دنگائی بابو بجرنگی ضمانت رہا اور…

از: آفتاب اظہرؔ صدیقی
قارئین کرام! غازی آباد، اترپردیش کے تحصیل احاطے میں ایڈوکیٹ منوج چودھری (35 سال) کو دن دہاڑے چیمبر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔وہ دن میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ اسی دوران حملہ آور ان کے چیمبر میں داخل ہوئے اور انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔کیا یہ وہی اترپردیش ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ ہم نے یوپی میں لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرل کیا ہے، کیا اس صورت حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یوپی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یوپی میں پہلے سے زیادہ غنڈہ گردی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے 2020ء؁ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”ناانصافی، مظالم، بدعنوانی اور چاروں طرف خوف اور انتشار کا ماحول بی جے پی حکومت کی پہچان بن گئی ہے۔” قتل، ڈکیتی، اغوا اور عصمت دری کی وارداتیں عروج پر ہیں۔ ”اتر پردیش میں غنڈوں کی وجہ سے دہشت کا ماحول ہے اور مجرم اب پولیس پر بھی ہاتھ اٹھانے سے نہیں کترا رہے ہیں۔ اور اب تو وکیلوں کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ہے۔
اکھلیس یادو نے کہا تھا کہ ریاست میں کھنن مافیا اپنی الگ ہی حکومت چلا رہے ہیں۔ حکومت کے بڑے لیڈروں کی سرپرستی میں معدنیات کا کالا دھندہ جاری ہے۔ اس کاروبار پر انگلی اٹھتے ہی مافیا، حکمران اور بیوروکریسی متحرک ہو جاتی ہے۔ جس کی زد میں کئی صحافی اور سیاسی کارکن اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔کئی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں دلتوں پر مظالم بہت بڑھ گئے ہیں۔
قارئین! لالو-نتیش کی متحدہ حکومت کے باوجود بہار کے مخدوم پور، جہان آباد میں ہندو دہشت گردوں کی دہشت عروج پر ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے۔ جس میں پستول دکھا کر ماجد عالم سے مفت سگریٹ، گٹکھا اور پیسے لینے والے بھگوا پوش دہشت گرد کو دیکھا گیا ہے جس کا نام ونے یادو بتایا جارہا ہے۔یہ تو جرم کا ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ بھگوا دہشت گردی کے واقعات اور نفرت کے پروپیگنڈے بہار میں بھی تیزی کے ساتھ فروغ پارہے ہیں، نتیش اور تیجسوی کی گٹھ بندھن سرکار کو چاہیے کہ ایسے سبھی نفرت باز غنڈوں کا پتا لگاکر ان کے خلاف بروقت ایکشن لیا جائے، ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی نظر رکھی جائے، اس لیے کہ سوشل میڈیا پر ان دنوں مذہب مخالف ویڈیوز کی کثرت دیکھنے کو مل رہی ہے، ان سبھی نفرت باز لڑکوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرنے کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔
قارئین!ایوارڈ تقریب کے دوران ایک ہندو طالبہ کے ذریعے ایک نظم پڑھ کر سنائی گئی ہے، جس میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دیا گیا ہے۔ کیا اس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ملک میں ہندو اساتذہ ہندو بچوں کو مسلم مخالف ذہنیت دے رہے ہیں؟حال ہی میں مظفر نگر کے ایک اسکول کی ٹیچر ترپتا تیاگی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی، جس میں وہ مسلم بچے کو ہندو بچوں سے پٹواتی ہوئی اور مسلمانوں کے بارے میں تبصرہ کرتی ہوئی نظر آئی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں اس کی اس حرکت کی مذمت کی گئی اور پھر اس نے مجبور ہوکر معافی بھی مانگی۔ ان واقعات سے اتنا تو پتا چلتا ہے کہ نفرت کا زہر اب اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے اندر تک پہنچ چکا ہے۔ یہ نفرت کہاں سے آئی؟ کہاں سے پروان چڑھی؟کیا آر ایس ایس کی تربیت گاہوں سے؟ کیا بجرنگ دل کے دفتروں سے؟ کیا کسی خاص مذہب کے خلاف دھرم سنسد کرنے والوں کے ذریعے؟ کیا ٹی وی نیوز چینلوں پر بیٹھ کر نفرت بھری زہرلی خبر بتانے والے گودی میڈیا اینکروں کے ذریعے؟ کیا اپنے مفاد کے لیے سیاسی روٹی سینکنے اور ووٹوں کی سیاست اور نفرتی تقریر کرنے والے لیڈروں کے ذریعے یہ نفرت پروان چڑھی ہے، یا پھر یہ سب کے سب اس نفرت کو عام کرنے اور ملک کی فضا کو زہر آلود بنانے میں برابر کے حصہ دار ہیں؟
قارئین! بٹو بجرنگی کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا، وہی میوات دنگے کے اصل مجرمین میں سے ایک، جس کی وجہ سے میوات میں فساد کی آگ بھڑکی، جس کے دھمکی بھرے ویڈیو نے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا تھا، حالانکہ بٹو بجرنگی کا سواگت اس کے مطابق ہار مالاؤں سے نہیں کیا گیا، بلکہ نہ جانے سواگت کا کیا طریقہ رہا ہوگا کہ میوات دنگے کے بعد اس کا ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں وہ بچوں کی طرح روتا ہوا نظر آیا تھا، لیکن یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ میوات دنگے کے ماسٹر مائنڈ مجرموں میں ایک نام بٹو بجرنگی کا بھی تھا؛ لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ اب بٹو بجرنگی کو ضمانت مل گئی ہے،سیشن کورٹ نے بٹو بجرنگی کی ضمانت منظور کرلی ہے۔اسے 15 دن پہلے فرید آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ 15/ دن پہلے جس دنگائی بٹو بجرنگی کو پولیس گھسیٹ کر لائی تھی، اسے پندرہ دن میں ہی ضمانت مل گئی ہے۔ لوگ انتظار میں تھے کہ بٹو بجرنگی کے گھر پر بلڈوزر چلے گا؛ لیکن اسے تو رہائی مل رہی ہے۔ اگر یہ کیس سپریم کورٹ میں ہوتا تو کیا اس وقت بھی یہی خبر سننے کو ملتی؟ کیا میوات کے اجڑے ہوئے لوگوں کو یا ملی تنظیموں کو بٹو بجرنگی کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل نہیں کرنا چاہیے؟ اس ملک کے قید خانوں میں بے شمار مسلم نوجوان بند ہیں جن پر صرف ایسے الزام ہیں جو برسوں سے ثابت نہیں ہوپائے ہیں؛ لیکن مجال ہے کہ انہیں اتنی جلد کسی عدالت سے ضمانت مل جائے، جب تک ان کی جوانیاں ختم نہیں ہوجاتیں اور ان کی زندگی تباہ نہیں ہوجاتی تب تک انہیں ضمانت بھی نہیں ملتی، یعنی وہ غیر ثابت شدہ جرم کے سبب سالہا سال جیلوں میں بند رہتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف صرف نام اور مذہب کے الگ ہونے سے بٹو بجرنگی جیسے مجرموں کو صرف پندرہ دنوں میں ہی ضمانت مل جاتی ہے؛ بلکہ جیل سے رہا ہونے والے اس فسادی کا خیر مقدم بھی کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بٹو بجرنگی نے جیل سے باہر آتے ہی سوشل میڈیا پر بیان نہ دینے کے عدالتی حکم کی دھجیاں بھی اڑا دی ہیں۔عدالت نے اسے سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہ دینے کا حکم دیا تھا۔لیکن بٹو تو سچن کی طرح چھکے لگانے کی بات کر رہاہے۔ اطلاع کے مطابق اشوک بابا، جو فسادات کے پیچھے کا ماسٹر مائنڈ بتایا جارہا تھا اس نے بٹو بجرنگی کو جیل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
قارئین! ہندو تنظیم کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو مارنے پیٹنے کا نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔مونو مانیسر کی نام نہاد گؤ رکشک ٹیم کے ارکان نے گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں دو مسلم ڈرائیوروں کی پٹائی کی ہے۔ گائے کے نام پر آئے دن مسلمانوں کو لنچ کیا جا تا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایسے میں بہت سے مسلم رہنماؤں کا اب یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی جان کی حفاظت کی خود فکر کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارا آئین بھی سیلف ڈفینس کی اجازت دیتا ہے۔
قارئین!مایاوتی نے سہارنپور کے دم دار نیتا عمران مسعود کو اپنی پارٹی بی ایس پی سے نکال دیاہے۔ جس کے بعد عمران مسعود نے مایاوتی پر سنگین الزامات بھی لگائے ہیں، عمران مسعود نے کہا کہ، ”مایاوتی چاہتی تھی کہ میں سہارنپور سے اپنی برادری (مسلمانوں) سے 5 کروڑ روپے اکٹھے کر کے انہیں دوں، میں نہیں دے سکتا تھا، اتنی بڑی رقم کہاں سے لاتا؟ میری حیثیت اتنی نہیں ہے۔ میرے پاس ووٹ ہیں، نوٹ نہیں ہیں۔ یہی میری غلطی ہے کہ میں ان کو پیسے نہیں دے سکا۔
قارئین! مایاوتی پر ٹکٹ بیچ کر پیسے لینے کے الزامات لگتے رہے ہیں، مایاوتی کے بارے میں یہ بات یقین کی حد تک مشہور ہے۔ آج کے بے روزگار نوجوانوں کو مایاوتی جیسی سیاست دانوں سے انسپریشن لینے کی ضرورت ہے، ہر صوبے کے بے روزگاروں کو مل جل کر ایک ایک سیاسی پارٹی بنالینی چاہیے اور اگر پارٹی کسی ایک برادری کو لے کر بنائی جائے تو اور بڑھیا ہے، کچھ دن غریبوں کے حق حقوق کی بات کیجیے، اقلیتوں پر مظالم کا رونا روئیے، کچھ پیسہ اپنی زمین وغیرہ بیچ کر لگائیے اور کچھ چندہ کرکے، پھر الیکشن آنے پر ہر اسمبلی حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا کر دیجیے، اگر آپ اپنی برادری کے پچیس فیصد لوگوں کو بھی لبھانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر دیکھیے کہ کیسے آپ کے آفس کے باہر ٹکٹ خریدنے والوں کی لائن لگتی ہے، کل تک آپ روزگار تلاش کرنے کی لائن میں لگتے تھے، پارٹی بنالینے کے بعد روزگار دینے والوں کی لائن آپ کے دروازے پر لگنے لگے گی، یہ سیاست کا بازار ہے جہاں خریدنے والے بھی بہت ہیں اور بیچنے والے بھی بے شمار۔ اگر ٹکٹ بیچ کر فائدہ نہ ہوا تو کسی بڑی پارٹی سے اند رخانے سیٹنگ کر لیجیے اور اس کے مد مقابل کے ووٹوں کو خراب کرنے کا ٹھیکہ لے لیجیے، ڈبل کمائی کا اس سے بہتر ذریعہ کیا ہوگا، میرے خیال سے بے روزگاری کو کم کرنے کی یہ ایک اچھی تحریک ہوگی، یہ سیاست کی لائن ہے، جہاں پیسہ بھی ہے اور پبلسٹی بھی۔
قارئین! حکومت نے 3/ سالوں میں ایل جی پی کی قیمت میں 85 فیصد اضافہ کرنے کے بعد اب اس میں 18 فیصد کی کمی کر دی ہے، یعنی یہ پہلے سے اب بھی 67 فیصد مہنگا ہے، لیکن آپ گودی میڈیا چینلوں پر شور سنیے، جیسے دو سو روپے کم کرنے والی سرکار نے پورے دیش کی مہنگائی کم کردی ہو، حالانکہ گیس سلینڈر اب بھی اتنا ہی مہنگا ہے جو غریبوں اور مڈل کلاس گھرانوں کے بجٹ پر بھاری اثر ڈالتاہے۔ابھی کھانے پینے کی چیزوں پر جی ایس ٹی لاگو ہے، چاول، دال، آٹا پر جی ایس ٹی لاگو ہے، پیٹرول اور ڈیژل کی قیمت آسمان چھو رہی ہے، بھاری بھرکم جی ایس ٹی نے کاروباریوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ لیکن کیا گودی میڈیا چینلوں پر بیٹھے ہوئے زرخرید اینکرز ان مدعوں پر چرچا کرنا پسند کریں گے؟

About awazebihar

Check Also

نبیِ رحمت ﷺ اور خواتین

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل پوری دنیا میں خواتین کا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *