نئی دہلی، 16 مارچ (یو این آئی) سپریم کورٹ نے جمعرات کو مہاراشٹرا کے سیاسی بحران سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے آخری دن سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے سوال کیا کہ وہ کس طرح ایک ایسے وزیر اعلیٰ کو بحال کر سکتے ہیں جس نے اسمبلی میں فلور ٹیسٹ کا سامنا بھی نہیں کیا اور استعفیٰ دے دیا۔عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ نے نو دن کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ کیس کی سماعت 21 فروری کو شروع ہوئی تھی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، اور جسٹس ایم آر شاہ، کرشنا مراری، ہیما کوہلی اور پی ایس نرسمہا پر مشتمل بنچ نے مہاراشٹر اسمبلی میں مہا وکاس اگھاڑی حکومت کی قیادت کرنے والے ادھو ٹھاکرے گروپ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی سے سوالات کیے۔اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہ مسٹر ٹھاکرے نے ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیوسینا کے ایم ایل ایز کی بغاوت کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا، آئینی بنچ نے عرضی گزار ٹھاکرے گروپ سے پوچھا کہ وہ انہیں (اُدھو ٹھاکرے) کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کیسے بحال کر سکتی ہے جنہوں نے ایوان میں فلور ٹیسٹ کے بغیر استعفیٰ دے دیا تھا۔سپریم کورٹ نے ٹھاکرے گروپ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے 29 جون 2022 کو ایوان میں ایم ایل اے کی تعداد کا طاقت ٹیسٹ کرانے کے گورنر کی ہدایت پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ شکست کے امکان کو محسوس کرتے ہوئے مسٹر ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس سے مہاراشٹر میں مسٹر شندے کی قیادت میں شیوسینا-بی جے پی اتحاد کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی۔بنچ نے مسٹر سنگھوی سے پوچھا، “سوال واقعی یہ ہے کہ کیا گورنر نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے طاقت کا درست استعمال کیا تھا؟” اس پر انہوں نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ گر جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بنیادی سوال ہے اور انہیں اپنا کیس پیش کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔آئینی بنچ نے مسٹر سنگھوی سے پوچھا، “تو پھر، آپ کے مطابق کیا ہمیں ادھو ٹھاکرے کی حکومت کو بحال کرنا چاہئے؟ لیکن آپ (ٹھاکرے) نے استعفیٰ دے دیا۔اس کے بعد انہوں نے مسٹر ٹھاکرے کے استعفیٰ اور اعتماد کے ووٹ کا سامنا نہ کرنے کو غیر متعلقہ قرار دیا۔بنچ نے مسٹر سنگھوی سے پوچھا ’’یعنی عدالت سے حکومت کو بحال کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ مسٹر سنگھوی نے کہا کہ معاملے کو دیکھنے کا یہ ایک قابل تعریف طریقہ ہے لیکن اب یہ غیر متعلق ہے۔ انہوں نے دوبارہ بنچ سے کہا کہ انہیں اپنے دلائل کی وضاحت کرنے کا موقع دیا جائے۔اس پر بنچ نے دوبارہ ان سے پوچھا کہ عدالت ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ کیسے بحال کر سکتی ہے جس نے فلور ٹیسٹ بھی نہیں کرایا؟بنچ نے پھر کہا، ’’لیکن، یہ ایک منطقی بات ہوگی اگر آپ اسمبلی کے فلور پر اعتماد نہیں کھوتے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کو اعتماد کے ووٹ کی وجہ سے اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہوگا، جسے ایک طرف رکھ دیا گیا ہے… فکری معمہ دیکھیں کہ کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ کو اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہو، جسے غلط طریقے سے گورنر کی طرف سے بلایا گیا ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو، آپ اعتماد کے ووٹ کا سامنا نہیں کر سکے۔”بنچ نے سنگھوی سے مزید پوچھا، “تو آپ کہہ رہے ہیں کہ مسٹر ادھو ٹھاکرے نے صرف اس لیے استعفیٰ دیا کیونکہ انہیں اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنے کے لیے گورنر نے بلایا گیا تھا؟”مسٹر سنگھوی کے علاوہ سینئر وکیل کپل سبل، دیودت کامت اور ایڈوکیٹ امیت آنند تیواری ٹھاکرے گروپ کی طرف سے پیش ہوئے۔ مسٹر شندے کی طرف سے سینئر وکیل نیرج کشن کول، ہریش سالوے، مہیش جیٹھ ملانی اور ایڈوکیٹ ابھیکلپ پرتاپ سنگھ نے نمائندگی کی۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس معاملے میں گورنر کے دفتر کی نمائندگی کی۔