امپھال : (ایجنسی)منی پور میں تشدد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سخت قدم اٹھایا ہے۔ تازہ ترین خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جانکاری کے مطابق منی پور حکومت نے جمعرات کو قبائلیوں اور میتیئی طبقہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو روکنے کے لیے انتہائی سنگین معاملوں میں شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا ہے۔ گورنر کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ جب سمجھانا بجھانا، تنبیہ کرنا اور مناسب طاقت کے استعمال کی حد پار ہو گئی ہو اور حالات کو قابو نہیں کیا جا سکے، تو دیکھتے ہی گولی مارنے کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ نوٹیفکیشن پر ریاستی حکومت کے کمشنر (داخلہ) کا دستخط موجود ہے۔دراصل منی پور میں بدھ کے روز پیش آئے تشدد کے بعد حالات کو سنبھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن کشیدگی ہنوز برقرار ہے۔ ہندوستانی فوج اور آسام رائفلز کے جوانوں نے تشدد زدہ علاقوں سے اب تک 9000 سے زائد شہریوں کو ریسکیو کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے رات بھر ریسکیو آپریشن چلایا گیا اور یہ عمل صبح کو بھی جاری رہا۔ تشدد متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کو فوج اور آسام رائفلز کے ذریعہ ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔اس درمیان کانگریس نے منی پور میں پیدا خراب حالات کے لیے بی جے پی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’منی پور جل رہا ہے۔ بی جے پی نے برادریوں میں شگاف پیدا کیا ہے اور ایک خوبصورت ریاست میں موجود امن کو پوری طرح ختم کر دیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’بی جے پی کی نفرت و تقسیم کی سیاست اور اقتدار کا لالچ اس خراب حالت کے لیے ذمہ دار ہے۔‘‘ اپنے ٹوئٹ میں کھڑگے نے عوام سے گزارش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہم لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور امن کو بحال ہونے کا موقع دیں۔‘‘کانگریس جنرل سکریٹری اور سرکردہ لیڈر جئے رام رمیش نے منی پور میں تشدد واقعہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے بی جے پی پر حملہ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ڈبل انجن حکومت کی یہ حقیقت ہے: ریاست کو آگ لگا دو، مرکز میں خاموش رہو۔‘‘ پھر وہ لکھتے ہیں ’’بی جے پی کے ذریعہ حکومت تشکیل کے 15 ماہ سے بھی کم عرصے میں پوری ریاست منی پور میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔ لیکن مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور پی ایم مودی کرناٹک میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔‘‘واضح رہے کہ ریاست میں کشیدگی پر قابو پانے کے لیے 8 اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور پانچ دنوں کے لیے پوری ریاست میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا اعلان ہو چکا ہے۔ کئی اضلاع میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی اور ہندوستانی فوج کے جوانوں نے فلیگ مارچ بھی نکالا۔ کچھ علاقوں میں حالات قابو میں ہیں، لیکن لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے دو طبقوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد جمعرات کوریاست میں امن بنائے رکھنے کی اپیل کی۔مسٹر سنگھ نے کہا کہ لوگوں کو غلط پیغامات اور افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں اور ہر کسی کو ریاست میں حالات معمول پر لانے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔ انہوں نے تمام رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور عام لوگوں سے امن کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔منی پور میں آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین، منی پور نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ایک احتجاجی ریلی منعقد کرنے کے بعد بدھ کو دو طبقوں کے درمیان جھڑپیں اس وقت شروع ہوگئیں ، جس میں ریاستی حکومت میٹیوں کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ پر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
تشدد کے دوران بشن پور، مورہ، امپھال ایسٹ، امپھال ویسٹ، چورا چند پور اضلاع میں بڑی تعداد میں مکانات کو جلا دئے گئے۔ چورا چند پور ضلع سے خواتین کی مبینہ عصمت دری کی خبریں آنے کے بعد ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر ز بردست مظاہرہ شروع ہو گیا۔ سیکورٹی فورسز نے جمعرات کوکئی مقامات پر پھنسے لوگوں کو بحفاظت نکالا۔
ایک فوجی اہلکار نے بتایا کہ چورا چند پور، کانگ پوکپی اور امپھال اضلاع کے کئی علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔ مقامی انتظامیہ نے 3 اور 4 مئی کی درمیانی رات کو فوج اور آسام رائفلز کے اہلکاروں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔
اس کے بعد فوج اور آسام رائفلز کے دستوں نے منی پور پولیس کے ساتھ مل کر صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری مداخلت کی۔ صبح تک تشدد پر قابو پا لیا گیا۔ تشدد سے متاثرہ علاقوں کے تقریباً 4000 دیہاتیوں کو مختلف آرمی/آسام رائفلز کے کیمپوں اور مختلف مقامات پر ریاستی حکومت کے احاطے میں پناہ دی گئی ہے۔
صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف مقامات پر فلیگ مارچ کیے جا رہے ہیں۔ دیہاتیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کام بھی جاری ہے۔
ریاست میں حالات کشیدہ رہے اور صورتحال پر قابو پانے میں ریاستی فورسز کی مدد کے لیے جمعرات کو مرکزی سیکورٹی اہلکار یہاں پہنچے۔ حکومت نے بدھ کو کشیدگی پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگا دیا اور موبائل انٹرنیٹ خدمات معطل کر دیا۔
