پٹنہ : (اے بی این ) ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف داخل عرضیوں پر پٹنہ ہائی کورٹ میں آج سماعت مکمل ہو گئی۔ عدالت نے بہار حکومت کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر 2 اور 3 مئی کو سماعت کی، لیکن اس سلسلے میں عبوری فیصلہ جمعرات تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔آج ہوئی سماعت کے دوران پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے وی چندرن کی ڈویژنل بنچ نے ریاستی حکومت سے سوال کیا کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری اور معاشی سروے کرانے کا اختیار ریاستی حکومت کے پاس ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی تو نہیں۔ علاوہ ازیں عدالت نے حکومت سے یہ سوال بھی کیا کہ معاشی سروے یا ذات پر مبنی مردم شماری کرانا کیا قانونی مجبوری ہے۔ حکومت اسے کرانے میں اتنی جلدبازی کیوں کر رہی ہے۔
اس سے قبل منگل کے روز عرضی دہندہ اکھلیش کمار کی طرف سے دینو کمار اور ریتوراج نے عدالت میں دلیل پیش کی کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا اختیار ریاستی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ بہار حکومت اپنے حلقہ اختیارات سے باہر جا کر ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرا رہی ہے۔ یہ شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی دہندہ کے وکیل نے کہا کہ اگر حکومت کو ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرنے کا حق حاصل ہے تو وہ اس پر قانون کیوں نہیں بنا رہی ہے۔اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پی کے شاہی نے حکومت کی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ذات سے کوئی بھی ریاست اچھوتا نہیں، اور ذاتوں کی اہمیت کو کوئی بھی ریاست مسترد نہیں کر سکتی ہے۔ ذاتوں کی جانکاری کے لیے پہلے بھی منگیری لال کمیشن بنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پی کے شاہی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 37 کے تحت ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے بارے میں جانکاری لے۔ اس کا مقصد لوگوں تک حکومت کے منفعت بخش اور فلاحی منصوبوں کو پہنچانا ہے۔
