پانے والوں کے اوصاف میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ ’’نماز قائم کرتے ہیں‘‘اس سلسلہ میں مولانا مودودیؒ یوں تحریر فرمایاکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کیلئے آمادہ ہوجائے‘‘ اور عملی اطاعت کی اولین علامت اور دائمی علامت نماز ہے‘‘ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گذرتے کہ موذن نماز کیلئے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے والا اطاعت کیلئے بھی تیار ہے یا نہیں،پھر یہ موذن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہوجاتا ہے کہ مدعی ایمان،اطاعت سے خارج ہوگیا۔ پھر ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے۔
اذن میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں جو کامیابی کی طرف دعوت دیتے ہیں
’’حی علی الفلاح‘‘(آئو کامیابی کی طرف ) یہ الفاظ اتنے جامع ہیں کہ اس میں اعمال صالحات کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم فلاح پانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر تین باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ قد افلاح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی۔ اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ بات ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ کامیابی کیلئے اولین شرط نفس کا تزکیہ یعنی قلب و ذہن تمام شیطانی گندگیوں سے پاک ہو،فسق و فجور سے اجتناب کرنا ظاہری و باطنی طور پر بالکل پاک صاف رہنا برے کردار کو چھوڑ کر اچھے کردار کا اپنے کو خوگر بنانا اس طرح کی دیگر چیزیں جو نفس کی صفائی کیلئے ضروری ہیں اسے اختیار کرنا۔ دوسری بات یہ کہ رب کائنات کا ذکر دل ہی دل میں کرتے رہنا اور زبان سے بھی اس کا ذکر ہوتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ایک بڑے ذکر کی طرف چل پڑنا جسے نماز یا صلوۃ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ بات جو موذن روزانہ اپنی پکار کے ذریعہ سمجھاتے رہتا ہے کہ آو? فلاح کی طرف آئو کامیابی کی طرف۔ جس فلاح کی طرف بلایا جارہا ہے۔ دراصل یہ فلاح آخرت ہے کیونکہ دنیا میں آدمی بظاہر کامیاب ہو یا نہ ہو یہ انتہائی عارضی چیز ہے لیکن آخرت کی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ والی ہوتی ہے اگر آدمی اس میںکامیاب ہوگیا تو سمجھئے حقیقی فلاح حاصل کرلیا۔لہٰذ فلاح آخرت کے حصول کیلئے سب سے پہلا عمل جو دائمی طور پر انسان کو کرتے رہنا ہے وہ نماز کی ادائیگی ہے جو پورے نظم کے ساتھ ہوتی رہے۔
اذان کے آخر میں پھر وہی الفاظ ادا کئے جاتے ہیں جس سے آغاز ہوا تھا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ یعنی آغاز بھی لفظ اللہ سے ہوا اور اس کا اختتام بھی اللہ پر ہو ا۔
میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
لہذا ہم سب کو چاہئے کہ اذاں کی فضیلت اور اس کی اہمیت پر غور کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے موذن جو منادی کرتا ہے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے مسجد کا رخ کریں تا کہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں ہمیں حاصل ہوں۔چنانچہ ہجرت کے بعد مدینے طیبہ میں آپ نے سب سے پہلے مسجد کا قیام عمل میں لایا تا کہ مسلمان اپنے مرکز سے چمٹے رہیں۔ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں نماز با جماعت کے لئے لوگوں کو بلانے کا کوئی معقول انتظام نہیںتھا، اہل ایمان وقت کا اندازہ کر کے مسجد میں آتے اور نماز ادا کرتے لیکن حضرت محمد ﷺ کو یہ چیز پسند نہیں تھی، آپ نے ارادہ فرمایا کہ کچھ لوگوں کو اس کام پر لگادیا جائے کہ ہر نماز کے موقع پر وہ مسلمانوں کے گھروں تک جائیںاور نماز کیلئے اطلاع کردیں لیکن اس میں آپ ﷺ نے زحمت کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر عمل نہیں کروایا چنانچہ آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر مشورہ فرمایا تو مختلف مشورے آپ کی خدمت میں پیش فرمائے گئے،کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں علامت کے طور پر علم استادہ کردیا جائے تا کہ لوگ اسے دیکھ کر نماز کیلئے حاضر ہوتے رہیں۔ آقائے نامدار ﷺ کو یہ تجویز نا پسند ہوئی۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں عبادت کیلئے بلائے جانے کا جو طریقہ رائج تھا اسے بھی آنحضور کی خدمت اقدس میں پیش کیاگیا لیکن رسالت مآب ﷺ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔ آخر کار حضرت عمرؓ کی رائے آپ کو پسند آئی اور حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ اذاں دیں کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی۔ روایات میں اور کتب سیرت میں اذان کی ابتداء کب سے ہوئی اس سلسلہ میں ۱ ہجری یا ۲ ہجری کا ذکرہمیں ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ۱ ہجری کے اختتام یا ۲ ہجری کے آغاز میں اذان کا موجودہ طریقہ ایجاد ہوا ہو یا پھر شروع شروع میں حضرت بلالؓ گلیوں میں پکارتے تھے کہ ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ یہ ۱ ہجری میں ہوتا تھا ہوگا پھر بعد میں نبی ﷺ کے حکم پر ہی ۲ ہجری سے مروجہ اذان دی جانے لگی۔ واللہ اعلم
اذان کیسے شروع ہوئی اس سلسلہ میں علامہ مفتی شریف الحق امجدی دامت برکاتہم یوں تحریر فرماتے ہیںکہ:
اس خصوص میں سب سے صحیح وہ روایت ہے جسے ابوداود اور ترمذی و ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ? نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا۔ تا کہ لوگوں کو نماز کیلئے اکٹھا کرنے کیلئے بجایا جائے۔ تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے پاس گھوم رہا ہے۔ انہوں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے اسے بیچوگے؟اس نے پوچھا تم اسے کیا کرو گے، انہوں نے کہا ہم اس سے لوگوں کو نمازکیلئے بلائیں گے،اس نے کہا۔ کیا میں اس سے عمدہ بات نہ بتادوں، انہوںنے کہا ضرور بتائو۔ تو اس نے کہا یوں کہو (اور اس نے پوری اذان بتائی)۔
حضرت زید کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے جو خواب میں دیکھا تھا عرض کردیا۔ ارشاد فرمایا : یہ خواب حق ہے،بلال کے ساتھ کھڑے ہوجائو اور جو خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائو۔ وہ اذان دیں اس لئے کہ ان کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے اب میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوگیا، میں انہیں بتاتا وہ اذاں دیتے۔ اسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر سنا تو اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نکلے یا رسول اللہ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی وہی دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’فللہ الحمد ‘‘
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ غیر نبی کے خواب کو حجت شرعی کی حیثیت میں کیسے قبول کیاجائے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جب حضرت عبداللہ? بن زید نے اپنا خواب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے اسی وقت اپنی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا فرمائے کہ ’’انہ لرویاحق ‘‘یہ خواب حق ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنا خواب نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں بیان فرمایا تو محمد ﷺ کی برسر حق زبان مبارک و مطہر سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ ’’فللّٰہ الحمد‘‘ علاوہ ازیں علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی دامت برکاتہم نے نزھ? القادری (شرح صحیح بخاری )
٭٭٭
میں بحوالہ ’’عمدۃ القاری صفحہ نمبر ۱۰۷ یوں رقمطراز ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا :’’ سبقک بذالک الوحی ‘‘ تمہارے کہنے سے پہلے وحی آچکی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد،یہ خواب حق ہے،وحی تھا اور وحی حجت ہے۔ (نزہ? القاری جلد سوم صفحہ ۹۶)۔ اس کے علاوہ ایک اور بات اس سلسلہ کی ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب آپ نے اذان کے کلمات خواب دیکھنے والوں سے سنے تو اسے پسند فرماتے ہوئے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ فامر بلال یعنی بلال? کو حکم دیاگیا۔ ظاہر بات ہے کہ شرعی حجت کیلئے نبی ﷺ کا حکم ہی کافی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس بات کا حکم دیاہے کہ آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اذان کے کلمات
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں
’’اشہدان محمداً رسول اللہ‘‘میںشہادت دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہے
’’اشہدان محمداً رسول اللہ‘‘ میںشہادت دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہے
’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ آئو نماز کی طرف۔’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ آئو نماز کی طرف
’’حی علی الفلاح‘‘ آئو کامیابی کی طرف۔ ’’حی علی الفلاح‘‘ آئو کامیابی کی طرف
’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے
’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
البتہ صبح(فجر) کی اذاں میں ایک جملے کا اضافہ ہے جسے دوبار کہنا ہے۔ صبح کی اذاں میں حی علی الفلاح،حی علی الفلاح کے بعد اور اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الٰہ الا اللہ سے پہلے دو مرتبہ الصلوۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے ) کہنا چاہئے۔ حضرت ابو مخدودرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہو ںنے نبی ﷺ کی خدمت میں غرص کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اذان کی سنت سکھایئے‘‘ تو آپ نے انہیں اذان سکھائی اور فرمایا اگر صبح کی اذان ہو تو کہو ’’الصلوۃ خیر من النوم،الصلوۃ خیر من النوم،اللہ اکبر،اللہ اکبر،لا الٰہ الا اللہ (احمد،ابو دائود )
نوٹ : امام ابو حنیفہ امام سفیان ثوریؒ ابن المبارک اور کوفہ کے فقہاء کا اسی پر عمل ہے (سبل اسلام ج ا ص ۸۵،اقتباس فقہ السنہ )
اسی طرح اقامت کیلئے بھی طریقہ متعین کردیا گیا،البتہ اس میں دو باتیں آتی ہیں۔ مولانا محترم محمد عاصم الحدادؒ نے اپنی مشہور کتاب فقہ السنہ میں یوں تحریر فرمایا :
اقامت کے کلمات کا ذکر حدیث میں دو طریقوں سے آیا ہے۔
(۱) اللہ اکبر کو چار مرتبہ اور آخری لا الٰہ الا اللہ کے سوا باقی تمام کلمات کو دو مرتبہ کہنا۔ حضرت ابو مخدورہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں اقامت کے سترہ کلمات سکھائے،اللہ اکبر چار مرتبہ،اشھد ان لا الٰہ الا اللہ دو مرتبہ،اشھدان محمد ا رسول اللہ دو ۲ مرتبہ،حی علی الصلو? دو ۲ مرتبہ، حی علی الفلاح دو ۲ مرتبہ،قد قامت الصلوٰۃ دو ۲ مرتبہ،اللہ اکبر دو مرتبہ،لا الٰہ الا اللہ ایک مرتبہ ‘‘۔
(۲) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلالؓ کو حکم دیاگیا کہ اذاں دوہری اور اقامت اکہری کہیں سوائے قد قامت الصلوۃ کے۔ (بخاری،مسلم،احمد،ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ) حوالہ فقہ السنہ،کتاب الصلوۃ صفحہ نمبر ۷۹تا۸۱۔
قارئین محترم !اب یہاں تک ہم نے اذان کی شروعات اور اس کے کلمات اور اسی طرح اقامت کا طریقہ وغیرہ مختلف روایات سے معلوم کرلئے ہیں اب آگے اذان کا فلسفہ اور اس کے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں اس کے مفہوم کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں کیونکہ ہم اس کے معنی و مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کی جو اہمیت اور جو عظمت و فضیلت ہے وہ ہمارے دلوں میں جیسا کچھ بیٹھنا چاہئے نہیں بیٹھی جس کا ثبوت ہماری مساجد پیش کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہیں اس کے عین مطابق مسجد میں آنے والوں کی تعداد میں زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ آقائے نامدار ﷺ نے مسجد کی حاضری کو ایمان کی نشانی بتلایا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد سے لگائو رکھتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے ایمان کی شہادت دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزقیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ترمذی،ابن ماجہ)
اذان کی اہمیت و فضیلت پر مولانا امیر الدین مہر نے اپنی کتاب ’’تعمیر معاشرہ اور مساجد‘‘ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
مساجدکو آباد کرنے میں اذاں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نماز با جماعت کا اعلان ہے۔ اذان کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی،جلال،وحدانیت،رسول اللہ ﷺ کی رسالت،فوز و فلاح کی طرف بلاو اور نماز با جماعت کیلئے پکار سب کچھ ہے۔ (صفحہ نمبر ۱۳۴)
ہمارے ایک عظیم بزرگ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مختصر کلمات میں پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ وہ اذان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا کہ :’’یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ احکام شرعیہ کا مواد حکمتوں اور مصلحتوں سے پر۔ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہوا ہے کہ اذان صرف اعلان و آگہی ہی نہ ہو،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ شعارِ دین میں سے ایک مستقل شعار بھی ہو،اسی طرح جو لوگ غافل ہوں یا خبردار،لیکن مسجد سے دور رہتے ہوں ان کے سروں پر پکاردی جائے اور اس شعار دین کی عزت و توقیر کی جائے اور جو جماعت اسے قبول کرے اس کے متعلق علامت قرار پائے کہ یہ دین الٰہی کے تابع ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلمات اذان ذکر اللہ اور شہادتیں سے مرتب ہیں۔ ان میں ایسے کلمات بھی ہیں جن میں صراحتاً نماز کی طرف دعوت پائی جاتی ہے۔(حوالہ حج? اللہ البالغہ جلد ۱ ص:۱۶۱)
مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ اذاں کیلئے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں یہ کوئی معمولی الفاظ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق دین الٰہی سے انسان کے لگائو اور اس سے گہری وابستگی سے ہے۔ اب وہ کلمات کیا ہیں اس کے مفہوم پر غور کریں۔ سب سے پہلی چیز اللہ کی بڑائی کہ ’’اللہ سب سے بڑا ہے ‘‘یعنی موذن یہ اعلان کرتا ہے کہ دیکھو اب نہ تمہارے کاروبار بڑے نہ تمہاری دیگر مشغولیات و دلچسپیاں بڑی بلکہ اب تم اپنی ساری سرگرمیاں چھوڑ کر اس مالک حقیقی کی کبریائی کی طرف متوجہ ہوجاو? جو ساری کائنات میں سب سے بڑا ہے اور جس کی بڑائی کے سامنے ہر چیز بے بس ہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کی کبریائی و بڑائی بیان کرنے کے فوری بعد ایک اہم بات کی تذکیر ان الفاظ میں شروع ہوجاتی ہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،یعنی جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑائی تسلیم کرلی گئی تو پھر اسی کی بندگی بجالائی جائے،اللہ تعالیٰ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہم سب انسانوں کا معبود برحق اورحاکم تشریعی ہے جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق،پروردگار مدبر،مالک اور حاکم تکوینی ہے،پرستش (عبادت) کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ دن رات کے ۲۴ گھنٹوں میں توحید باری تعالیٰ کے تصور کو تازہ رکھنے کیلئے یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ دیکھو اللہ کے سوا کوئی تمہارا کار ساز نہیں،حاجت روا اور مسائل کو حل کرنے والا تمہاری فریاد کو سننے والا اور تمہارا حامی و مددگار،صرف اور صرف اللہ ہی ہے کیونکہ حقیقتاً کوئی دوسرا اس کائنات کا مقتدر نہیں ہے۔
اور اس الٰہ واحد کے سوانہ کوئی نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہے لہٰذ صرف اسی سے تقوی کرو اور اسی پرتوکل کرتے ہوئے اسی سے امیدیں وابستہ رکھواور یہ بات بھی خوب یاد رکھنے کی ہے کہ تمام مراسم عبودیت صرف اسی ہستی کیلئے ادا کئے جائیں،کھانا کھلائو بھی تو اس کی خوشنودی کیلئے اور اپنا سر بھی صرف اسی کے سامنے جھکائے رکھو،اور یہ بات بھی اپنے ذہن میں تازہ رکھو کہ دعائوں کا سننے والا اور حاجتوں کو پورا کرنے والا اور تم کو تمام شرور سے بچاتے ہوئے اپنی پناہ دینے والی صرف اور صرف وہی ایک ذات باری تعالیٰ عزوجل ہے اور ساری کی ساری سلطنت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ملک کا مالک نہیں،مقتدر اعلی بھی وہی ہے اور احکام دینے والا بھی وہی ہے،عطا و منع کے فیصلے بھی وہی کرتا ہے کیونکہ ساری دنیا کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہی ہے،کسی اور کو اس کے سوا حق نہیں پہنچتا کہ وہ مالکیت و حاکمیت کا دعوی کریلہٰذ اپنی خود مختاری اپنے نفس کی خواہشات کو اسی الٰہ واحد کے حکم کے تابع کرلو اس لئے کہ نہ تم اپنی جسمانی طاقت کے مالک ہو اور نہ تمہاری صلاحیتیں تمہاری اپنی ہیں بلکہ یہ سب کے سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملک اور اسی کی طرف سے امانت ہیں۔
اس طرح توحید باری تعالیٰ کے عقیدے کو تازہ کرتے ہوئے اب آگے محمد رسول ﷺ رسالت کی گواہی ان الفاظ میں دی جاتی ہے کہ ’’اشھد ان محمد رسول اللہ‘‘( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں) اذان کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے ہوا،پھر اس کے ساتھ توحید باری تعالیٰ کے عقیدے کو مضبوط کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ کی رسالت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کیونکہ توحید کے بعد رسالت پر ایمان لانا اسلامی عقائد کی بنیاد ہے جس کے بغیر انسان کی فلاح و کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدے توحید کا دوسرا جز اقا ئے نامدار ﷺ کے رسول اللہ ہونے کا یقین کامل ہونا ایمان کی شرط اول ہے،اس لئے کہ آپ? کی ذات گرامی با برکت سارے انسانوں کیلئے بندگی رب کا آخری نمونہ ہے جس کے بغیر یا آپ کی پیروی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یا خود ساختہ طریقہ پر چل کر جتنی چاہے عبادتیں اور ریاضتیں کرلیںیا تطیر نفس و تزکیہ نفس کے نئے نئے طریقہ ایجاد کر کے اپنی جان کو بھی گھلا لیں تو بھی وہ عند اللہ نا مقبول ہی ٹھہرے گا۔ وہی عمل اللہ کے دربار میں مقبولیت حاصل کرسکے گا جو اللہ کی ر ضا کے جذبے کے تحت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے اور آپ کے ارشاد کے عین مطابق ہو،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خود نبی ﷺ کے متعلق اپنے بندوں کو حکم دے دیا کہ میرے رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمادیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جاو?،ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
لہذا سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ قیامت تک کیلئے مستند ہدایت نامہ اورمکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا اور جسے اس ہدایت و ضابطے کے مطابق عمل کر کے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا،وہ حضرت سیدنا محمد ﷺ کی ذات گرامی بابرکت ہے۔ اس حقیقت کو جاننے اور اسے ماننے کے بعد ہر انسان کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ہر اس بات کو اور ہر اس تربیت و تعلیم کو بلا کسی تحفظ ذہنی و نفسانی خواہش کے بے چوں چراں قبول کرلے اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے،اس کیلئے صرف یہ کافی ہے کہ یہ طریقہ محمد ﷺ کی سنت اور آپ کی حیات طیبہ کے عملی نمونہ اور آپ کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے جو تقاضے تھے یہی تھے کہ عملی زندگی میں کسی بات پر آمادہ کردینے اور کسی چیز سے رک جانے کیلئے صرف اتنی بات کافی تھی کہ اس بات کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسول سے ثابت ہے۔ محمد ﷺ کی اللہ کے رسول کی حیثیت سے شہادت دینے کیلئے بھی لازم ہے کہ رسول خدا ﷺ کے سوا کسی کو مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے البتہ غیر نبی کی پیروی کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد ہو کر۔ رسالت پر یقین کامل کی ہی برکت تھی کہ صحابہ کرام کو اللہ نے یہ سند عطا فرمادی کہ رضی اللہ عنہ و رضوعنہ یعنی وہ محمد ﷺ کو رسول اللہ کی حیثیت سے دل و جان سے مان لئے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کا عملی ثبوت پیش کردیاتو اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
یہی وہ رسالت کی گواہی و شہادت ہے جو اذان کے ذریعہ سے روزانہ پانچ مرتبہ دہرا دہرا کر دی جاتی ہے کیونکہ عقیدے رسالت بھی ایمان کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
اللھم صلی وسلم علی عبدک و رسولک صلوۃ دائما ابدا ابدا
اللہ کی کبریائی،توحید کی شہادت اور محمد ﷺ کو رسول کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی بات بتاکر آگے نماز کی دعوت دی جارہی ہے،اذان کی ترتیب سے یہ بات خود بخود ہمارے سامنے آرہی ہے کہ پہلے عقیدے توحید کی تعلیم پھر رسالت نبی کا ذکر یعنی توحید و رسالت اول نمبر پر رکھی گئی ہے پھر بندگی رب کے عملی اظہار ’’نماز‘‘ کی طرف بلایا جارہا ہے، ان الفاظ میں کہ ’حی الصلوۃ‘‘ (آئو نماز کیلئے ) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے توحید پر ایمان اور رسالت پر یقین کے بغیر عباد ت نہیں۔ نماز اصل میں بندگی رب کا اظہار ہے اور ہر مسلمان پر وقت کے تعین کے ساتھ فرض ہے،اس کی بے حساب خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکام و فرائض عائد کئے گئے ہیں اس کی یاد دہانی کرواتی ہے۔ مضمون کے آغاز میں جو آیت کریمہ تحریر کی گئی اس میں یہی ذکر ہوا کہ میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔
یہاں پر یہ تحریر بے محل نہ ہوگی کہ امت مسلمہ کی اکثریت اللہ کی یاد سے غفلت برت رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور فرامین ان کے پیش نظرنہیں رہتے۔ جبکہ سورۃ العنکبوت آیت ۴۵ میں فرمایا’’بے شک نماز بے حیائیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ نے جو حکم صادر فرمایا کہ ’’میری یاد کیلئے نماز قائم کرو‘‘۔اور جو لوگ اس کا اہتمام نہیں کرتے اور تارک صلوۃ بن جاتے ہیں تو ان کے دل خدا تعالیٰ کی یاد سے خالی ہوجاتے ہیں اور جو دل یاد الٰہی سے خالی ہوجاتا ہے وہ شیطان کا گھر بن جاتا ہے پھر اس کے بعد اس شخص سے ایسے ایسے اعمال کا صدور ہونے لگتا ہے جو اسے اللہ کا باغی بناکر رکھ دیتا ہے لہٰذ اذان میں پانچ وقت یہ آواز لگائی جاتی ہے کہ ’’آئو نماز کیلئے ‘‘ تا کہ تمہارے قلوب یاد الٰہی کا مسکن بنے رہے اور مسجد کے باہر والی تمہاری زندگی بھی ’’فی السلم کافۃ‘‘ پورے کے پورے اسلام کی آئینہ دار بن جائے اور جب اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں تمہیں مدد کی ضرورت پڑ جائے تو اسی نماز کے ذریعہ استعانت طلب کرو مدد حاصل کرو،حی الصلوۃ کی آواز میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ اے لوگو آئو ایک ایسی اجتماعیت کی طرف جو تمہیں زندگی کا نظم سکھاتی ہے،امیر کی اطاعت کی مشق کرواتی ہے اور تمہیں اس بات کی یاددہانی کرواتی ہے کہ تم خیر امت ہو جس طرح تم مسجد میںخیر ہی خیر کے طالب ہوتے ہو مسجد کے باہر بھی یہ نماز کی برکت تمہیں خیر کی طرف مائل کرے گی،لہذا پورے شعور کے ساتھ اور اخلاص و للہیت کے ساتھ اگر نماز یں ادا ہونے لگیں تو یقینا مذکورہ اوصاف حمیدہ کا ظہور ہوگا اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم سے ہدایت پانے والوں کے اوصاف میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ ’’نماز قائم کرتے ہیں‘‘اس سلسلہ میں مولانا مودودیؒ یوں تحریر فرمایاکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کیلئے آمادہ ہوجائے‘‘ اور عملی اطاعت کی اولین علامت اور دائمی علامت نماز ہے‘‘ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گذرتے کہ موذن نماز کیلئے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے والا اطاعت کیلئے بھی تیار ہے یا نہیں،پھر یہ موذن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہوجاتا ہے کہ مدعی ایمان،اطاعت سے خارج ہوگیا۔ پھر ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے۔ (تفہیم القرآن جلد اول ص نمبر ۰۵)
اذن میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں جو کامیابی کی طرف دعوت دیتے ہیں
’’حی علی الفلاح‘‘(آئو کامیابی کی طرف ) یہ الفاظ اتنے جامع ہیں کہ اس میں اعمال صالحات کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم فلاح پانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر تین باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ قد افلاح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی۔ اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ بات ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ کامیابی کیلئے اولین شرط نفس کا تزکیہ یعنی قلب و ذہن تمام شیطانی گندگیوں سے پاک ہو،فسق و فجور سے اجتناب کرنا ظاہری و باطنی طور پر بالکل پاک صاف رہنا برے کردار کو چھوڑ کر اچھے کردار کا اپنے کو خوگر بنانا اس طرح کی دیگر چیزیں جو نفس کی صفائی کیلئے ضروری ہیں اسے اختیار کرنا۔ دوسری بات یہ کہ رب کائنات کا ذکر دل ہی دل میں کرتے رہنا اور زبان سے بھی اس کا ذکر ہوتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ایک بڑے ذکر کی طرف چل پڑنا جسے نماز یا صلوۃ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ بات جو موذن روزانہ اپنی پکار کے ذریعہ سمجھاتے رہتا ہے کہ آو? فلاح کی طرف آئو کامیابی کی طرف۔ جس فلاح کی طرف بلایا جارہا ہے۔ دراصل یہ فلاح آخرت ہے کیونکہ دنیا میں آدمی بظاہر کامیاب ہو یا نہ ہو یہ انتہائی عارضی چیز ہے لیکن آخرت کی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ والی ہوتی ہے اگر آدمی اس میںکامیاب ہوگیا تو سمجھئے حقیقی فلاح حاصل کرلیا۔لہٰذ فلاح آخرت کے حصول کیلئے سب سے پہلا عمل جو دائمی طور پر انسان کو کرتے رہنا ہے وہ نماز کی ادائیگی ہے جو پورے نظم کے ساتھ ہوتی رہے۔
اذان کے آخر میں پھر وہی الفاظ ادا کئے جاتے ہیں جس سے آغاز ہوا تھا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ یعنی آغاز بھی لفظ اللہ سے ہوا اور اس کا اختتام بھی اللہ پر ہو ا۔
میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
لہذا ہم سب کو چاہئے کہ اذاں کی فضیلت اور اس کی اہمیت پر غور کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے موذن جو منادی کرتا ہے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے مسجد کا رخ کریں تا کہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں ہمیں حاصل ہوں۔
٭٭٭

About awazebihar

Check Also

بجلی کا نیا فلیٹ ریٹ: پھر بڑھی بنکروں کی بےچینی!!

تحریر: جاوید اختر بھارتی javedbharti508@gmail.com  بنکروں کے اندر ایک بار پھر بے چینی بڑھی چھوٹے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *