پروفیسر منظر اعجازکادارفانی سے کوچ کرجانا اردو ادب کا بڑا خسارہ ہے : ارشد فیروز

پٹنہ : گورنمنٹ اردو لائبریری کی مجلس انتظامیہ کے سابق ممبر اور مشہور و معروف ناقد اور نامور استاد پروفیسر منظر اعجاز کی رحلت پر گورنمنٹ اردو لائبریر ی میں روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ اور اردو ایکشن کمیٹی کے صدر ایس ایم اشرف فرید کی صدارت میں آج ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر ایس ایم اشرف فرید نے اپنی تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر منظر اعجاز جیسے کہنہ مشق استاد اور تجربہ کار ادیب کا ہمارے درمیان سے چلے جانا اردو ادب کا ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔ مرحوم اردو محفلوں کی آبرو تھے ان سے اکثر محفلوں میں ملاقاتیں ہوتیں اورجب بھی کسی موضوع پر باتیں کرتے تو اس کے اندر علم کا خزانہ موجود رہتا ۔ ۔ انکے اندر بڑی خوبیاں تھیں انکی یاد داشت خداداد تھی وہ کسی بھی موضوع پر گہرائی تک نظر رکھتے تھے ۔ انکے انتقال سے اردو ادب کا زبردست نقصان ہوا ہے ۔ ایسے عظیم اردو کے ادیب کیلے بہار اردو اکادمی کو تعزیتی نشست منعقد کرنے کیلئے پہل کرنی چاہیئے تھی مگر گورنمنٹ اردو لائبریری کے چیرمین ارشد فیروز اس نیک کام کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ بروقت اردو کے ادیبوں کیلئے تعزیتی نشستیں منعقد کرتے ہیں۔ اردو اکادمی کو چاہیئے کہ پہلی فرصت میں پروفیسر منظر اعجازکے اوپر ایک تعزیتی نشست منعقد کرے اور اپنی میگزین زبان و ادب کا خصوصی شمارہ پروفیسر منظر اعجاز کی شکل میں نکالا جائے ۔ اللہ سے دعاء ہے مرحوم کی مغفرت فرمائے۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے چیرمین ارشد فیروز نے پروفیسر منظر اعجاز کے تئیں اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ پروفیسر منظر اعجاز سے انکے مراسم بہت پرانا نہیں ہے مگر کم دنوں میں ان سے کافی قربت ہوگئی ۔ وہ ہماری لائبریری میں دوٹرم ممبر رہ چکے ہیں ۔ اپنی پوری صلاحیت صرف کرکے لائبریری کے مختلف امور پر توجہ دیتے تھے ۔ وہ جب بھی ملتے خندہ پیشانی سے ملتے ۔ ایک استاد کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی تھی ۔ انہوں نے ادب کے لئی جہات پر کتابیں بھی لکھیں ۔ وہ کبھی کبھی شاعری بھی کرلیا کرتے تھے ۔ پروفیسر منظر اعجاز جیسے مشفق استاد کا اس دارفانی سے کوچ کرجانا اردو ادب کا ایک بڑا خسارہ ہے ۔
معروف ادیب اور ثالث مونگیر کے مدیر پروفیسر اقبال حسن آزاد نے منظر اعجاز کے تعلق سے کئی مفید باتوں سے سامعین کو روشناس کرایا ۔ انہوں نے کہاکہ پروفیسر منظر اعجاز انکے چھوٹے بہنوئی تھے ۔ انہوں نے گورنمنٹ اردو لائبریری کے چیرمین سے گذارش کی کہ پروفیسر منظر اعجاز کی رہائش گاہ پر کتابوں کے ذخیہر کیلئے لائبیری میں پروفیسر منظر اعجاز کا گوشہ بھی قائم کیا جائے ۔ ا س موقع پر انہوں نے منظوم خراج عقیدت پیش کی ۔ وہ ایک شخص جو ہیرے کی کھان جیسا تھا ۔ کشادہ دل کے کشادہ مکان جیسا تھا ، اسی کے سائے میں ملتی تھیں راحتیں سب کو۔ غضب کی دھوپ میں وہ سائبان جیسا تھا ، اسی کے دم سے معطر تھی محفل یاراں۔ ادب کے طاق پہ وہ عطر دان جیسا تھا ، جنہیں طلب تھی فلک علم و شعر و حکمت کی ۔ وہ ان کے واسطے اک آسمان جیسا تھا ، ہر ایک آنکھ شناسا تھی اس کے چہرے سے۔ وہ ایک رخ جو رخ مہربان جیسا تھا، شہد کی بوند ٹپکتی تھی اس کے ہونٹوں سے ۔ ادب کے دہن میں شیریں زبان جیسا تھا، ہائے افسوس گیاوہ بھی جان سے اپنی ۔وہ آدمی جو کہ محفل کی جان جیسا تھا۔۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے ممبر و سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اکبر رضا جمشید نے اپنے تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجروح سلطان پوری نے کیا خوب کہا ہے ؎ رہے نہ رہے ہم، مہکا کریں گے ۔ بن کے کلی، بن کے صبا، باغ وفا میں ۔ یہ دنیا فانی ہے ۔ یہاں ہر شئے کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ پروفیسر منظر اعجاز اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ انکی صورت جب آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتاہے ۔ وہ صرف محقق اور تنقید نگار نہیں تھے بلکہ شاعر بھی تھے گو انکی شاعری کا کلام بہت کم ہے ۔ وہ قریب ایک درجن کتاب کے مصنف تھے۔ انہوں نے میری کئی کتابوں پر خیالات کا اظہار کیاتھا۔ آج اردو ادب کا ایک پایہ گر گیا مگر تا قیامت اردو ادب انہیں یاد کرے گا۔ اردو ادب میں انکی تحریریں بن کے صبا بن کے کلی باغ وفا کو معظر کرتا رہے گا۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے ممبر و معروف صحافی ڈاکٹر انوارالہدیٰ نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ پروفیسر منظر اعجاز سے تعلقات بہت زیادہ پرانا نہیں ہے وہ جب بھی گورنمنٹ اردو لائبریری آیا کرتے تو ان سے گھنٹوں باتیں ہوا کرتی ۔ کسی موضوع پر ان سے کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو وہ اس کا مدلل جواب دیا کرتے ۔ ادھر کے دنوں وہ اکثر بیمار رہا کرتے اپنی نقاہت کے باوجود وہ ادبی محفلوں میں ضرور تشریف لاتے اور سامعین کے ذوق ادب کی تسکین کیا کرتے ۔ انکے انتقال سے بہار کی اردو ادب نے ایک گوہر نایاب کھودیا ہے ۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے ممبر محمد نسیم الدین احمد نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ اردو ادب نے ایک تجربہ کار اور مستند استاد کھودیا ہے ۔ ادب کا ایک اچھا ،سنجیدہ قاری،ایک معروف و مستند ناقداور ایک ہمدرد استاذ اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔منظر اعجاز صاحب کی رحلت سے ملک میں اردو تنقید کا ایک اور ستون گر گیا جو انتہائی افسوسناک ہے۔خدا مرحوم کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے انچارج لائبریرین محمد اظہر الحق نے لائبریری سے انکے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا اور کہا کہ اکثر وہ لائبریری کی ترقی کے بارے سوچتے اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ وہ نہایت ہی ہمدرد انسان تھے ۔ ان سے لائبریر ی اور ہم لوگوں نے کافی استفادہ حاصل کیا ہے ۔ ایسی ژخصیت کو آسانی سے بھلا پانا ممکن نہیں ہے ۔
تعزیتی نشست کی نظامت کرتے ہوئے گورنمنٹ اردو لائبریری کے لائبریرین پرویز عالم نے مرحوم سے اپنے دیرینہ اورمخلصانہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے انکے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو شئیر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیارے سے انہیں پجو بھائی کہتے تھے ۔ وہ اردو کی محفلوں کو سجانے اور سنوارنے میں میرا کافی تعاون کرتے تھے ۔ ایسے اچھے انسان کا ہمارے درمیان سے گزر جاناواقعی غمزدہ کرگیا ۔
بزرگ شاعر معین کوثر نے پروفیسر منظر سے اپنے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے انکی ادبی خوبیوں سے سامعین کو روشناس کرایا ۔ کہنہ مشق شاعر منیر سیفی نے بھی پروفیسر منظر اعجاز کے تعلق سے کئی اہم باتیں کیں۔ معروف شاعر اثر فریدی نے اپنے تعزیت کلمات میں کہا کہ پروفیسر منظر اعجاز سے ان کا تعلق بہت پرانا ہے جب وہ درس و تدریس کے میدان میں نہیں آئے اکثر جب کبھی مظفرپور سے پٹنہ آتے تو عیسائی قبرستان کینزد واقع میری دکان پر تشریف لاتے اور گھنٹوں ان سے باتیں ہوتیں۔ ہم لوگوں نے ایک اچھا ادیب کھودیا ہے ْ ۔ شاعر میم اشرف نے پروفیسر منظر اعجاز کے تعلق سے منظوم خراج عقیدت پیش کی ۔اس موقع پر شاعر کلیم اللہ کلیم دوست پوری،شبیر انور ، محمد اسلم ، اقتدار الدین پہلو، شاہد الحق ، الطاف راجا، وغیرہ نے تعزیتی کلمات کہے۔ آخر میں انکے لئے دعائے مغفرت کی گئی ۔

 

About awazebihar

Check Also

پٹنہ میں صفائی ملازمین کی ہڑتال 14 دن بعد ختم

پٹنہ : (اے بی این ) پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے صفائی ملازمین کی ہڑتال ختم …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *